گلگت بلتستان، سیاحت اور جیونیوز


فیس بک پر جیونیوز کے معروف پروگرام خبرناک دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ جو کسی دوست نے شیئر کیا تھا۔ یہ پروگرام 27 جنوری کو نشر ہوچکا ہے۔ پروگرام کا سیکرپٹ کچھ اس طرح کا ہے۔ گلگت بلتستان میں برف باری کا سلسلہ جاری ہے اور خون جما دینے والی سردی ہے۔ راستے تمام بند ہیں اورکچھ غیر مقامی سیاح پھنس کر رہ گئے ہیں۔

پروگرام کے سکرپٹ رایئٹر کے مطابق سردیوں میں گلگت بلتستان کے تمام ہوٹل بند ہوجاتے ہیں اور صاحب حثیت لوگ شہروں کا رخ کرتے ہیں۔ جو ہوٹل کھلے ہوتے ہیں وہاں ایک چوکیدار کے علاوہ کوئی نہیں ہوتا۔ برف باری کے باعث پھنسں ے ہوئے سیاح ایک ہوٹل میں کمرے کی غرض سے جاتے ہیں یا انہوں نے پہلے سے کمرہ لیا ہوا ہے۔

ہوٹل مالک سخت سردی اور سرکوں کے بند ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سیاحوں کو لوٹنا شروع کردیتا ہے، راستے بند ہیں جائیں گے تو کہاں جائیں گے وہ ان سے ایک کمرے کا چالیس ہزار روپے وصول کرتا ہے۔ چالیس ہزار نہ دینے کی صورت میں وہ انہیں سخت سردی میں اپنے ہوٹل سے نکال باہر کریں گے۔ سیاحوں میں ایک نیا شادی شدہ جوڑہ ہے جو گلگت بلتستان گھومنے آئے ہیں۔ ہوٹل والے سامنے ہاتھ جوڑ کر فریاد کر رہے ہیں کہ کمرے کی قیمت کچھ کم کر دے اور اس سخت سردی میں انہیں ہوٹل سے باہر نہ نکالا جائے۔

خاتوں اینکر کہتی ہے کہ ان کو کسی سٹور میں ہی جگہ دے دو، یہ بیچارے اس سردی میں کہاں جائیں گے اس کے جواب میں ہوٹل والا جواب دیتا ہے کہ ان کا استور سے نگر تک کوئی سٹور خالی نہیں ہے۔ یعنی اس پروگرام میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ گلگت بلتستان میں اگر بندہ مجبور ہو تو وہاں کے لوگ کس طرح اس مجبوری کا غلط فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس پروگرام میں گلگت بلتستان کے عوام کی تذلیل کی گئی اور کھل کر مذاق اڑایا گیا۔ سوشل میڈیا پر اس پروگرام کے بعد سخت ردعمل آنا شروع ہوگیا ہے۔ حقائق کے برعکس اس قسم کے سکرپٹ لکھنے والوں کی مذمت ہی کی جا سکتی ہے۔ یہ پروگرام حقائق کے بکل برعکس تھا۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں سردیوں میں ہوٹل بند نہیں ہوتے اس وقت بھی ہوٹل کھلے ہیں۔ دوسری بات موسم گرما کی نسبت موسم سرما میں ہوٹلوں کے ریٹ بہت کم ہوجاتیں ہیں یعنی جو کمرہ گرمیوں میں پانچ سے سات ہزار کا ملتا ہے وہ ان دنوں دو ہزار تک آرام سے مل جاتا ہے، اس لئے کہ گرمیوں میں بہت زیادہ رش ہوتا ہے، ہوٹلوں میں کمرہ کم ہی ملتا ہے سیاح لوگوں کے کھیتوں اور باغوں میں ڈینٹ لگادیتے ہیں۔ سردیوں میں ہوٹلوں کے کمرے مشکل سے پورے بک ہوتے ہیں۔

آپ کو یاد ہوگا کہ پچھلے سال مری میں سیاحوں سے بد تمیزی اور ہوٹل کے کمروں کے زیادہ پیسے وصول کرنے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر طوفان برپا کیا گیا تھا۔ سیاحوں نے مری جانے کا بائیکاٹ کر دیا تھا یہ وہی سکرپٹ ہے جو گکگت بلتستان کے نام کے ساتھ فلمایا گیا۔ گلگت بلتستان پاکستان کا وہ علاقہ ہے جہاں ہوٹل مالکان ہو یا دوکاندار، پبلک ٹرانسپورٹر ہو یا ٹیکسی والا یہ سب لوگ سیاحوں کے ساتھ اپنے ذاتی مہمان کی طرح برتاؤ رکھتے ہیں۔

گلگت بلتستان میں ایسی درجنوں مثالیں موجود ہیں سیاحوں کی گاڑیاں خراب ہونے اور راستے بند ہونے پر لوگوں نے اپنے گھروں میں ٹھہرایا ہے۔ لوگ اپنے کھیتوں میں فصلیں کاٹ کر سیاحوں کو ٹینٹ لگانے کے لئے جگہ دیتے ہے۔ سنسان جگہوں پر سیاح اپنی فیملیز کے ساتھ ٹینٹ لگا کر قیام کرتے ہیں آج تک کسی کے ساتھ کسی قسم کا کوئی حادثہ پیش نہیں آیا۔ آج تک کسی سیاح کو لوٹنے کی خبر سامنے نہیں آئی۔

ہم وہ لوگ ہے جو سیاحوں کے کھوئے ہوئے پیسے جن کی مالیت لاکھوں میں ہوتی ہے پوری ایمانداری کے ساتھ ان کو واپس کر دیتے ہیں۔ ہم وہ لوگ ہیں چائنہ سے آنے والے ٹرک سے کروڈوں مالیت کے سمارٹ فون کا کارٹن گرنے پر بحفاظت ان تک پہنچاتے ہیں۔ ہم وہ لوگ ہیں جو اشیائے خوردونوش کا ٹرک کہیں کلٹی ہ وجائے تو اس کا سامان ایک جگہ اکٹھا کرتے ہیں بلکہ اس پر پہرہ بھی دیتے ہیں۔ ہم وہ لوگ ہیں جو غیر ملکی سیاح سے گرے ہزاروں ڈالر کا سوشل میڈیا پر استہار کر کے ان تک پہنچاتے ہیں۔ ہم وہ لوگ ہیں جب سیاحوں کے ٹائر پنکچر ہو کر پہاڑیوں کے بیچ بے سہارا رہ جاتے ہیں، انہیں اپنا اسٹپنی دے کر جاتے ہیں۔ ہم وہ لوگ ہیں جب سیاح ہوٹل کا کمرہ چھوڑتے ہوئے پیسے دیتے ہیں تو رکھو بھائی رکھو کی رٹ لگاتے ہیں۔ ہم وہ لوگ ہیں جب سیاحوں کے بیگ گم ہو جاتے تو ہوٹلوں میں مفت ٹھہراتے ہیں۔

گلگت بلتستان حال ہی میں دنیا کی خوبصورت جگہوں کی فہرست میں شامل ہوچکا ہے غیر ملکی سیاحوں نے پاکستان آنے والے سیاحوں کو گلگت بلتستان جانے کا مشورہ دیا ہے۔ اور اس خطے کی خوبصورتی حال ہی میں کھل کر دنیا کے سامنے آئی ہیں۔ لوگ اس خطے کو پاکستان کا سوئزلینڈ کہتے ہیں۔ یہاں گھوم کر واپس جانے والے سیاحوں نے نہ صرف اس خطے کی خوبصورتی کی تعریف کی بلکہ یہاں بسنے والے لوگوں کی مہمان نوازی اور ایمانداری کی بھی تعریف کی ہے۔ حکومت پاکستان اس علاقے میں سیاحت کو مزید فروغ دینے کے لئے کوشاں ہے، تاکہ لوگوں کی مالی حالات بہتر ہو۔

گلگت بلتستان پہاڑی علاقہ ہونے کے باعث یہاں کے لوگوں کے روزگار کا دارو مدار سرکاری نوکری اور سیاحت پر ہے۔ اس علاقے میں سیاحت کا شعبہ ترقی کررہاہے ابھی لوگ اس شعبے میں پیسہ لگا رہے ہیں اور محنت کر رہے ہیں، ایسے میں پاکستان کے ایک بڑے چینل کا اس طرح حقائق کے برعکس پروگرام کرنا یہاں کے لوگوں کا مذاق اڑانے اور تذلیل کرنے کے برابر ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ یہ اس طرح کا پروپیگنڈہ یہاں کے ہوٹل مالکان کا معاشی قتل ہے۔

اس پروگرام کے بعد گلگت بلتستان میں سیاحت کے شعبے کو شدید نقصان پہنچے گا۔ جیو نیوز کے اس پروگرام کو گلگت بلتستان میں سیاحت کے خلاف گہری سازش قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اس جھوٹ پر مبنی پروگرام کے ذریعے ملکی سیاحوں کو اس خطے سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).