مہاتما گاندھی : سماجی لاشعور کی تیرگی میں دیے کی لو


مہاتما گاندھی کی وفات 30 جنوری 1948 کو ناتھو رام گاڈسے کی گولیوں سے ہوئی جب وہ پاکستان آنا چاہتے تھے۔ گاندھی کی پوری زندگی انسان سے محبت اور ایک بہتر معاشرے کی تشکیل کے سفر میں آبلہ پائی کی کہانی ہے۔ دنیا کا سفر جس میں کذب و ریا کا دور دورہ ہے، اس میں انہوں نے راستی کی راہ شوق میں پے درپے تجربات کیے ۔ راستی کے اس سفر نے انہیں موہن داس کرمچند گاندھی سے مہاتما گاندھی یعنی عظیم روح بنا دیا۔

بر صغیر میں انگریزوں کی حکومت میں گاندھی کی سیاست سے متعلقہ واقعات آج کے مضمون کا بنیادی موضوع نہیں، تا ہم کچھ واقعات کا ذکر سر راہے آ جائے گا۔ آج کا موضوع مہاتما گاندھی کے راستی کی راہ میں تجربات اور سماجی نفسیات میں سوچ کے ان دہاروں سے واقفیت حاصل کرنا ہے جو سیاسی عمل پر منتج ہوئے۔ ان کی سیاست کے باب میں جو بات فوری طور پر ذہن میں آتی ہے وہ انہوں نے کوئی سو سال پہلے کہی تھی۔ کہتے ہیں اگر آپ ہندوستان کو امریکہ، برطانیہ کا پانچواں یا چھٹا ایڈیشن بنانا چاہتے ہیں تو ان کے راستے پر چلیے ورنہ آپ کو ہندوستان کے مسقبل لئے متبادل ہندوستانی راہیں تلاش کرنا ہوں گی۔

سیاست کی بساط پر پاکستان اور ہندوستان میں بہت سی جگہوں پر مہاتما گاندھی کے نام کے ساتھ ایک تعصب وابستہ ہے۔ اس سلسلے میں ایک بات عام دہرائی جاتی ہے جسے کئی دانشور ایک اہم دلیل بھی گردانتے ہیں، وہ یہ ہے کہ انڈیا کی سیاست میں مذہب سب سے پہلے گاندھی نے متعارف کروایا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ گاندھی کی جنوبی افریقہ سے 1914 میں واپسی سے بہت پہلے 1906 میں شہری حقوق یا قومی نظریات کو بنیاد بنانے کی بجائے مذہب کے نام پر سیاست کے لئے مسلم لیگ کا قیام عمل میں آ چکا تھا۔ لیکن جو گفتگو اس مضمون کا موضوع ہے اس کے تناظر میں یہ دلیل کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی۔

مہاتما گاندھی کو انڈیا کا کامیاب سیاست دان کہنے میں بہت سی مشکلات ہیں۔ گاندھی نے انڈیا کی تقسیم کی ہر ممکن مخالفت کی مگر کامیاب نہ ہوئے۔ 1947 میں انڈیا تقسیم ہو کر رہا۔ گاندھی جی نے عدم تشدد کا پرچار کیا۔ تقسیم ہند سے پہلے اور اس عمل کے دوران قریباً ہر سیاسی تحریک تشدد کا شکار ہوئی، سوائے ”سالٹ مارچ“ کے جس کا ذکر بعد میں آئے گا۔ ان مختلف تحاریک میں تشدد کو روکنے کے لئے گاندھی کو کئی بار بھوک ہڑتال تک جانا پڑا۔ اور یہ تاریخی حقائق بھی عدم تشدد کے اصول کی بنا پر عملی سیاست میں اگر ناکامی نہیں تو کوئی بڑی کامیابی بھی نہیں۔

تقسیم ہند کے فوراً ہی بعد انڈیا کی حکومت نے پاکستان کے جائز اثاثوں کی منتقلی روک لی جو گاندھی کو ایک بار پھر سے مرن برت تک لے گئی۔ پاکستان کے حصے کا حق پاکستان کو دلوانے کی یہ کوشش وہی راست پیمائی تھی جس کے تجربات کرنے میں وہ پچھلے چالیس پچاس برسوں سے مصروف تھے۔ اس عملی، ذہنی اور روحانی ریاضت نے انہیں گوشت پوست کے عام انسان کی بجائے مستقبل کے سیاسی شعور کا مشعل بردار بنا دیا۔ اس طرح انہوں نے مستقبل کی سیاسی کاوشات میں بھی عام انسانوں کو امن کے ممکنات کے نور کا درس دیا اور اپنی عملی سیاست میں اسی اصول کا التزام رکھا۔

