سفر خنجراب: کوہستان سے چلاس تک


\"adnan-khan-kakar-mukalima-3b4\"

ہم نے نوٹ کیا کہ دونوں طرف کے پہاڑ سنگلاخ چٹانوں پر مشتمل تھے۔ کہیں کہیں گھاس کی کوئی چھوٹی موٹی پتی نظر آ جائے تو دوسری بات ہے، ورنہ وہاں کوئی پودا یا درخت نہیں تھا۔ نہ ہی پینے کے لیے پانی موجود تھا۔ دریا تو تھا، لیکن وہ ایک کلومیٹر نیچے عمودی کھائی میں تھا جہاں جانا ممکن نہیں تھا۔

اس کے باوجود وہاں سڑک پر آوارہ جانور از قسم گائے، بکریاں اور کتے وغیرہ پھر رہے تھے۔ جانے وہ کیا کھاتے ہوں گے۔ اور اس سے زیادہ حیرت کی بات یہ تھی ان ان بکریوں اور گائیوں کو ابھی تک کسی نے کھایا کیوں نہیں ہے اور وہ زندہ کیوں کر ہیں؟ ہمارا ارادہ بن رہا ہے کہ اگلی مرتبہ عید قربان سے پہلے وہاں ٹرک لے کر جائیں گے اور ان کو پکڑ کر لاہور لا کر بیچیں گے۔ اس تجارت میں کافی منافع ہونے کی توقع ہے۔

\"GB_15_DSC_6916_p\"

ایک عجوبہ اور نظر آیا۔ یہ تو ہم آپ کو بتا چکے ہیں کہ ان سنگلاخ پہاڑوں پر درخت کیا، پودا تک نظر نہیں آتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہاں جا بجا سڑک کے کنارے سو دو سو سال پرانے درختوں کے شہتیروں کے ڈھیر پڑے نظر آئے۔ پہلے پہل تو ہم الجھن میں مبتلا رہے کہ یہاں درخت نہیں ہیں تو پھر یہ شہتیر کہاں سے آئے۔ مگر پھر غور کیا تو اندازہ ہوا کہ پہلے یہ سارے پہاڑ خوب درختوں سے ڈھکے ہوئے ہوں گے۔ اب سارے درخت کاٹ کر ان کو سڑک کے کنارے ڈھیر کر دیا گیا ہے اور پہاڑوں کا نانگا پربت بن گیا ہے۔ ادھر پنجاب میں مری وغیرہ میں بھی یہی ہو رہا ہے اور پہاڑوں کو درختوں سے ایسے ہی خالی کیا جا رہا ہے۔

\"GB_18_DSC_7004_p\"اس بہترین سڑک پر اسی کلومیٹر کا سفر طے کر کے ہم جلد ہی داسو پہنچ گئے۔ گھڑی دیکھی تو یہ اسی کلومیٹر محض پونے دو گھنٹے میں طے کیے تھے۔ یعنی بقیہ سوا سو کلومیٹر ہم ڈھائی گھنٹے میں طے کر کے آرام سے چلاس پہنچ سکتے تھے۔ ہمیں رفیق پر غصہ آنے لگا۔ پہلے کانوائے کے بارے میں غلط بیانی کر کے صبح نہار منہ اٹھا دیا تھا۔ پھر کوہستانیوں کی لوٹ مار کے قصے سنا کر راستے بھر ہمارا خون خشک رکھا تھا حالانکہ ہمیں راستے بھر کوئی بھی ڈاکو دکھائی نہیں دیا۔ اور اب چار پانچ گھنٹے کے سفر کو دس گھنٹے کی غلط بیانی بھی دکھائی دے رہی تھی۔ بہرحال ہم نے اسے کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھا۔

پھر داسو سے آگے کا سفر شروع ہوا۔ پختہ سڑک ویسی لش پش نہ رہی جیسی اب تک چلی آ رہی تھی۔ کہیں شکستہ تھی اور کہیں اس پر لینڈ سلائیڈ کے نشانات تھا۔ گھنٹے بھر بعد گھڑی دیکھی تو پتہ چلا کہ گاڑی کی رفتار بیس کلومیٹر فی گھنٹہ سے بھی کم ہے۔ چلتے رہے۔ اور چلتے رہے۔ گاڑی سے زیادہ گھڑی کی رفتار تیز تھی۔

