میری بنیادی شناخت ادب کے قاری کی ہے : آصف فرخی


میرا ایک بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ زندگی میں میرا پیشہ ادب نہیں رہا۔ ادب سے محفوظ میں مختلف راہ پر کاربند رہا۔ آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ محفوظ رہا۔ میں نے اپنی زندگی ادب کے ذریعے نہیں بنائی۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ مجھے آسودگی مل گئی اور نقصان یہ ہوا کہ میں ارتکاز کے ساتھ کچھ نہیں لکھ پایا۔ آپ کو میری جو سماجی صورت حال نظر آرہی ہے وہ میرا المیہ ہے، میری مجبوری ہے۔ یہ میری ناکامی ہے۔ It ’s My tragic failure، یہ خوش ہونے کی بات نہیں بلکہ اس پر افسوس ہونا چاہیے۔

سوال: آپ نے کئی سال پہلے پاکستان ٹیلی وژن پر محمد عسکری پر نشر ہونے والے پروگرام میں کہا تھا کہ آپ کو مغربی ادب کی تنقید لکھنے والے محمد حسن عسکری تو سمجھ میں آتے ہیں مگر مابعدالطبعیات کی طرف راغب ہونے والے حسن عسکری صاحب سمجھ میں نہیں آتے۔ سوال یہ ہے کہ مابعدالطبعیات یا مذہب میں ایسی کیا بات ہے کہ جس کی طرف عسکری صاحب کی رغبت آپ سمجھ نہیں پاتے؟

ڈاکٹر آصف فرخی: آپ نے جو سوال کیا ہے اور جہاں تک میں اسے سمجھ سکا ہوں اس کا سیدھا سا جواب یہ دوں گا کہ ”مذہب یا مابعدالطبعیات“ میں کوئی ایسی بات نہیں۔ یہ بات عسکری صاحب میں ہے۔ ان کے ذہنی سفر کے اس حصہ کو میں سمجھ نہیں پایا اور اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ عسکری صاحب کی تحریر یا فکر گنجلک تھی یا پیچیدہ تھی۔ میں اس فکر کا ساتھ نہیں دے سکتا۔ اس لیے کہ مابعد الطبعیات اور مذہب کے بارے میں میری ذہنی تربیت اس طرح نہیں ہوئی۔ مذہب پر مجھے انگریزی کے بہت بڑے نقاد ایف آرلیوس (جو عسکری صاحب کو بہت پسند تھا) کا ایک فقرہ یاد آرہا ہے، جسے عسکری صاحب کی زبانی کہیں سنا تھا۔ اس نے تحریروں میں کہیں لکھا ہے کہ ”کاش مجھے اتنی مابعدالطبعیات آتی جسے میں اپنی تحریروں سے دور رکھ سکتا۔ “ تو ناسمجھی میں بہت سی مابعدالطبعیات آجاتی ہے۔ میرا چونکہ اس کا مطالعہ نہیں ہے اس لیے عسکری صاحب جس راستے پر لے جارہے ہیں میں اس راستے پر ان کے پیچھے نہیں چل سکا۔ خرابی ان کی رہنمائی میں نہیں ہے۔ طالب علم بھی تو بدشوق ہوسکتا ہے۔

سوال: آپ ان کی صحبت میں بھی رہے۔ آپ کے والد اسلم فرخی بھی تصوف کے سلسلے سے وابستہ ہیں۔ صحبت کا اثر تو ہوتا ہے؟

ڈاکٹر آصف فرخی: میں آپ کو اس کا جواب دیتا ہوں۔ آپ اسے اسی طرح لکھیے گا۔ پہلی بات تو یہ کہ مجھے حسن عسکری صاحب کی خدمت میں چند بار حاضر ہونے کا موقع ملا اور میں نے ایک طالب علم کی حیثیت سے ان سے استفادہ کی کوشش کی۔ انہیں دیکھا۔ انہیں سنا۔ ان سے ملا۔ لیکن ان کا قریبی رفیق نہیں بن سکا۔ ظاہر ہے کہ عمر اور مرتبے میں بہت فرق تھا۔ وہ بعض باتیں مجھے بتاتے تھے اور میں بے وقوفی میں ان سے بہت سے سوالات کرتا تھا کہ جناب ”آگ کا دریا“ کے بارے میں سمجھ میں نہیں آیا، یا مجھے فنی گن ویب پڑھا دیجیے۔ تو اس لیے میں اُن کا خاطر خواہ حق ادا نہیں کرسکا۔ اُس وقت میں انٹرمیڈیٹ سالِ اول کا طالب علم تھا جب انہوں نے مجھے اپنے گھر بلایا تھا۔

دوسری بات آپ نے والد کے حوالے سے کہی۔ ظاہر ہے کہ مجھ پر میرے والد کا بہت گہرا اثر رہا ہے۔ اتنا اثر رہا ہے کہ بعض معاملات میں، مَیں انہیں سمجھ بھی نہیں پاتا کہ وہ اثر کہاں ختم ہوتا ہے اور میں کہاں شروع ہوتا ہوں۔ لیکن یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ آپ نے یہ کیسے تصور کرلیا کہ والد کے مذہبی خیالات کا مجھ پر اثر کچھ نہیں ہے؟ اور ویسے بھی مذہب سے تعلق ایک ذاتی اور نجی معاملہ ہے۔ آپ نے فرض کر لیا کہ میرا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ حالانکہ میں نے اپنے والد سے بڑی سخت محنت اور دیانت کا سبق سیکھا۔ وہ اپنے اصولوں پر چلتے رہے۔ اس پر قائم ہیں۔ انہوں نے زندگی سے سہولت اور مراعات کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ پاکستان آنے کے بعد انہوں نے مشکل طریقے سے بہت معمولی اور ابتدائی طریقے سے کام شروع کیا۔ اپنے بہن بھائیوں کی پرورش کی۔ سخت ترین محنت کی۔ اتنی محنت کہ ان کی صحت خراب ہوگئی اور دل کے مریض بن گئے، لیکن دیانت پر اور اپنے اصولوں پر وہ قائم رہے۔ میں نے پہلا بڑا سبق یہ سیکھا۔

دوسرا بڑا سبق جو میں نے ان سے سیکھا اور جس کے لیے میں ان کا بڑا شکر گزار ہوں وہ ادب اور زندگی کا تعلق ہے۔ ابا کے نزدیک جو آدمی شعر نہیں پڑھ سکتا یا جس کی گفتگو میں اشعار کے حوالے نہ ہوں، اسے وہ پڑھا لکھا آدمی نہیں سمجھتے تھے۔ میرے والد کا تصوف کے سلسلہ میں بھی بہت مطالعہ ہے اور صرف علمی نہیں بلکہ عملی تعلق بھی ہے۔ نظام الدین اولیاؒ کے حوالے سے ان کا بہت کام ہے۔ کتابیں بھی ہیں۔ اور اس حوالے سے نہ تو وہ خود بات کرتے ہیں اور نہ ہی بات کرنا پسند کرتے ہیں۔ اس لیے مذہب اور عقیدہ میرا نجی معاملہ ہے۔ اب کسی محفل میں اگر آپ ایک ادیب کی حیثیت سے میرا انٹرویو کررہے ہیں اور یہ میرا کورٹ مارشل نہیں ہے تو میرے کام کے بارے میں بات کیجیے

(ڈاکٹر آصف فرخی کا یہ انٹرویو 2014 میں لیا گیا جب ان کے والد محترم اسلم فرخی حیات تھے۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3