کاملیت پسند


کئی ہفتوں کے بعد آفتاب نے دھند کی اوٹ سے اپنا روشن چہرہ نکالا تھا۔ میٹھی میٹھی دھوپ جاڑے کی سرد ہواؤں کے دوش پہ بکھری تھی۔ میں مردہ خانے سے باہر نکلا اور کچھ ہی قدموں کے فاصلے پر موجود روزی گارڈن کے قریب جاکر رک گیا جہاں رنگ برنگے گلاب کے پھول مسکرا کر اپنی تکمیل کا اعلان کر رہے تھے اور نیم باز کلیاں ایک عالم اداسی میں یہ سوچ کر لچکے جاتی تھیں کہ کب اُن پر شباب کا جوبن ٹوٹ کے برسے گا۔

ہڑبونگ مچاتے لڑکوں کے ٹولے آئے اور میری محویت کی دیوار میں شگاف ڈالے بغیر گزر گئے۔ جامہ زیب لڑکیوں کے گروپ فضا میں ہیجان آمیز خوشبو ئیں بکھیرتے چلے گئے مگر میرا ارتکاز جوں کا توں رہا۔ میری محویت ٹوٹی ایک کھنکتے ہوئے قہقہے کے ساز سے، اور میں نے بے اختیار آواز کی جانب توجہ مبذول کی۔ سامنے ایک سر و قامت لڑکی کھڑی تھی جس کے لمبے سیاہ بال اس کے شانوں پر لہرا رہے تھے اور سفید رنگ کے لمبے سے اوورآل نے جسمانی خد و خال کو یوں چھپا رکھا تھا جیسے سیپ موتی کو چھپائے رکھتی ہے۔

سفید رنگ کے پہناوے میں اس کا ملکوتی حسن کچھ اس انداز سے نمایاں ہوا کہ میں ایک عالمِ وارفتگی میں اُسے دیکھے گیا۔ میری نگاہوں کی تپش نے اُس کے چہرے پہ سرخی دوڑا دی اور شفق کی لالی ساری کائنات پہ محیط ہو گئی۔ اُس کی لمبی گھنیری پلکیں حیا کے بوجھ سے جھکتی چلی گئیں اور سارا جہان بیت المقدس کی طرح پاکیزہ ہو گیا۔ وہ چلتی ہوئی پردہ منظر سے غائب ہو گئی اور سوگواری نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اگلی صبح جب سورج نے کُہر کی دبیز تہہ کے سامنے اعلان شکست کیا اور سر دہواؤں کی شوریدہ سری سبھی حدود کو پھلانگ گئی میں نے پہلی بار اُس کی آنکھوں میں جھانکا۔

اُس کی خوبصورت آنکھیں جن میں وحشت تھی یا اُس کی وحشی آنکھیں جن میں خوبصورتی تھی۔ اُس کی بھوری آنکھیں جن میں سیاہی کا پرتو تھا یا اُس کی سیاہ آنکھیں جن سے بھورا رنگ جھلکتا تھا۔ آنکھوں کے بیچ میں تیرتے گلابی ڈورے جن کے عقب میں گہرائی تھی یا آنکھوں کے درمیان سے جھانکتی گہرائی جس کے پیچھے گلابی لہریئے تھے۔ جاڑوں کے بعد خزاں کی اداس لہر چلی۔ پھر بہار نے روزی گارڈن میں رنگ بھر دیے۔ اِس کے بعد تپتی گرمیوں کے دن آئے اور تمام گلاب جل کر راکھ ہو گئے مگر میں اُنہی دو لمحوں کو حاصل کائنات بنائے زندگی کی ٹیڑھی پگڈنڈی پر سیدھا چلنے کی کوشش کرتا رہا۔

کئی بار میں نے اِس بے نام جذبے کو نطق بخشنے کا ارادہ کیا مگر کوئی غیبی طاقت میرے لب سی کر مجھے گنگ کر دیتی اورمیں اپنے اندر کی آگ میں جل کر خاکستر ہو جاتا۔ ۔

 روزی گارڈن اور مردہ خانے کے درمیان ایک ایسا مقام آتاہے جو زندگی اور موت کا نقطہء اتصال ہے۔ یہ وہی مقام ہے جہاں میں نے اُسے پہلی اور آخری بار دیکھا تھا۔ پچھلے اڑھائی ہزار برسوں سے میں سانس روکے، یہیں دھیان جمائے بیٹھا ہوں، مبادا یہ منظر آنکھوں سے پھسل جائے اور میرا اظہار ادھورا رہ جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).