مہاتما گاندھی کے ذکر میں ان کی سیاست کی بات صرف وضاحت کے طور پر اس وجہ سے ہے کہ دنیا کو تیاگ کر ذاتی سکون کے لئے روحانیات کے تجربات سے دنیا اور مذاہب کی تاریخ بھری پڑی ہے۔ دنیا و مافیہا سے بے خبری کی حد تک بے اعتنائی برت کر ہو سکتا ہے کہ ذاتی سکون کا حصول تو ممکن ہو مگر سیاست کے میدان میں کذب و حرص سے ماورا ہو کر عمل کرنے کے تجربات شاید ہی کہیں ہوئے ہوں۔ گاندھی حقیقت کی تلاش میں راہ راست کو مطمع نظر جانتے تھے اور اس کے لئے انہوں نے اپنے لئے کڑے پیمانے متعین کر رکھے تھے۔ گاندھی کے اندون ذات تک رسائی اور ان کے ذاتی رویوں کی تفہیم کرنا، مستقبل میں سیاست کے طالب علم کے لئے ایک اہم مطالعہ ہے۔

مہاتما گاندھی کے راستی کے فکر وعمل کے ساتھ تجربات کا آغاز تو یوں کہہ لیں کہ آوائل عمر سے ہی شروع ہو گیا تھا جس کا سلسلہ قیام انگلستان میں بھی جاری رہا۔ 1893 سے شروع کر کے وہ تقریباً بیس سال جنوبی افریقہ میں رہے۔ جنوبی افریقہ کے زمانے میں ان کے اندر کے احساس نے فکری اور عملی شکل لینی شروع کر دی۔ خاص طور سے وہاں کی نسلی پرستی کی بنیاد پر حکومت اور غربت زدہ معاشرتی نظام کا تجربہ ان کی سوچ کو اس نہج پر لے گیا کہ معاشرے کی اصلاح درون ذات کی صفائی اور پاکیزگی کے بغیر ممکن نہیں۔

ان کی اس سوچ سے پہلے بھی معاشرتی اصلاح کے واسطے تطہیر قلب کے مذہبی نظریات موجود تھے۔ گاندھی نے ہندوستان میں پرورش پائی تھی جہاں گھر میں ہندو خیالات تھے اور ذات پات کی رسومات سے بھی آگاہی تھی۔ اس کے علاوہ ہندوستان کے کثیرالمذہب سماج کے اندر سکھ، مسلمان، مسیحی، بدھ اور مہاویر کی تعلیمات تک رسائی آسانی سے میسر تھی۔ مہاتما گاندھی نے تطہیر قلب کے خیالات عین ممکن ہے مذہب سے لئے ہیں مگر سچائی اور صفائی کے ساتھ سیاست ان کی اپنی تخلیق ہے جس کی کچھ وضاحت ذیل میں ہے۔

گاندھی کی خودنوشت سوانح عمری اور ذاتی عبادات سے مذہب کا دقیانوسی احساس جاگنے کی بجائے، مذاہب عالم کی روح سلیم کا احساس نمایاں ہوتا ہے، خاص طور سے مذہب کی اس لطافت کا احساس جس پر روز بروز کی رسومات کی ملمعہ کاری نہ ہوئی ہو۔ ان کے نزدیک مذہب انسانی زندگی میں احساس اور فکر کے مشترکہ عمل کا نام ہے جس کی وجہ سے گاندھی کے مذہبی نظام فکر کو ہندو مذہب یا کسی بھی مذہب کی رسومات کے پیمانے سے ناپنا اگر ناممکن نہیں تو ناروا ضرور ہے۔

