جب میرا نانا رنڈوا ہوا تو میری نانی دودھ پیتی بچی تھی


یہ کہانی اس بچپنے کا احوال ہے جب خالہ زاد بھائی مہدی حسن کے ساتھ برہنہ تشریف کی کچے رڑے پر گھسیٹا کاری کا مقابلہ ہوا کرتا تھا۔ اگرچہ اب یہ سرگرمی انجام دینے کی قوت و سکت باقی نہیں رہی تاہم برادرم مبشر اکرم آج بھی مرور زمانہ کی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے اپنی خیریت پوچھے جانے پر خود کو اسی عمل میں معناً مشغول بتاتے ہیں۔ طرفہ تماشا یہ کہ اگر میرا حال بھی پوچھنا ہوتو یہی پوچھتے ہیں کہ کیا اب بھی گھسیٹوائی جاری ہے؟

وہ ‘گھراس’ جہاں گاؤں کے چند لوگ تب بھی گیہوں کے دانے بیلوں کے گول گول چکر کاٹ کر چلتے رہنے پہ گھومنے والے پتھروں کے دو پاٹوں پر پیسواتے ہیں اور یہ نانکی گلی کے موڑ پہ بنا بہت بڑا سا گول کچا کمرہ ہے اور جس کی واحد کھڑکی گلی میں کھلتی ہے اور جہاں ایک بلا رہتی ہے اور جس کی شکل کا تصور کروں تو اپنی نانی کا چہرہ خیال میں آتا ہے کہ نانی ہی اس بلا کی اکلوتی راوی تھی اور خود اپنے خواص اس بلا سے منسوب کئے رکھتی تھی۔

 گھراس کے بالکل سامنے ایک ڈیرہ ہے جسے ہماری مقامی زبان میں دیرہ کہتے ہیں۔ اگر میں نانی اماں کے گھر کی بل کھاتی لہراتی دہلیز پار نہیں کر گیا تو اس دیرہ میں ضرور جھانکوں گا کیونکہ وہاں میرے چاچا اکسیر عباس کا دوست چاچا توقیر اپنی بھینسوں کا چارہ ہاتھ سے چارہ کاٹنے والی مشین پہ کاٹ رہا ہو گا۔ چارہ کٹنے کا یہ عمل بھی دیکھنے لائق ہے۔ اگر وہ اکیلا ہوا تو خود ہی ثابت چارے کی ڈالیاں اٹھا اٹھا کر مشین کے دندوں میں رکھے جا رہا ہوگا اور پھر زور زور سے مشین چلائے جائے گا۔ جب بھی ہتھی کا چکر ایک گولائی میں پورا ہوگا اور چارے کی ڈالیاں آرے کے نیچے سے کٹ کٹ کر گریں گی چاچے توقیر کے حلق سے ہُف کی آواز آئے گی۔ شاید جب چارے کو آرا کاٹتا ہے تو ہتھی پہ زور لگتا ہے۔ اس آس پہ کہ شاید کبھی چاچا توقیر مشین پہ موجود نہ ہو اور مجھے وہ مشین گول گول چلانے کا موقع مل جائے میں نے اس ڈیرے پہ ان گنت جھانکیاں لگائیں مگر ہمیشہ یا تو وہ خود موجود ہوتا یا اس مشین کو زنجیر سے باندھ رکھا ہوتا۔ شاید وہ میری اور مجھے جیسے بیسیوں دوسرے بچوں کی اس خطرناک خواہش سے واقف تھا۔

نانی کے گھر کا کوئی دروازہ نہیں ہے۔ کچی مٹی کی ایک ادھوری دیوار شمالاً جنوباً ہے اور پانچ قدموں کے فاصلے پہ ایک اور ایسی ہی دیوار جنوباً شمالاً ہے۔ یہ بھول بھلیوں جیسے دیوار نانکی چار دیواری کا پردہ ہے جو کوئی دروازہ نہ ہونے پر بھی 45 سال قائم رہا اور میری ماں سمیت میری دو خالائیں اسی زگ زیگ سے ہو کر اس گھر سے اپنے اپنے سسرال رخصت ہوئیں اور میری دو پھپھیاں میری ممانیاں بن کر یہاں میری نانی کی بہوئیں بنیں۔

اس گھر میں داخل ہوں تو الف لیلوی داستان آپ کی منتظر ہوگی۔ دائیں جانب طہارت خانہ ہے اور یہ محض لفظاً نہیں ہے۔ آپ یہاں سوائے طہارت کے واقعی کچھ نہیں کر سکتے۔

