مجسمہ شیطان کا نہیں قصور کی زینب کے قاتل کے ”وحشی پن“ کا تھا


لاہور کے عجائب گھر کے داخلی راستے پر تعینات سرمئی رنگ کے انسانی اور حیوانی ساخت کے حامل 16 فٹ اونچائی کے مخلوطی مجسمے کو عوامی احتجاج اور ہائیکورٹ کے حکم پر ہٹا دیا گیا۔ اس مجسمے کو سوشل میڈیا پر ’الومناٹی‘ ، ’ڈرٹو‘ یا ’شیطانیت‘ کے تصور کے ساتھ تشبیہ بھی دی گئی مجسمہ لاہور میں فنون لطیفہ کے ایک طالب علم ارتباط الحسن چیمہ کی تخلیق ہے اس کی قدامت 16 فٹ ہے اور فائبرگلاس سے تیاری میں اس پر پانچ ماہ صرف ہوئے۔

یہ مجسمہ ان کی گریجویشن کا فائنل تھیسز ورک تھاحال ہی میں پنجاب یونیورسٹی کے کالج آف آرٹس اینڈ ڈیزئن سے گریجویشن مکمل کرنے والے مجسمہ ساز ارتباط الحسن بتایا کہ میں آرٹ کا نہیں سائنس کا طالبعلم تھا تاہم آرٹ میں میری دلچسپی خاصی زیادہ تھی بالخصوص مجسمہ سازی کی طرف رجحان زیادہ تھا۔ فائن آرٹس اور مجسمہ سازی کے فن کو سیکھنے سے بے پناہ محبت تھی۔ پہلے پنجاب یونیورسٹی میں آئی ٹی کی تعلیم حاصل کی لیکن رغبت کی وجہ سے مجسمہ سازی کی طرف آیا اور آرٹ کی تعلیم مکمل کی۔

اگر مجسمہ ساز میں کام کرنے کی بات کی جائے تو میں نے بہت سا کام کیا ہے مختلف مال، ہوٹلز، ملکی سطح کی نمائش کے ساتھ ساتھ اپنی اسائمنٹ کے لئے بھی کام کرچکا ہوں۔ انسان اور جانور کے ملاپ یا مخلوط النسل صورتوں کو فن کی صورت میں پیش کیا۔ گریجو ایشن کی ڈگری کے اختتام پر میرے تھیسز کا عنوان ’فیروسٹی‘ یعنی درندگی یا وحشی پن تھا۔ جن دنوں میں سکیچنگ کر رہا تھا ان دنوں زینب قتل کیس چل رہا تھا۔ مجسمہ بنانے سے قبل یا بناتے وقت میرے ذہن میں کوئی شیطان نہیں تھا ہاں البتہ قصور میں زینب قتل کیس ایسا واقعہ تھا جس نے میری رات کی نیندیں اڑا دیں تھیں اور میں سوچ رہا تھا کیا انسان واقعی اتنا وحشی ہوسکتا ہے؟

مجھے تھسیز کے لئے دیا گیا موضوع بھی وحشی پن تھا میں اس ہیبت ناک وحشی پن کو مجسمہ میں دکھانے کی کوشش کی ہے تھیسز کے لئے کوئی ایک موضوع کا انتخاب کرنا ضروری ہوتا ہے مجھے آئیڈیا کی آزادی تھی اور اس کے بعد اس کے سکیچ پہ کام شرو ع کیا تھا جہاں تک وحشی پن کی بات ہے اس مجسمہ سے میں نے زینب کے قاتل کو دکھانے کی کوشش کی ہے میں یہ ضروری نہیں سمجھتا تھا کہ قاتل کا ہی مجسمہ بناتا البتہ قاتل یا جب کوئی انسان وحشی ہوجاتا ہے تو اس کی حالت کو مجسمہ سے دکھانے کی کوشش کی ہے ہم انسانوں میں یہ رویہ ضرور ہوتا ہے جس کو پہچاننے کی ضرورت ہوتی ہے اگر وہ اپنی درندگی کو تلاش نہیں کر پاتا تو ختم کرنے کی کوشش بھی نہیں کرتا۔

