مسئلہ کشمیر پہ ”ہماری منافقت“


چوہدری رحمت علی نے جب مستقبل کی اسلامی ریاست کے نام کے لیے لفظ ”پاکستان“ کا انتخاب کیا تو بتایا کہ ”ک“ کشمیر کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ Uprising In Kashmir کے صفحہ سترہ پر لکھا ہے کہ چوہدری صاحب سے ایک مغربی صحافی نے سوال کیا کہ ”ک“ کی بنیاد پر آپ ریاست کا نام تجویز کر رہے ہیں، اگر کشمیر نے پاکستان میں شمولیت اختیار نہ کی تو کیا ہو گا۔ ؟ چوہدری صاحب نے مختصر جوا ب دیا کہ:

”ک“ کے بغیر پاکستان نہیں بن سکتا۔ پاکستان، پاکستان تب ہی بن سکتا ہے جب اس میں ”ک“ شامل ہو۔

بانی پاکستان محمد علی جناح کی کشمیر سے محبت بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ وہ کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیتے تھے۔ 1944 کے موسم گرما کے ڈھائی ماہ قائد اعظم نے کشمیر میں گزارے۔ منیر احمد منیر صاحب کی کتاب ”دی گریٹ لیڈر“ میں ایچ خورشید کی زبانی قائد اعظم کے اس طویل دورے کی تفصیلات درج ہیں۔ قائد اعظم لاہور سے سچیت گڑھ کے راستے بذریعہ کار کشمیر پہنچے۔ سرینگر میں چوہدری غلام عباس اور شیخ عبداللہ نے ان کے اعزاز میں الگ الگ استقبالیہ دیا۔

اسی دورہ کے دوران 17 جون 1944 کو قائد اعظم نے سرینگر کی جامع مسجد سے متصل مسلم پارک میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے شیخ عبداللہ کی منافقت بھی بے نقاب کی تھی۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ قائد اعظم سرینگر میں ایک گھر بھی خریدنا چاہتے تھے۔ اس کے لیے انہوں نے اپنے قریبی دوستوں اور ساتھیوں کو نا صرف سرینگر میں ایک اچھا سا گھر دیکھنے کو کہا تھا بلکہ ایک ہاؤس بوٹ بھی پسند کر لی تھی۔ اس بارے میں قائد اعظم دیر تک خط وکتابت بھی کرتے رہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قائد اعظم کو یقین تھا کہ کشمیر پاکستان کا حصہ بنے گا۔ قائد اعظم کے اس دورۂ کشمیر کی تفصیلا ت دلچسپ تصویروں کے ساتھ معروف صحافی ضیاء شاہد صاحب نے اپنی کتاب ”قائد اعظم، زندگی کے دلچسپ اور سبق امو ز واقعات“ میں شامل کر رکھی ہیں۔

کشمیر پہ بھارتی قبضہ ناجائز، غیر منصفانہ، جھوٹا اور Untenable ہے، یہ تاریخی جملہ دنیا کے عظیم لیڈر نیلسن منڈیلا نے NAM کانفرنس میں اپنی صدارتی تقریر کے دوران بھارتی وفد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ ”اگر جلد ہی کشمیر کا کوئی پر امن تصفیہ نہ کرایا گیا تو یہ گلوبل امن اور علاقائی سلامتی کے لیے اس قدر خطر ناک ہو جائے گا کہ اکسیویں صدی کی یہ پوری دنیا اس کی لپیٹ میں آ جائے گی اور پھر NAM جیسی تنظیمیں بھی بے معنی ہو کر رہ جائیں گی“۔ 26 مارچ 2004 کو برطانیہ کے سیکر ٹری خارجہ جیک سٹرا نے پشاوریونیورسٹی میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھاکہ ”پاکستان اور بھارت کے درمیان 1947 سے جاری کشمیر کا مسئلہ اگر حل ہو جاتا ہے تو اس سے اسلام اور مغرب کے درمیان غلط فہمیوں اور نفرتوں کا سلسلہ بھی کم ہوتے ہوتے ختم ہو جائے گا“۔

سبھی اہلِ عقل جانتے ہیں کہ ایشیا میں امن کروانے کے لیے اس مسئلے کا حل ضروری ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے دونوں ملکوں (پاکستان، بھارت) نے کوشش ضرور کی ہے لیکن ”بے معنی“ انداز میں۔ وعدے بھی کیے گئے مگر بھارت کے نزدیک وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے، یقین نہیں آتا تو 30 اکتوبر 1947 کو ہندوستانی وزیراعظم جواہر لال نہرو کی پاکستانی ہم منصب لیاقت علی خان کو بھیجی گئی بھارت سرکار کی ٹیلی گرام ہی پڑھ لیں۔ کیا کیا وعدے نہ کیے تھے، مگر مکر گئے۔

