با ادب با مراد


بحثیت استاد میں نے سال ہا سال بہت سے بہترین، با ادب اور اثر قبول کرنے والے طالب علم دیکھے جنہوں نے میرے دل میں اپنے لیے ایک قابلِِِِِِِِِ ستائش مقام پیدا کیا۔ اِس کے ساتھ ہی کچھ ایسے طلبہ سے بھی واسطہ پڑتا رہا جو تعلیمی لحاظ سے تو ٹھیک ہیں لیکن افسوس کہ اخلاقی طور پر ادب کی صفت سے محروم ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ یہ کتنی بڑی محرومی ہے۔ کانفیڈنس کے نام پر اساتذہ سے بلند آواز میں گفتگو کرنا، بے معنی بحث کرنا، ان کی ڈانٹ پر غصے کا اظہار کرنا بعض طلباء و طالبات کے لیے معمولی سی باتیں ہیں۔

میں جانتی ہوں کہ آج کے دور کے طلبہ آزاد خیال ہیں، ان کی مشکلات اور پیچیدگیاں زیادہ ہیں۔ لیکن کسی بھی دور میں بے ادبی، بد لحاظی اور بدتمیزی طلبہ کا شیوہ نہیں ہو نا چاہیے یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے۔ ان کی معصوم شرارتوں اور نادانیوں کو بہت آسانی سے نظر انداز کیا جا سکتا ہے لیکن اخلاق کے معیار پر پورا نہ اترنے والا غیر مودٔبانہ رویہ کسی بھی استاد کے لیے ہرگز قابل قبول نہیں ہوتا۔ ایسے تمام طلبہ کے لیے مخلص اساتذہ یقیناً تکلیف محسوس کرتے ہیں اور ان کی اصلاح چاہتے ہیں، یہ تحریر اسی کوشش کی ایک کڑی ہے۔

اپنی سٹوڈنٹ لائف کا ایک واقعہ یاد پڑتا ہے جوایک لحاظ سے میرا چھوٹا سا امتحان تھا۔ یورنیورسٹی میں میرے ایک بہت سینیئر اور قابل احترام استاد تھے۔ ایک دن جب وہ کلاس میں تشریف لائے، خلاف معمول ان کے چہرے پرانتہائی غصے کے تاثرات تھے۔ میں اس بات سے بے خبر تھی کہ ان کا یہ غصہ میرے لیے تھا۔ چار روز پہلے ہی کلاس میں ایک پریزنٹیشن میں انہوں نے مجھے بہت سراہا تھا۔ پریزنٹیشن کے ٹاپک پر مزید مطالعہ کے لیے انہوں نے بہت شوق سے اپنی ایک کتاب مجھے دی تھی۔

وعدے کے مطابق دو دن بعد وہ کتاب مجھے واپس کرنا تھی۔ کتاب لے کر جب میں مقررہ دن سر کے آفس پہنچی تو وہ بند تھا۔ اتنے میں وہاں میرے ایک کلاس فیلو آئے اور میں نے ان سے گزارش کی کہ وہ یہ کتاب سر کے آنے پر انہیں دے دیں کیونکہ باہر گیٹ پر میرے بابا جان میرا انتظار کر رہے تھے اس لیے نکلنے کی جلدی تھی۔ انہوں نے ہامی بھرلی تو مجھے تسلی ہوگئی۔

میں نے اگلے دن یونیورسٹی سے چھٹی کر لی۔ میں لا علم تھی کہ وہ کتاب سر تک نہیں پہنچی تھی۔ سر اپنی کتابوں کے معاملے میں حساس تھے اوراُس روز کافی دیر تک انہوں نے اپنے آفس میں میرا انتطار کیا تھا۔ بس پھر اس دن پہلی بار اپنے پسندیدہ استاد کے ہاتھوں تقریبا دس بارہ ساتھی طلبہ کی موجودگی میں میں نے خوب ڈانٹ کھائی۔ سمجھیے کہ میرے لیے یہ ایک ازیت ناک لمحہ تھا۔ میں نے اپنی صفائی پیش کرنے کی ایک ناکام سی کوشش بھی کی لیکن اور باتیں سننا پڑ یں۔ کچھ دس منٹ بعد سر خاموش ہوئے اور لیکچر شروع ہوا۔ میرے ساتھ بیٹھی دوست نے میرا ہاتھ زور سے دبایا اور اشاراتاً مجھے میرے آنسو روکنے کے لیے کہا۔

مجھے بہت برا محسوس ہورہا تھا اور ایک منٹ کے لیے بھی میرا دھیان لیکچر پر نہیں تھا۔ مجھے میرے بابا کے الفاظ یاد آنے لگے : ’کامیابی حاصل کرنی ہے تو ایک بات یاد رکھنا! استاد ہمیشہ درست ہے اور تم صحیح ہو کہ بھی غلط ہو۔ ان کے آگے کچھ دیر کی خاموشی تمہیں بہت سی مصیبتوں سے بچا کر آسانیوں کو تمہارا مقدر بنا سکتی ہے۔ معلم ہونا کسی نعمت سے کم نہیں ہے محبوب خداﷺ نے اپنے لیے اس صفت کو پسند کرتے ہوئے فرمایا ہے :‘ اور مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا۔ ’سو اللّہ نے جس ہستی کو بھی یہ نعمت بخشی ہے اس کا ادب کرنا تمہارا فرض عین ہونا چاہیے۔ اسی صورت میں تم کامیابی پا سکو گی۔ ‘ بابا کی باتیں سمجھنا میرے لیے کبھی کبھی مشکل ہوتا تھا۔ میں صحیح ہو کہ بھی غلط کیسے ہو سکتی ہوں؟ اساتذہ خدا تو نہیں ہوتے، غلط تو وہ بھی ہو سکتے ہیں۔ ذہن میں اس وقت یہ اختلاف پیدا ہوا تھا لیکن زبان سے اس کا اظہار نہیں کیا۔