جب کسی انسان کی نفی کرنی ہو یا ہم کسی جانور سے مماثلت دیتے ہیں جس کو لوگ شیطان کا مجسمہ قرار دے رہیں سوال یہ ہے کہ آپ نے شیطان کو دیکھا ہوا ہے میں نے تو نہیں دیکھا تو پھر اسے کیوں شیطان کا نام دیا جا رہا ہے؟ ’اورجہاں تک شیطانیت کی بات ہے تو میں نے انسان کی اصلیت دکھانے کی کوشش کی ہے کہ انسان اتنا وحشی بھی ہوسکتا ہے۔ مجسمہ ساز ارتباط الحسن کہتے ہیں جہاں لوگوں نے اس فن پارے کو شیطان کا مجسمہ کہا ہے وہاں بہت سے افراد نے اس فن پارے کی تخلیق کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ آپ نے اس مجسمہ سے جو پیغام دینے کی کوشش کی ہے سماج کی اس کی ضرورت تھی۔

انسانی درندگی جو میں دکھانا چاہ رہا تھا وہ اس مجسمہ میں نظر آرہی ہے جب کوئی شخص اس مجسمہ کے سامنے کھڑا ہوتا ہے تو اسے وہ درندگی یا وحشی پن نظر آتی ہے جو مجسمہ بنانے کا مقصد تھا۔ سماج میں ایسے لوگ ضرور ہوتے ہیں جو مثبت پہلو کو بھی منفی بنانا چاہتے ہیں ان کی سوچ اور فکر کا تعلق ہمارے اس تعلیمی ڈھانچہ سے ہے جو سکول سے لے کر جامعہ تک ایک خاص قسم کا غلام پیدا کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں کر رہا اور ہماری نسلیں تباہ کی جا رہی ہیں ہے ایسے افراد کو ایسی تخلیقات کے بارے سمجھانا محال ہوتا ہے۔

مجسمہ ساز ارتباط نے بتایا کہ ہر چیز کے بہت سے پہلو ہوتے ہیں ہر ایک چیز کا ہی مطلب نہیں ہوتا اس کے بہت سے دیگر چہرے یا معنی ہوسکتے ہیں۔ میں نے جو مجسمہ بنایا یہ کسی طور پہلو سے بنایا جیسا کہ پہلے بتاچکا ہوں لیکن سماج میں رہنے والے لوگوں نے اس کو اپنی سوچ یا خیال سے اس کو شیطان کا مجسمہ قرار دیا۔ مجسمہ سازی کے کے مستقبل سے پریشان مجسمہ ساز ارتباط کے مطابق انسانی تاریخ، رہن سہن اور بود و باش کے بارے میں نہ ختم ہونے والے مطالعہ اور معلومات نسل در نسل منتقل کرنے میں مجسمہ سازی نے بنیادی کردار ادا کیا ہے، لیکن یہ فن شدت پسندی کی نذر ہوا۔

مجسمہ سازوں نے نہ صرف اپنے فن کو چھپائے رکھا بلکہ کئی افراد نے اس کو خیر آباد کہہ کر ہمیشہ کے لیے اس سے منہ موڑ لیا۔ پاکستان میں مجسمہ سازی کے مستقبل شاندار نظر نہیں آتا مجھے نہیں لگتا کوئی آرٹسٹ یہاں آزادی سے کام کرسکتا ہے اور اپنی تخلیقات سے سماج کو کوئی میسج آزادی سے نہیں دے سکتا۔ کوئی بھی تخلیق کار دباؤمیں کام نہیں کر سکتا فن پارہ تب ہی تخلیق پاتا ہے جب آرٹسٹ آزاد ہوتا ہے۔ یعنی مصور خیال و تصورات کا قیدی نہیں ہوتا، وہ آزاد ہوتا ہے اور یہی آزادی ا ±سے بہترین فنون لطیفہ کی تخلیق میں معاونت کرتی ہے ہمارے ملک میں آرٹ کے لئے ماحول سازگار نہیں ہے میرے خیال میں آرٹ کے فروغ کے لئے لوگوں کو اپنی سوچ بدلنی ہوگی جس سے نئے تخلیق کاروں کے لئے مواقع کے ساتھ ساتھ معاشرے کی اصلاح بھی جاسکتی ہے۔

صحافت کے طالبعلم اکمل سومرو کہتے ہیں اس فن پارے کے خلاف مخصوص ذہنیت کے حامل افراد نے طوفان بدتمیزی برپا کیا۔ یہ وہی ذہنیت ہے جس نے گلیلو کو سائنسی نظریات پیش کرنے پر پھانسی دلائی، جس نے سقراط کو زہر کا پیالہ پلوایا۔ اس ذہنیت کو شکست دیے بغیر سماج سے بالاتر طبقات کی اجارہ داری کو شکست دینا آسان نہیں ہے۔
توقیر کھرل صحافت کے طالبعلم ہیں۔ تحقیقی موضوعات پہ اب تک سو سے زائد فیچر لکھ چکے ہیں۔ فوٹو گرافی کو بھی پسند کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).