مسئلہ کشمیر حل نہ ہونے کی و جوہات پر نظر دوڑائی جائے تو پہلی وجہ ”غیر سنجیدگی“ سامنے آتی ہے۔ بھارتی حکمران ہوں یا پاکستانی ”جمہوریت کے ہیوی ویٹ چیمپینز“ سے لے کر ”سائیں ڈکٹیٹر حضرات“ تک بہت ہی کم لوگ ایسے ملیں گے جو اس مسئلے پر سنجیدہ تھے یا ہیں۔ بحیثیت قوم ہم نے اور ہمارے حکمرانوں نے 5 فروری کو ”چھٹی منا“ کر صرف کشمیری بھائیوں کے ساتھ منافقت کی ہے۔ چند بڑے شہروں میں جلوس نکالے جاتے ہیں، سیاسی حضرات نعرہ بازی کرواتے ہیں۔

اس طرح ٹائر جلا کر اپنے ہی ماحول کو گندہ کرنے سے کیا ملے گا۔ ؟ زیادہ سے زیادہ کچھ اہلِ عقل کسی اسمبلی میں مذمتی قرار داد پیش کر دیتے ہیں بس۔ بات کرنے کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ہر بندہ کندھے پہ بندوق اٹھائے ”جہاد“ کا آغاز کر دے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر عملی طور پر کچھ نہیں کر سکتے تو ”مذاق“ مت اڑاؤ ا ُن کا۔ اب کچھ صاحبان کہیں گے کہ ”مذاق“ کیسے تو جناب ایک لمبے عرصے تک کشمیر کمیٹی کا چیئر مین مولانا فضل الرحمان کو رکھنا کسی مذاق سے کم نہیں۔

ہماری ستم ظریفی دیکھئے کہ دودھ کی رکھوالی کے لیے بلا رکھا ہوا تھا۔ حضور جو بندہ انگلش تک نہیں بول سکتا وہ کسی بھی انٹر نیشنل فورم پر اس مسئلے کی اہمیت کیسے اجاگر کرے گا۔ ؟ مولانا اس مسئلے کا ”پرچار“ کیسے کرتے رہے ہیں اس کی تفصیلات کے لیے یہاں تو جگہ کم ہے مگر کرامت اللہ غوری صاحب کی کتاب میں بہت کچھ درج ہے۔ یہ تو جمہوریت پسندوں کا حال ہے مگر ہمارے ڈکٹیٹر پرویز مشرف صاحب کون سا کسی سے کم تھے، جناب نے دفعہ 257 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ”Out of the Box“ جو منافقت جاری رکھی اس سے بھی سبھی واقف ہیں۔

مسئلہ کشمیر حل نہ ہونے کی دوسری بڑی وجہ ”امن کے علمبرداروں“ کا ”اسلحہ فروشی“ کا شوق ہے۔ ایک ”عام آدمی“ کو بھی یہ بات اچھی طرح سمجھ آتی ہے کہ اگر دونوں ملکوں (پاکستان، بھارت) کے درمیان ”امن“ ہو گیا تو اسلحہ کون خریدے گا اور کیوں خریدے گا۔ ؟ بات بھی سچ ہے کہ اگر اسلحہ بنایا ہے تو بیچنے کے لیے مارکیٹ بھی چاہیے۔ اس مار کیٹ کو بر قرار رکھنے کے لیے ان ”پر امن اسلحہ فروشوں“ نے اس مسئلے کو حل ہونے سے روکنے کے لیے ہاتھ نہ سہی ”ٹانگ ’ضرور اڑائی ہے۔

مسئلہ کشمیر کے حل میں حائل تیسری بڑی رکاوٹ عالمی ادارے ہیں، جنہیں ہر چھوٹے بڑے مسئلے پر ”انسانی حقوق کا چارٹر“ یاد آ جاتا ہے مگر مسئلہ کشمیر پر ایسا ردِعمل ظاہر کرتے ہیں جیسے کوئی بھینس کے آگے بین بجا رہا ہو۔ کوئی ان عالمی اداروں کو سمجھائے کہ ایسے بلی سے ڈرے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے سے مسئلے حل نہیں ہوتے، کشمیریوں کے جس لہو سے تاریخ کے اوراق خون زدہ ہو گئے کم از کم ہیں اس لہو کو تو دیکھ کر آنکھیں بند نہ کریں حضور۔

خدا مسئلہ کشمیر کے حل کی راہ میں حائل ان تمام عوامل کو ”راہ راست“ پہ لائے اور اس مسئلے کو حل کرنے کی توفیق دے۔ آمین۔ میری ناقص رائے کے مطابق مسئلہ کشمیر کا سب سے مناسب حل یہی ہے کہ ”دونوں ملک اس مسئلے کو اپنی ذاتی انا کا مسئلہ نہ بنائیں اور اپنی ہٹ دھرمی سے باز آ جائیں۔ کشمیر کو ایک آزاد اور خود مختار ریاست قرار دے دیا جائے“۔ اس سے کم از کم ”ذاتی مفادات“ کی خاطر ”کشمیریوں کے لہو“ کا استعمال تو بند ہو جائے گا، اتنا ارزاں تو نہیں انسانیت کا خون۔ ؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).