پاکستانی سیاست پر انگریزی تبصرہ


آزاد کشمیر 1973 میں سردار عبدلقیوم خاں صاحب کے زیرِ اقتدار تھاجو اپنے اسلام کو حقیقی اسلام سمجھتے تھے۔ انہوں نے نفاذ اسلام کے نام پر نظامِ عدل کو مشرف با اسلام کرنے کے لئے قانون دان جج صاحبان کے ساتھ ان کی اعانت کے لئے مذہبی علماء ( سکالرز) کی قاضیوں کی تقرریاں بھی فرمائیں۔ اسی سال مئی میں آزاد کشمیر کے ایک نامور وکیل جناب چوہدری محمد منظور صاحب مرحوم کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقعہ ملا۔ پنجاب میں ان دنوں گرمی نے اُدھم مچا رکھا تھا۔

لوگ بارش کے لئے ہاتھ اٹھائے بارانِ رحمت کے منتظر تھے۔ بس کوٹلی آزاد کشمیر پہنچی تو خوشگوار فضا میں روح اور بدن کو راحت نصیب ہوئی۔ محترم چوہدری صاحب کے کچہری سے گھر واپس پہنچنے سے پہلے نہا دھو کر لباس تبدیل کرنے کا وقت مل گیا۔ بعد از طعام ان سے آزاد کشمیر میں قانونی اصلاحات پر گفتگو ہوئی۔ انہوں نے قاضی صاحبان کے بصیر ت افراز واقعات سنائے جو دراصل نظام عدل میں اسلام کے نام پر ان لوگوں کی جہالت کے شاہکار تھے۔

ان کے ہاں ایک اور دوست ظہرانہ پر مدعو تھے جو ولایت پلٹ تھے۔ انہوں نے ازراہِ شفقت شام کو اپنے ہاں آنے کا حکم جاری کر دیا۔ تعمیل ارشاد کی خاطر حاضر ہو گیا۔ اپنی گفتگو میں انہوں نے کوٹلی میں بیٹھے ولایت کی خوب سیر کروا دی۔ انگلستان میں فلاحی ریاست کے کاموں۔ تمام انسانوں کے لئے ترقی کے مساوی مواقع کے علاوہ روٹی کپڑا اور مکان ( جس نعرہ پر تین برس قبل ہم نے فریفتہ ہو کر تن من دھن کی بے دریغ قربانی دی تھی) تعلیم صحت وغیرہ کی ذمہ داریوں کے شامل ہونے پر بھی روشنی ڈالی۔

ان کے لیکچر میں جہاں معلومات کا انبار تھا وہیں یہ خواہش دل میں شدت سے انگڑائیاں لینے لگی کہ ( اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ریاست پر یہ ذمہ داریاں تو بدرجہ اولیٰ عائد ہوتی ہیں ) کیا ہی اچھا ہو ہمارا وطن ان سے بھی بڑھ کر فلاحی بن جائے۔ مذہبی رہنما حضرت عمر ؓ کی فلاحی ریاست کا تذکرہ بڑے فخر سے کرتے ہیں لیکن وہ ان امور پر اب چودہ سو سال بعد اور ترقی کے اس دور میں بھی کوئی ٹھوس پلان پیش کرنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں سے بعض علامہ اقبال کے شعروں کو گنگناتے تو ہیں۔ مثلاً

جب تک نہ زندگی کے حقائق پہ ہو نظر
تیرا زجاج ہو نہ سکے گا حریفِ سنگ

لیکن در حقیقت۔
میدان عمل کا نام بھی لیں تو جھینپتے ہوں گھبراتے ہوں
ان کا طرز عمل ہے۔

بیرون ملک جا کر مروّجہ خیال کے مطابق دیسی لوگ عیاشیوں میں محو ہو جاتے ہیں اور ایمان بھی ضائع کر لیتے ہیں۔ لیکن یہ تو تصویر کا صرف ایک ہی رخ ہے۔ جبکہ اکثریت کے دل میں بیرون ملک جا کر وطن کی محبت کا جذبہ ایک اور رنگ میں جوش مارتا ہے اور ہر اچھی چیز دیکھ کر یہ خواہش شدت سے پیدا ہوتی ہے کہ خدا کرے یہ بھی وطن میں ہو۔ یہ بھی وطن میں ہو۔ باغ دیکھ کر جہاں ایک طرف دل باغ باغ ہوتا ہے وہیں ایک ہوک سی دل میں اٹھتی ہے کہ ہمارا پیارا وطن اس سے کیوں محروم ہے۔ اس کے لئے تو کسی زر مبادلہ کی بھی ضرورت نہیں۔

میرے میزبان بھی اس جذبہ سے سرشار تھے۔ انہوں نے قصہ سنایا کہ گزشتہ ہفتے کسی کام کی غرض سے ان کو کوٹلی سے راولپنڈی جانا پڑا۔ وہاں ایک انگریز ٹورسٹ سے ان کی ملاقات ہوئی۔ یہ ٹورسٹ خاصے جہاندیدہ تھے۔ ان کی باتیں سننے کے لئے انہوں نے اسے ایک ریسٹورنٹ میں مدعو کیا۔ انہی ایّام میں پاکستان میں اصلاحات کے نام پر حماقتوں کا دور دورہ تھا۔ بات کا رُخ پاکستان میں اصلاحات سے گزر کر جمہوریت کے قیام و استحکام کی جانب ہوگیا۔ اس انگریز نے جو پاکستانی سیاست پر گہری نگاہ رکھتا تھا میرے میزبان کے سوال پر کہ آپ پاکستان میں سیاست اور جمہوریت کے بارہ میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ یہ جواب دے کر ہکا بکا کر دیا کہ۔

” آپ لوگوں نے سیاست خاک کرنی ہے۔ آپ تو ابھی تک خوراک کے لئے لڑ رہے ہیں”۔

اُس سال پیدا ہونے والے بچے کی عمر اب چھیالیس سال ہو گئی ہے۔ اور ہم ترقی کر کے ایک دوسرے کو خوراک کے لئے قتل کرنے کے دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ کئی لوگ اس کو بھی خدمتِ دین اور فضلِ خدا سمجھتے ہیں۔

دیکھیے لاتی ہے اس شوخ کی نخوت کیا رنگ
اس کی ہر بات پہ ہم نام خدا کہتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).