مولانا سمیع الحق، شطرنج اور افغان جنگ


گزشتہ برس 2 نومبر کو مولانا سمیع الحق کو راولپنڈی میں اپنے مکان پر چھریوں کے وار سے قتل کر دیا گیا۔ پولیس نے نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا۔ بیٹے نے پوسٹ مارٹم کرانے سے انکار کیا۔ ایک ماہ بعد پولیس نے عبوری چالان میں اسے ‘اندھا قتل’ قرار دیا۔ تحقیقات ابھی جاری ہیں۔ قتل کی حتمی وجہ تاحال معلوم نہیں ہو سکی۔

مولانا سمیع الحق جمیعت علمائے اسلام (س) کے سربراہ اور عمران خان حکومت کے اتحادی تھے۔ وہ اپنے والد کے قائم کردہ، اکوڑہ خٹک میں واقع مدرسہ حقانیہ کو سنبھال رہے تھے۔ اور 1988 سے اس کی سربراہی ان کے پاس تھی۔ اس مدرسے کو بلامبالغہ ‘ یونیورسٹی آف جہاد ‘ اور مولانا سمیع الحق کو ‘بابائے طالبان’  کہا جاتا ہے۔ اسی مدرسے سے ہزاروں مجاہدین نے تعلیم پائی۔

جب سوویت یونین نے افغانستان میں قدم رکھا تو انہیں ‘مجاہدین’ نے سی آئی اے کے ہتھیار، آئی ایس آئی کی چال اور سعودی عرب کے ‘تیل’ کی مدد سے نکال باہر کیا۔ مجاہدین کی آپس میں رسہ کشی ہوئی۔ ایک گروہ ‘طالبان’ نے ملاعمر کی سربراہی میں حکومت سنبھال لی۔ نائن الیون کا واقعہ ہوا۔ امریکہ نے افغانستان پے چڑھائی کی۔ مجاہدین دہشت گرد کہلائے جانے لگے۔ وہ دارالحکومت سے روپوش ہو گِئے۔ گوریلا جنگ کا آغاز ہوا۔

اب اس جنگ کو شروع ہوئے تقریباً 18 سال ہو چکے ہیں۔ اس جنگ میں مولانا سمیع الحق کا کیا کردار تھا ؟

مولانا سمیع الحق ابتدا ہی سے ہر فورم پر طالبان کے حامی رہے۔ انہیں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے قریب مانا جاتا تھا۔ انہیں ‘دفاع پاکستان کونسل’ میں حافظ سعید اور مرحوم حمید گل کے ساتھ بانیوں میں تصور کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کبھی طالبان کی مذمت نہیں کی۔ جب کہ افغانستان کی موجودہ حکومت اور امریکہ کی ہر فورم پر بڑھ چڑھ کے مخالفت کی۔ اسی وجہ سے طالبان انہیں روحانی استاد مانتے تھے۔

افغان جنگ نے ایک پیچیدہ شکل اختیار کی۔ کئی فریق شامل ہوئے۔ ‘بیڈ طالبان’ سامنے آئے۔  پاکستان میں ‘تحریک طالبان پاکستان’ نے سر اٹھایا۔ جابجا دھماکے ہوئے۔ دہشت گردی کا سر دبا دیا گیا۔ اثرات ابھی باقی ہیں۔  افغانستان میں پاکستان کی غیر واضح پالیسی جاری رہی۔ ‘ ڈبل گیم’  کا الزام لگتا رہا۔ طالبان کی کاروائیاں تیز تر ہوتی گئیں۔ روس، ایران، سعودی عرب نے اپنے اپنے مفادات مدِنظر رکھتے ہوئے اپنا حصہ ملایا۔ امن مذاکرات کی بازگشت بھی سنائی دیتی رہی۔

گویا اب افغانستان کی جنگ شطرنج کی بازی بن چکی ہے۔ ہر فریق اپنے داوُ پیچ آزما رہا ہے۔ مہرے استعمال کیے جارہے ہیں۔ ایک دوسرے کے مہرے پٹخے بھی جا رہے ہیں۔ ادھر سے جنرل رزاق قتل ہوتا ہے تو ادھر سے مولانا سمیع الحق کو قتل کر دیا جاتا ہے۔

مولانا سمیع الحق کو کچھ لوگ افغان جنگ کا ایک ہیرو سمجھتے ہیں۔ اور کچھ لوگ انہیں افغانستان میں بدامنی اور ہزاروں لوگوں کی جانیں ضائع ہونے کا ذمہ دار قرار دے کر ‘ولن’ گردانتے ہیں۔ کچھ لوگ انہیں ایک عظیم  مذہبی رہنما کے طور پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور کچھ انہیں عسکریت پسندوں کا جدِامجد مان کر مذمت کرتے ہیں۔ یہ بحث جاری رہے گی۔

ان دونوں زاویوں سے قطع نظر ایک بات یقیناً کہی جاسکتی ہے کہ  مولانا سمیع الحق نے مرتے دم تک افغان جنگ میں ایک فعال کردار ادا کیا۔  امریکہ اور کابل حکومت کی مذمت، طالبان کے ساتھ ہمدردی، اور مسلکی و سیاسی مصروفیات جاری رہیں۔

وہ افغان جنگ کا ایک مہرہ تھے جو اس کھیل میں مرکزی کردار ادا کرتے ہوئے مارے گئے۔

شطرنج ابھی جاری ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).