\"GB_20_DSC_1998_p\"

شاہراہ قراقرم کے ساتھ دریا کا ساتھ تقریباً خنجراب تک ہی رہا۔ بائیں طرف نیچے تند و تیز دریائے سندھ تھا۔ کئی مقامات پر اس پر ہینگنگ برج بھی دکھائی دیے۔ راہ میں ایک نام نہاد نالہ آیا جو قوت و ہیبت میں دریائے راوی و جہلم کو شرماتا تھا جو اپنے تئیں بڑے دریا بنے پھرتے ہیں۔ ان علاقوں میں غالباً دریا کو نالہ کہنے کا رواج ہے۔ سمر نامی وہ نالہ کہیں پہاڑوں سے صاف شفاف پانی لے کر آ رہا تھا۔ لیکن اس میں نہانا مناسب نہیں لگا کیونکہ ہمیں لگ رہا تھا کہ اس کے تند و تیز پانی میں ہاتھی بھی پیر جما کر کھڑا نہیں ہو سکے گا، اور پتھروں سے ٹکرا کر پتھر خراب کر دے گا اپنے خون سے۔ ہم کچھ دیر اس کے پل پر کھڑے اسے ملاحظہ کرتے رہے اور خدا کی قدرت پر حیران ہوتے رہے کہ اس پانی کو بھلا کہیں جانے کی ایسی کیا جلدی پڑی ہوئی ہے۔

\"GB_22_DSC_1881_p\"

وہاں سے کچھ آگے ایک ہینگنگ برج تھا اور ساتھ ہی کمال کا منظر تھا۔ سامنے پہاڑوں سے ایک نیلا نالہ گدلے دریا میں اتر رہا تھا۔ وہ دریا سے مل کر بھی ملنے کو تیار نہ تھا کہ اس کا نیلا پانی الگ سے دکھائی دے رہا تھا۔

ہم اسے مبہوت ہو کر دیکھتے رہے اور یہ سوچتے رہے کہ گلیشئیر سے آنے والے اس نیلے برفیلے پانی میں نہاتے ہوئے تو دریائے سندھ کی مچھلیوں پر ویسی ہی کپکپی طاری ہو جاتی ہو گی جیسی ہم پر اس وقت ہوتی ہے جب کبھی نومبر دسمبر میں گرم پانی کا گیزر داغ مفارقت دے جاتا ہے۔ ان مچھلیوں کی حالت پر خوب ہنستے ہوئے ہم آگے روانہ ہوئے۔

\"GB_21_DSC_2190b_p\"

سازین کا قصبہ آیا اور اس کے بعد ایک سڑک اوپر ہربن کی طرف جاتی دکھائی دی۔ ادھر ایک معقول سا نالہ بھی تھی۔ وہ بیچ میں تو ایسا تیز بہاؤ والا پانی تھا کہ الامان۔ مگر کناروں پر ایک پرسکون سا تالاب تھا اور کم گہرا پانی تھا جہاں پیر ڈبو کر بیٹھنا اور نہانا بھی ممکن تھا۔ یخ پانی میں بیٹھنے کا سواد آ گیا۔ بچہ پارٹی خوب نہائی۔ جب تک گاڑی نے بھی خوب سانس لے لیا تھا اور اسے سانس لیتا دیکھ کر رفیق کے بھی دم میں دم آ گیا تھا۔ آگے چلے۔

