​مرحوم و مغفور جماعت اسلامی


اسلامی سیاست کا شمار ان اصطلاحات میں ہوتا ہے جو مغرب اور اس کے پیروکاروں کو ناپسند ہیں۔ اسلامی سیاست سے مغربی اور امریکی ارباب اقتدار کو اس قدر نفرت ہے کہ اس کے خاتمہ کے لیے وہ راستے بھی اختیار کیے جاتے ہیں جو جمہوری روایات سے میل نہیں کھاتے، بدقسمتی سے ان اقدامات کی پشت پناہی اکثر خود جمہوریت کا پرچار کرنے والے ممالک کی جانب سے ہی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی سیاست پر یقین رکھنے والے ہمیشہ عالمی نظام کی نا انصافی سے شاکی نظر آتے ہیں، اور اپنی ناکامی کا ذمہ دار انہی عالمی اجارہ داروں کو قرار دیتے ہیں۔

پاکستان میں جماعت اسلامی کے کارکنان کی اکثریت بھی یہی سمجھتی ہے کہ ان کودانستہ طور پر اقتدار سے دور کیا جاتا ہے، تاہم حالات کا تجزیہ اس دعوے کی بے وزنی کے جانب اشارہ کرتا ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان سیاسی اعتبار سے کئی ایسی غلطیوں کی مرتکب رہی ہے جس کی وجہ سے اسلامی سیاست کے مخالفین کم ازکم جماعت اسلامی کی حد تک بے فکر ہوگئے ہیں، کیونکہ جماعت اسلامی کی سیاسی غلطیوں کے بعد کسی اور کو ان کے خلاف سازش کرنے کی ضرورت نہیں۔

2018 کے انتخابات میں جماعت اسلامی کو شکست فاش ہوئی، اطلاعات کے مطابق جماعت نے داخلی طور پر شکست کے اسباب کا تعین کرنے کے لیے رپورٹ مرتب کی ہے، جس کی روشنی میں جماعت کے کچھ حلقوں میں انتخابی عمل میں کسی اور نام سے شرکت بھی زیر غور ہے۔ خود احتسابی کا یہ عمل قابل داد ہے، جماعت کو ایک قدم آگے بڑھ کر ان کرداروں کا بھی فیصلہ کرنا چاہیے جن کی ’سیاسی بصیرت‘ ، جماعت کے تباہ کن فیصلوں کے پیچھے کارفرما ہوتی ہے۔

جماعت اسلامی نے ماضی میں جو غلطیاں کی ان کی فہرست طویل ہے، اور ان کے ذکر سے کوئی فائدہ نہیں، البتہ جماعت کو آگے کیا کرنا چاہیے اس حوالے سے بحث یقینا جماعت کے لیے مفید ہوسکتی ہے۔

 اہم ترین بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی کو یہ حقیقت تسلیم کرنا ہو گی کہ ان کی جماعت کا نام اب تنظیم پر بوجھ بن چکا ہے، عوام کی نگاہوں میں جماعت اسلامی، اسلامی سیاست کی علمبردار نہیں بلکہ ان غلط فیصلوں کی علامت بن چکی ہیں جو ماضی میں جماعت سے سرزد ہوئے، دوسرے الفاظ میں عوام کی نگاہ میں جماعت اسلامی کی سیاسی موت واقع ہوچکی ہے، لہذا جماعت اسلامی کا عنوان تبلیغی سرگرمیوں تک محدود ہوجانا چاہیے۔ سیاسی میدان میں کام کرنے کے لیے جماعت اسلامی سے علیحدہ ایک نئی سیاسی جماعت تشکیل دینی چاہیے جو موجودہ تنظیم و ترتیب کو استعمال کریں، لیکن اپنے دستور عمل اور عوامی چہرے میں مثبت اور جاذب تبدیلیاں لائیں۔

جماعت اسلامی کی جمہوری روایات قابل تعریف ہے، ان جمہوری روایات کو نئی سیاسی جماعت میں بھی منتقل ہونا چاہیے، لیکن جماعت کی قیادت کرشماتی شخصیت کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔ جماعت کے آئندہ انتخابات میں امیر جماعت کے لیے نامزد کوئی شخصیت بھی متاثر کن نہیں، تاہم جماعت میں یقینا ایسی کئی شخصیات ہوں گی (مثال کے طور پر حافظ نعیم الرحمن ) جو امارت کی ذمہ داری بخوبی سر انجام دیں، اور عوام کو متوجہ کرنے کی کی صلاحیت بھی رکھتی ہوں۔

نئی جماعت کرشماتی قیادت کے ساتھ جب عوام میں جائی گی تو یقینا عوامی رد عمل بھی مختلف ہوگا، یہاں اس بات پر توجہ ضروری ہے کہ عوام اپنے ذہن میں اس نئی اسلامی سیاسی جماعت کو کس صف میں شمار کریں، ملک میں اس وقت ایک طرف پرانی بڑی پارٹیاں ہیں، جن کو روایتی سیاسی جماعتیں کہا جاسکتا ہے، اوردوسری طرف تبدیلی کی علمبردار تحریک انصاف ہے، باقی چھوٹی جماعتیں انہی کی تابع ہیں۔ نئی سیاسی جماعت کے لیے مناسب یہ ہوگا کہ وہ (موجودہ سیاسی تقسیم سے ہٹ کر) خود کو تحریک انصاف کے متبادل کے طور پیش کریں، جس طرح ماضی میں تحریک انصاف نے خود کو روایتی جماعتوں کے متبادل کے طور پر پیش کیا تھا، اس عمل میں نئی جماعت کی قیادت کا بے داغ ماضی معاون ہوگا، اور جماعت کے متبادل پلان کو سنجیدگی سے دیکھا جائیں گا۔

جماعت کے دوستوں کو میڈیا سے اکثر شکایت رہتی ہے، بہت ممکن ہے کہ میڈیا سے متعلق جماعت کے تحفظات درست ہوں، لیکن اس مسئلہ کا حل بھی جماعت کو خود ہی ڈھونڈنا ہوگا، اس کی ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ نئی جماعت کی قیادت نامور صحافیوں اور میڈیا مالکان سے ذاتی بنیاد پر تعلقات استوار کریں، اپنے پروگرامز میں صحافیوں کو اعزازی مہمان کے طور پر دعوت دی جائیں، تاکہ کم از کم صحافیوں کویہ معلوم ہو کہ جماعت کی سرگرمیاں کیا ہیں، اس کے علاوہ حالات کے تقاضوں کے مطابق ہر معاملہ پر جماعت کا ٹھوس عوامی موقف سامنے آئے گا تو میڈیا خود ہی جماعت کے ترجمانوں کو توجہ دیں گا۔

یہ توجیہات جماعت کے لیے درس نہیں، بلکہ ایک مخلص کی گزارشات ہیں جومیں اس کالم کے ذریعے جماعت کے ذمہ داران تک پہنچا رہا ہوں، امید ہے کہ ان نکات پر غور کیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).