اسی بات کو سمجھنے کے واسطے ان کا شودر ہندوں کے ساتھ ذاتی سلوک اور ان کے معاشرتی حقوق کے لئے سیاسی جدوجہد سے آگاہی ضروری ہے۔ انہوں نے شودروں کو ”ہریجن“ کا نام دیا تھا یعنی خدا کے بچے۔ وہ تاریخی طور پر استحصال زدہ نچلی ذات کے ہندوں کو برابر کا انسان مانتے تھے بے شک کہ یہ خیالات ہندو مذہب کے صدیوں سے رائج معاشرتی نظام سے میل نہیں کھاتے تھے۔ یہاں صرف اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ مہاتما گاندھی آشرم میں ساتھ رہنے والے شودروں کی ذاتی نجاست کی صفائی ستھرائی باری کے مطابق اپنے ہاتھ سے کرنے کو فریضہ سمجھتے تھے۔ جیسا کہ پرانے یونانی حکیم پروٹاگورس نے کہا تھا گاندھی کے نزدیک بھی بات ایسے ہی تھی کہ انسانیت پیمانہ حیات ہے۔

ہندو مذہب میں خدا کا تصور بت پرستی نہیں بلکہ جیسے اپنشد میں کہتے ہیں کہ خدا یہ نہیں، اور یہ بھی نہیں اور وہ بھی نہیں۔ اس طرح خدا نہ تو کہیں کوئی ایک چیز ہے اور نہ ہی کوئی واحد جسم جو زمان و مکاں کی کھونٹ سے بندھا ہوا ہو یا آسمانوں میں پنہاں ہو۔ وہ ہر چیز اور ہر جگہ کی مشترکہ روح اصل ہے۔ رسوم و قیود سے ماورا، مہاتما گاندھی کے مذہبی تصور میں روح اصل کا تصور سترویں صدی کے مشہور فلسفہ دان باروخ سپی نوزا سے ملتا جلتا ہے جو ذاتی طور پر لادین ہونے کے باوجود فطرت کے اندر خدا کا ذکر کیے بغیر بات کو مکمل نہیں کرتا تھا۔

گاندھی جی کی سیاست میں عدم تشدد کے اصول پر جہاں مہاویر کی چھاپ نظر آتی ہے، وہیں ان کے مذہبی تصور پر کلاسیکل ہندوازم اور مہاتما بدھ کی پرچھائیاں بھی ہیں۔ یہاں اصل حقیقت تک پہنچنے کے لئے یوگا کی چار راہیں ہیں۔ بھکتی، کرما، گیان اور راجا یوگا۔ مہاتما گاندھی کسی ایک سے منسلک نہیں ہوئے۔ انہوں نے ان چاروں سے کسب فیض کیا ہے اور ان پر عمل کو اپنی روزمرہ زندگی کا شعار بنایا ہے۔ یوگا کی ساری راہوں کا مقصد ظاہری اور باطنی صفائی ہے۔

انہوں نے بھکتی یوگا سے محبت کا سبق سیکھا اور کرما یوگا سے خدمت خلق جو نتائج سے بے غرض ہو کر عمل کا نام ہے۔ یہ گیتا کی تعلیمات میں ایک اہم تعلیم ہے جو عمل کرنے کو ضروری قرار دیتی ہے۔ انہوں نے گیان یوگا سے علم اور دانائی کی تلاش کی اور راجا یوگا سے زندگی میں کھانے پینے اور نیند کی ضروریات میں توازن کی تعلیم حاصل کی۔ وہ اپنی روزانہ کی ذاتی دعاوں میں قران اور دیگر مذاہب کی دعائیں بھی شامل رکھتے تھے۔

گاندھی جی نے زندگی کے تمام رویوں اور عمل کی ہر ہر جہت میں سچائی کو طہارت قلب کی بنیاد مانا ہے اور اس کے واسطے ”ستیہ گرہ“ کی اصطلاح وضع کی۔ اس راہ پر چلنے کے لئے انسانی نفس کی تمام خواہشات کا تیاگ ان کے یہاں خاص اہمیت رکھتا ہے۔ اس حد تک تیاگ، دنیا میں ہر انسان کے بس کی بات تو نہیں مگر اس کے باوجود ان کا نظریہ ہے کہ اس سے عدم تشدد کی وہ جوت جگے گی جس پر عمل ہر حال اور ہر جگہ ممکن ہے خواہ وہ ذاتی نفس کی بات ہو، معاشرتی رہن سہن کی ہو یا سیاست کے دائرہ کار کی۔ گاندھی ذاتی نفع نقصان سے بلند تر ہو کر عدم تشدد کے رویے کو ستیہ گرہ سے جوڑتے ہیں جو تزکیہ نفس کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2