آٹھ گھنٹے کے قریب گزر چکے تھے۔ چلاس تئیس کلومیٹر کا سنگ میل کچھ دیر پہلے ہی گزرا تھا۔ سامنے اور دائیں طرف پہاڑ تھے، بائیں طرف دریائے سندھ ڈھلتی دھوپ میں چمک رہا تھا اور اس کے پرلی طرف بھی سنگلاخ پہاڑ تھے جن پر درخت نام کی کوئی شے نہیں تھی۔ کہیں کہیں گھاس اور جڑی بوٹیاں اگے ہوئے تھے۔ دریا میں ریت کافی زیادہ تھی۔ بلکہ ہم نے غور کیا تو کئی پہاڑ ریت کے بنے ہوئے نظر آئے جن میں سے ریت نکل نکل کر دریا میں جزیرے بھی بنا رہی تھی۔

\"GB_24_DSC_2307_p\"

پھر اچانک شمالی علاقوں نے اپنا دل نکال کر ہمارے سامنے رکھ دیا کہ اس سے بڑھ کر تمہیں اور کیا پیش کریں۔ دریا میں ریت کا ایک بڑا سا جزیرہ بالکل دل کی شکل کا موجود تھا۔ جو کہ ظاہر ہے کہ محض ہمارے استقبال کی خاطر ہی دریائے سندھ اور پہاڑوں نے مل کر بنایا تھا۔

بخدا دریا کا دل دیکھتے ہی یقین آ گیا کہ خدا کے نیک بندے خود سے معجزے کرتے نہیں ہیں، بلکہ یہ ان کو دیکھ کر ہو جاتے ہیں۔ پہاڑ پتھر دریا سمندر سب ہی درویشوں کو دیکھ کر بدل جاتے ہیں۔

ابھی ہم اس دل پر ہی قربان ہوئے جا رہے تھے کہ سامنے بھورے پہاڑوں میں ایک سفید برفیلی چوٹی کی جھلک دکھائی دی۔

\"GB_28_DSC_2407_p\"قاتل پہاڑ والا شل مکھی دیامیر سامنے تھا۔ شل مکھی دیامیر، سو چہروں والا پہاڑ۔ جسے ہم اور آپ نانگا پربت کے نام سے جانتے ہیں۔ نانگا پربت کا تفصیلی منظر چلاس کے بعد نظر آتا ہے لیکن پہلی دھندلی سی جھلک چلاس سے پہلے ہی دکھائی دے جاتی ہے۔ شل مکھِی دیامیر کی بات ہم چلاس سے گلگت جاتے ہوئے نانگا پربت پوائنٹ پر جا کر کریں گے جہاں ہماری اس سے تفصیلی ملاقات ہوئی تھی۔

کچھ ہی دیر میں چلاس آ گیا اور وہاں ہمارا قافلہ شنگریلا ہوٹل میں فروکش ہوا۔ شنگریلا دریائے سندھ کے کنارے پر واقع ہے۔ مگر یہاں بھی جنگلا لگا کر دریائے سندھ کو سیلفی والے شریر انسانوں سے تحفظ دیا گیا ہے۔ ہوٹل خالی پڑا ہوا تھا۔ شاید صرف ہمارا قبیلہ ہی وہاں کا مہمان تھا۔ شنگریلا ایک صاف ستھرا ہوٹل ہے جس کے ہر کمرے میں روم کولر لگا ہوا ہے۔ اور نرخ بھی بہت زیادہ نہیں ہیں۔ مگر بس ایک چیز کا خیال رہے، یہاں سے آپ نے کچھ کھا پی لیا تو پھر بٹوا خالی ہو جائے گا۔ اگر آپ کو پرل کانٹی نینٹل لاہور کے کھانے پینے کے ریٹ سستے لگتے ہوں تو آپ یہی کہیں گے کہ شنگریلا ہوٹل کے کھانے پینے کے ریٹ واجبی ہیں۔


اس سیریز کی  اقساط

مہمان، ہنزہ پولیس اور پنجابی افسر

سینیٹر طلحہ محمود ۔ شاہراہ قراقرم کے معمار

مانسہرہ: شہنشاہ اشوک کی عظیم سلطنت کے ستون

ملک الجبال کے سائے میں بشام تک

سفر خنجراب: بشام سے کوہستان تک

سفر خنجراب: کوہستان سے چلاس تک

لبرل فاشسٹ اس پہاڑ کو نانگا پربت کیوں کہتے ہیں؟

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments