بادشاہ کے سائز کی زنجیریں اور غدار شہری


قیامت، قیامت کی چال چل چکی ہے!
فضا میں معلق زمین کے گولے سمیت کائنات کے تمام گولے آپس میں ٹکرا کر ایک بِگ بینگ کے ساتھ پارہ پارہ ہوچکے!
حسبِ وعدہ روئی کے گالوں کی طرح بکھر چکا ہے جہاں!

اب حدِ نگاہ سے بھی آگے تک انسانی سروں کا لامتناہی سمندر ہے جو عالمِ نفسانفسی میں ٹھاٹھیں مار رہا ہے اور جسم ایک دوسرے پر گرے پڑتے ہیں!
کہتے ہیں کہ بہت آگے کہیں خدا بہ ذاتِ خود ہر ایک سے سوال بھی کررہا ہے اور فیصلے بھی لکھ رہا ہے!
لیکن ابھی خدا ہماری نگاہ سے اوجھل ہے اور انسانی قطاریں ہزارہا برس جتنی طویل ہیں!

سورج سوا گز کے فاصلے سے سروں پر کھڑا ہے اور زمین کی تپش اتنی ہے کہ پیر اکھڑ اکھڑ جاتے ہیں!
میرے آگے کھڑا شخص زمین کی اس دہکتی تپش سے ننگے پیروں پر اُچھل کر میری جانب گھوم جاتا ہے۔
کیا دیکھتا ہوں کہ یہ تو میرے ملک کا بادشاہ ہے!
بادشاہ تو ہے مگر قیامت کی اس گھڑی بالکل مجھ جیسا دکھ رہا ہے!

میری طرح ماتھا پسینے سے تر!
چہرے پر خوف و وحشت!
وہی پیاس سے سوکھے ہونٹ اور چٹختی زبان!
نہ تاج! نہ ریشم! نہ اطلس و کمخواب! نہ لعل و جواہر اور نہ جاہ و جلال!
عجب! کہ ہے مگر میرے ملک کا بادشاہ!

آنکھیں چار ہوتے ہی میرا عادی جسم آپ ہی آپ، روبوٹ کی طرح جھک جھک کر بادشاہ کے حضور فرشی سلام پیش کرتا ہے!
تم مجھے جانتے ہو؟
بادشاہ بے یقینی سے پوچھتا ہے۔

ہاتھ جوڑ کر عرض کرتا ہوں کہ حضور
آپ مجھے نہیں جانتے پر میں آپ کی رعایا کا ایک ادنیٰ سا کیڑا مکوڑا ہوں۔
زہے نصیب کہ آج میں آپ کو اپنی گنہگار آنکھوں سے اتنا قریب سے دیکھ رہا ہوں!
میرے لائق کوئی خدمت ہو تو حکم کیجیے عالی جاہ!
میں بجاآوری کے لیے حاضر ہوں۔

میں یہ کہتا ہی ہوں کہ اگلے ہی لمحے میرے ملک کا بادشاہ مجھ گدا کے سامنے سسک پڑتا ہے!
پانی۔
دو گھونٹ پانی لادوگے کہیں سے؟
اس زمین پر پانی کہیں نہیں ہے حضور!
کچھ اور کہیے۔ شاید پیش کرسکوں!

بادشاہ سروں پر ٹھہرے آگ اگلتے سورج کو بے بسی سے دیکھتے ہوئے التجا بھرے انداز میں سسکتا ہے۔
اچھا!
تو پھر تھوڑی سی چھاؤں لادو کہیں سے!
میرا بادشاہ مجھے حکم دے اور حیف مجھ پہ اگر میں بجا نہ لاؤں!
مگر اس زمین پر چھاؤں کہیں نہیں ہے حضور!

اسی دوران انسانی قطاریں ذرا آگے کو اُس طرف حرکت کرتی ہیں، جس طرف کہتے ہیں کہ خدا بہ ذاتِ خود حساب لے رہا ہے اور فیصلے لکھ رہا ہے۔
بادشاہ میرا کھردرا ہاتھ اپنے نفیس ہاتھ میں یوں جکڑ لیتا ہے جیسے میلے میں کھویا ہوا بچہ!
مجھے تنہا چھوڑ کر مت جانا پلیز۔
میری مجال کہ میں آپ کو چھوڑ کر کہیں اور جاؤں حضور!
میرا تو کام ہی آپ کے قدموں سے لپٹے رہنا ہے۔

قطاریں کچھ اور آگے ہوتی ہیں۔
دھکم پیل سے گھبرا کر بادشاہ پھر آنسوؤں کے ساتھ سسک پڑتا ہے اور بے یقینی سے پوچھتا ہے۔
تم سچ مچ میری رعایا ہو نا؟
مجھے اپنا زرخرید غلام سمجھیے حضور!
میں اگر گر پڑوں تو مجھے اٹھا لوگے نا؟
میں آپ کو گرنے ہی نہیں دوں گا حضور! وہ غلام بھی بھلا غلام ہوا جو اپنے بادشاہ کے قدموں کو کھڑے رہنے کے لیے اپنا جسم پیش نہ کرے!
میری وفا پر یقین کیجیے حضور!

بادشاہ کی آنکھوں میں میری وفا پر یقین اتر آتا ہے۔
یوں میں اور میرے ملک کا بادشاہ ٹھاٹھیں مارتے انسانی سمندر میں کچھ اور آگے دھکیلے جاتے ہیں۔
گو کہ خدا ابھی بہت بہت دور ہے اور ہزارہا برس کا فاصلہ ابھی درمیاں ہے!

مگر اچانک راستے میں ایک چیک پوسٹ آجاتی ہے، بالکل ایسی جیسی ہمارے ملک میں جگہ جگہ بنی ہوتی تھیں۔
جہاں ہر گزرنے والے کو روک کر تلاشی لی جاتی تھی۔
مگر اس چوکی پر وردی والے نہیں، بلکہ سفید پروں والے دو عجب پراسرار چہرے بیٹھے ہیں۔
مجھے اور میرے ملک کے بادشاہ کو یہ کہہ کر روک لیا جاتا ہے کہ تلاشی لینی ہے۔

بادشاہ سہم کر میری طرف دیکھتا ہے۔
انہیں بتاؤ کہ میں کون ہوں!
میں ہاتھ جوڑ کر سفید پروں والے عجب چہروں کو کہتا ہوں کہ مائی باپ یہ میرے ملک کے بادشاہ ہیں۔
زمین پر خدا کے نائب تھے۔
زمانہ ان کے آگے سرنگوں رہا ہے اور ان کے جاہ و جلال کا گواہ ہے۔
کبھی کوئی گردن ان کے روبرو اٹھی نہیں۔
ایسے بادشاہوں کی تلاشی نہیں لی جاتی مائی باپ!
میں ان کی رعایا کا ایک دو ٹکے کا آدمی ہوں۔ ان کی جگہ آپ مجھ کمی کمین کی تلاشی لے سکتے ہیں۔

دونوں عجب چہرے سپاٹ ہیں۔
اپنے سفید پر پھڑپھڑاتے ہیں۔
رجسٹر کھولتے ہیں اور سرد آواز میں کہتے ہیں کہ بادشاہوں کی ہی تلاشی لینے کا حکم ہے۔
پھر وہ بادشاہ کی تلاشی لینا شروع کردیتے ہیں۔

ایک ایک کرکے دل اور دماغ کے بخیے ادھیڑتے چلے جاتے ہیں!
حیراں ہوں کہ کیسے کیسے معاملات ہیں جو میرے بادشاہ کے دل و دماغ سے نکل نکل کر ان کے روبرو ڈھیر ہوئے جاتے ہیں!
ایک بھی معاملہ مجھ جیسے کم علم و کم فہم کی سمجھ کا نہیں!
کہاں شاہی معاملات اور کہاں میں!

اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ ان لاتعداد معاملات کے ڈھیر پر ایک میں بھی رکھا ہوں!
پہلے تو میں خود کو پہچان ہی نہیں پاتا کہ یہ میں ہوسکتا ہوں!
وہ بھی ان شاہی معاملات میں پڑا ہوا!
جبکہ میرے بادشاہ کو تو یہ خبر ہی نہ تھی کہ مجھ جیسا کوئی بندہ گندا اس کی رعایا میں کہیں پڑا ہے!

دل چاہتا ہے کہ خود کو بادشاہ کے معاملات میں سے گندی مکھی کی طرح چٹکی میں پکڑ کر اٹھالوں!
مگر اس سے پہلے ایک سفید پروں والا اپنی
شفاف شیشے جیسی ہتھیلی پر میرا میلا کچیلا، انگوٹھے برابر کا وجود رکھ چکا ہے!

اب وہ دونوں بادشاہ سے مخاطب ہیں۔
اسے جانتے ہو؟
یہ میری رعایا کا ایک معمولی شخص ہے۔
یہ بھوک سے بلبلاتا رہا ہے تمہاری سلطنت میں، تمہیں معلوم ہے؟
میں دل ہی دل میں ہنس دیتا ہوں کہ بھلا یہ بھی کوئی سوال ہے جو کسی بادشاہ سے کیا جائے!
بادشاہ کا کام گشت کرکے بھوکوں کی خبر رکھنا تو نہیں!
بادشاہ بھی انکار میں سر ہلا دیتا ہے۔

وہ اگلا سوال کرتے ہیں۔
ایک دن تمہاری شاہی سواری کی وجہ سے راستے بند ہوگئے تھے، اس شخص کی بیوی ہسپتال پہنچ نہ سکی اور سڑک پر بچہ پیدا کرتے ہوئے مرگئی۔
تمہیں معلوم ہے؟
بادشاہ پھر انکار میں سر ہلا دیتا ہے۔

میں پھر دل ہی دل میں ہنس دیتا ہوں کہ یہ بھی کوئی سوال ہے!
بادشاہ کو کیسے پتہ چلے کہ سڑک کنارے پھنسے ہجوم میں میری بیوی مرجائے گی!
یہ تو خدا کا معاملہ ہے کہ جس نے عین اس وقت اجل کو حکم کیا کہ جاکر دردِزہ میں مبتلا اس عورت کی روح قبض کر۔
ہم نصیب کی موت مرتے ہیں۔
شاہی سواری کا کیا قصور!

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

نورالہدیٰ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

نورالہدیٰ شاہ

نور الہدی شاہ سندھی اور اردو زبان کی ایک مقبول مصنفہ اور ڈرامہ نگار ہیں۔ انسانی جذبوں کو زبان دیتی ان کی تحریریں معاشرے کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

noor-ul-huda-shah has 102 posts and counting.See all posts by noor-ul-huda-shah