ساتھ ہی چاردیواری میں نلکا لگا رکھا ہے جہاں غسل کی خاطر چادر باندھ کے بڑے ماموں داخل ہو رہے ہوں گے اور دیوار کی اوٹ سے انہوں نے اس چادر سے نلکے کی چاردیواری کا پردہ بنا دیا ہو گا۔ چادر گر نا جائے اس ڈر سے وہ دو اینٹیں اس کے دونوں پلووں پہ رکھ دیں گے۔ گھڑچ گھڑچ نلکا چلنے لگے گا۔

سامنے کے نچلے صحن میں نکے (چھوٹے) کوٹھے کا دروازہ ہے جو شمال کی جانب کھلتا ہے۔ صحن میں ایک بہت بڑا سایہ دار کیکر ہے جو میری ماں نے اپنے بچپنے میں لگایا تھا۔ اب یہ دیوہیکل درخت ہے۔ اس کے نیچے رسی کے ساتھ شنٹو بندھا ہوا ہے۔ یہ گورا چٹا پستے قد کا پستہ کتا برسوں اس پینگ کا رفیق رہا جو کیکر کی اس ٹہنی سے بندھی تھی جس کا سایہ اب میری چھوٹی پھپھی کے تنور پہ گرمیوں کی چھاؤں کرتا ہے۔ میں نے اس پینگ پہ صرف اس صورت جھولے لئے جب مہدی شنٹو کی گردن پہ پاؤں رکھے اسے بھونکنے سے باز رکھتا ہے۔

نکے کوٹھے کی تاریخ ایک بلاگ کی نہیں بلکہ ایک پورے طویل باب کا استحقاق رکھتی ہے۔ تاہم مشتے از خروارے عرض کئے دیتا ہوں کہ یہ آج کل بھی قائم ہے ۔ یہ کوٹھا میرے نانے کے عین جوانی کے رنڈاپے کا اکلوتا گواہ ہے جس کی پہلی بیوی جوانی میں ہی پہلے بچے کی پیدائش پر وفات پاگئی تھی۔ وہ بچہ جس کا نام غلام اکبر تھا کچھ ہی ماہ میں وفات پا گیا تھا۔ میری نانی بتاتی تھیں ۔

جداں تہاڈا نانا رنڈا ہویا ہائی اوسے سال میرا دودھ چھُٹا ہائی۔ (جس سال تمہارا نانا رنڈوا ہوا تھا اس سال میری ماں نے مجھے اپنا دودھ پلانا چھڑوایا تھا۔

جداں میں پرنی کے تہاڈے نانکے ویڑے آئی ہاموں تاں تہاڈے نانے اکھیاں بنڑوایاں ہئن۔ (جس سال میں بیاہ کر تمہارے نانے کے گھر آئی تھی اس سال تمہارے نانے نے آنکھیں بنوائی تھیں۔)

جداں میرا وڈا غلام باقر ہویا ہائی تاں تہاڈے نانے من آکھیا ہائی کہ باقر دی ماں ۔ ہنڑ مینوں اکھیاں چوں کجھ نہی دِسدا۔ (جب میرا پہلوٹھی کا بیٹا غلام باقر پیدا ہوا تھا تو تمہارے نانا نے مجھے کہا تھا کہ باقر کی ماں ! مجھے اب آنکھوں سے کچھ نظر نہیں آتا۔)

وہ دن پہلا دن تھا جب میں نے فیصلہ کیا کہ اب مجھے ہی اپنے بچوں کا پیٹ پالنا ہوگا۔ تب سے کام کاج کرنے کی ایسی عادت لگی ہے کہ فرصت سے بیٹھے رہنا عذاب لگتا ہے۔

نانا جی کو رخصت ہوئے 25 اور نانی ماں کو رخصت ہوئے 10 سال ہوچکے ہیں مگر سارے گاؤں کی گلیوں سے چن چن کر اکٹھے کئے گئے پولی تھین شاپروں سے بُنے گئے بان سے وہ آرام دہ چارپائی آج بھی نانکے گھر میں کبھی کبھار میری مہربان میزبان بنتی ہے جسے میری نانی نے بے وجہ برسوں کی محنت سے بُنوا کر مجھ سے رائے مانگی ۔

کیوں بئی شوذب عسکری کیسی بنی ؟

میں بولا۔ ودھیا اے اماں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).