اب کلاس میں بیٹھی میں اسی اختلاف پر غور کرنے لگی۔ میں صحیح تھی کیونکہ اپنے استاد کا دل دکھانا ہرگز میری نیت نہیں تھی۔ بہرحال مجھ سے غلطی ہوئی تھی۔ میری لاپرواہی اور جان بوجھ کر نہ کی گئی وعدہ خلافی نے میرے استادِ محترم کو تکلیف پہنچائی تھی۔ جس ہستی کا احترام اور تعظیم ہم پر واجب ہے اسے غلط ثابت کرنا توکم ظرفی ہے۔ ا س لیے اب خاموشی سے اپنی غلطی تسلیم کرنا اور جھک جانا ہی باعثِ راحت ہوتا۔ توکلاس ختم ہونے تک میں اپنے دل سے اس اختلاف کو نکال چکی تھی اور فیصلہ کر چکی تھی کہ مجھے سر سے انتہائی احترام سے معافی مانگنی ہے۔

جیسے ہی سر کلاس ختم کرکے باہر گئے میں ان کے پیچھے گئی اور اپنی بات شروع کی۔ ان کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی اور بہت نرم لہجے میں مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا: ’مجھے احساس ہے کہ میں نے آپ کو کچھ زیادہ ہی کہہ دیا‘ ۔ لیکن میں نے خوشی سے ساری غلطی اپنے سر لی اور ان سے معافی مانگی۔ سر کو ان کی کتاب بھی مل گئی اور ساری بات بھی سلجھ گئی۔ اس دن کے بعد میں نے انہیں اپنے حق میں پہلے سے زیادہ مہربان پایا۔ دوسرے اساتذہ کے سامنے وہ اکثر میری تعریف کرتے تھے جو میرے لیے بہت بڑی بات تھی۔

مجھے ان کی رہنمائی بھی حاصل رہی اور ان سے سیکھنے کے مواقع بھی زیادہ ملنے لگے۔ شاید یہی وہ کامیابی تھی جس کی بات بابا نے کی تھی۔ آج سوچتی ہوں کہ اگر اُس دن سر کی تلخ باتوں کو اپنی انا کا مسئلہ بنا کر کسی بے ادبی کی مرتکب ہو جاتی تو شاید اپنے ایک بہترین استاد کی شفقت سے محروم ہو جاتی۔ میں شکر گزار ہوں اپنے باباجان کی، جن کی نصیحتوں نے مجھے زندگی کے وہ انداز سیکھا ئے جو مجھے مشکل کتابوں سے حاصل نہیں ہوئے۔ وقت نے بھی کچھ تجربات سے نوازا، لیکن اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ بابا زیادہ شفیق استاد ہیں۔

دیکھیے! زندگی کی مثال اس تعلیمی ادارے کی سی ہے جہاں ہر وقت سیکھنے او ر سیکھانے کا عمل جاری رہتا ہے۔ ہمارے بزرگ، والدین، اساتذہ کچھ گہرے مشاہدات اور تجربات کے ذریعے زندگی کے بڑے بڑے، تلخ اور پختہ سبق حاصل کرتے ہیں۔ اگر آپ با ادب رہیں گے تو ان کے علم اور تجربات سے فیض یاب ہو ں گے اور ان کا سایہِ شفقت ہمیشہ اپنے سروں پر پائیں گے۔ یہ لوگ آپ کو ذ ہنی طور پر اتنی مضبوطی عطا کر سکتے ہیں کہ آپ زندگی کی سختیوں کو برداشت کر سکیں۔

وقت کی ڈانٹ کھانے سے اچھا ہے، ان کی ڈانٹ کھا لیں کیونکہ وقت بے شک ایک بڑا اور بہترین استاد ہے لیکن اس کی سختیاں برداشت کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہ آپ کو سنبھلنا تو سیکھائے گا لیکن اس سے پہلے آپ کو بری طرح گرائے گا۔ یہ آپ کو خود کو جوڑنے کا فن بھی سیکھا ئے گا لیکن پہلے زندگی آپ کو توڑے گی۔ َگرکر، ٹوٹ کر پھر سے سنبھلنے کے لیے انسان کا با ہمت اور عاجز ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔ کیونکہ کمزور انسان وقت کے سامنے اکثر ہلاک ہو جاتے ہیں اور بے ادب بری طرح ناکام۔

عبدالقادر جیلانی رحمت اللّہ علیہ فرماتے ہیں : ’بے ادب خالق و مخلوق دونوں کا معتوب و مغضوب ہوتا ہے۔ ‘ لہذٰا اپنے دل و دماغ سے غرور اور غصے کو ختم کریں۔ اپنے بڑوں کا حق پہچاننیے کیونکہ زندگی میں بہت کچھ آپ کو انہیں کی دعاؤں کی برکاکت سے ملتا ہے۔ آپ کے لیے بہتر ہے کہ عاجزی اختیار کریں ورنہ مشکل راستے کے لیے خود کو تیار کرلیں جہاں آپ کو ان لوگوں کی رحمت و شفقت کے بغیر سفر کرنا ہوگا۔ لیکن یاد رکھیں! اس طرح زندگی میں شاید آپ عارضی ترقی تو حاصل کر لیں، لیکن ابدی کامیابی کبھی آپ کا مقدر نہیں بن پائے گی۔ شاید اسی لیے کسی دانش ور نے کہا تھا: ’با ادب با مراد اور بے ادب بے مراد‘ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).