اپنے تئیں ایک فیمینسٹ کا بیانِ اقبالی


مجھے اندازہ نہیں کہ میرے خیالات اور نظریات کی سمت کب اس نہج پر متعین ہو گئی کہ مجھے میرے اردگرد کے لوگوں نے فیمینسٹ سمجھنا اور کہنا شروع کردیا۔ شاید یہ ایک ارتقائی عمل تھا۔ ایک متشدد حد تک میل شاؤنسٹک معاشرے میں شاید یہ محفوظ ترین باغیانہ راستہ تھا اس لئے مجھ جیسے بے عمل اور کم کوش کو اس ٹائٹل کو اپنانے میں یک گونہ احساسِ تفاخر نظر آیا اور میں نے خود بھی اپنے تئیں یہ سہرا سر پر باندھ لیا۔

مگر آج میں اس تحریر کے ذریعے یہ قبول کرنا چاہتا ہوں کہ میں فیمینسٹ نہیں ہوں۔ زبانی کلامی دعوؤں میں اور عملی قدم اٹھانے میں جو فرق ہوتا ہے، اس کا ادراک مجھے پچھلے دنوں اپنی اہلیہ کے انتقال کے بعد اس کے مالی معاملات طے کرتے ہوئے ہوا۔ مرحومہ نے بارہ تیرہ سال تدریس کے فرائض انجام دیے، اس کے والد کی وفات پر جائیداد میں حصہ بھی اسے ملا، مگر آج جب میں اس کا ترکہ بانٹنے بیٹھا تو اس کی ملکیت کے نام پر چند تولے سونا میرا منہ چڑا رہا ہے، کم و بیش اتنا ہی جتنا اسے شادی پر دونوں جانب سے ملا تھا، یا شاید اس سے بھی کم۔ اس کی برسہا برس کی کمائی، اس کے والد کا ترکہ کہاں گیا؟ گھر کی ذمہ داریوں کی نذر۔ وہ جس کے نان نفقے کا ذمہ دار میں تھا۔ میں جو اسے نوکری کی اجازت دے کر اس کے جملہ حقوقِ نسواں کا چیمپئن ہونے کا تمغہ سینے پر سجائے پھرتا تھا، اس کی معاشی خود انحصاری کی ضرورت سے عمر بھر غافل رہا۔

یہ معاشی استحصال کی وہ شکل ہے جس کا ادراک خال خال ہی کسی کو ہو پاتا ہے۔ عورت کے حقوق کے بلندو بانگ دعووں میں اس کی آزادی کو ہمیشہ حصولِ تعلیم اور پسند کی شادی تک ہی محدود کر دیا جاتا ہے۔ بڑا تیر مارا تو مالی خود مختاری کے نام پر نوکری کی اجازت اور باپ کی جائیداد میں حصہ۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اس نوکری اور باپ کی جائیداد کے حصے سے مستفید کون ہوتا ہے۔ اگر سسرال نہیں تو اس کا شوہر اور بچے؟ میں نے حقوقِ نسواں کے بڑے سے بڑے فورم پر بھی کبھی شوہر کے ترکے میں بیوی کے حصے کے حق میں بات نہیں سنی، خصوصاَ عمر رسیدہ عورت کے لئے، حالانکہ یہ وہ مرحلہ ہے جہاں عورت کو معاشی خود انحصاری کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔

ستم ظریفی تو یہ ہے کہ اس معاشی استحصال کو بڑی سفاکی سے عورت کی ازدواجی زندگی کے تحفظ کی ضمانت بنا دیا جاتا ہے۔ شادی کی کامیابی کا معیار؟ آٹھ دس سال گزر گئے، دو چار بچے ہوگئے، عمر ڈھلنے کو آئی، اب بال بچوں والی ہے گھر محفوظ ہے۔ گھر محفوظ ہے یا عورت کی آپشنز محدود یا مسدود ہوگئی ہیں؟ سماجی، اخلاقی، خود ساختہ مذہبی پریشرز ایک طرف، اس سٹیج پر اس کا معاشی اور مالی عدم تحفظ ہی اس کی سب سے بڑی کمزوری ہوجاتا ہے۔ شوہر عدم سدھارے تو ماں کی مامتا کی ماری ترکے میں اپنا حصہ بھی بچوں کو سونپ دے۔ اس عمر میں جائیداد، روپیہ پیسہ بڑھیا کے کس کام کا۔ اب اس ایثار میں مامتا کے فیصد تھی اور سماج کا پریشر کتنا تھا، اس جھنجھٹ میں کون پڑے۔

اور بات جب گھر گرہستی کے تحفظ کی ہو تو ساری تان عورت کے کردار اور عورت کی ذمہ داریوں پر ہی کیوں آجاتی ہے؟ ملا کا وعظ ہو یا دانشور کا لیکچر، پی ٹی وی کا ڈرامہ ہویا سٹار پلس یا سونی یا ہم ٹی وی کا، فیس بک کے سُوڈو انٹلیکچوئل ہوں یا کوئی اور، مجھے ہمیشہ اس بات سے وحشت ہوتی ہے کہ معاشرتی سدھار کی تمام تر ذمہ داری ہمیشہ عورت پر ہی کیوں ڈال دی جاتی ہے۔ بچی کو صبر بھی سکھایا جاتا ہے، ادب بھی سمجھایا جاتا ہے، قربانی بھی تعلیم کی جاتی ہے، مذہب کا تڑکا بھی ( گرچہ خود ساختہ ہی ہو) لگایا جاتا ہے۔

آج کی بچی اعلٰی تعلیم بھی حاصل کرے، اچھی نوکری بھی کرے، اور اس سب کے بعد گھر داری بھی سنبھالے۔ اچھا میک اپ بھی آتا ہو، سٹائلش بھی ہو، اور سوسائٹی میں ”موو“ بھی کرسکتی ہو، اور پھر زمانہؑ جاہلیت کے معیار کی اطاعت بھی کرے۔ اسلامی تعلیمات کے نام پر شوہر کا صرف اچھی نظر سے دیکھ لینا ہی اس پر احسانِ عظیم ٹھہرتا ہے۔

میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آخر یہ نامراد ”مرد“ کس مرض کی دوا ہے۔ اس کی ساری مردانگی عورت کی تضحیک، عورت کی تذلیل ہی میں پوشیدہ ہے، اور اپنی اس شترِ بے مہار مردانگی کی تسکین میں اس کا سب سے آسان ہدف بیچاری بیوی ثابت ہوتی ہے۔ کیونکہ اسے تو گھر سے ہی صبر، قربانی، ایثار، حوصلہ برداشت کی ”گھڑھتی“ دے کر پالا گیا ہوتا ہے۔

دراصل ہم اتنے میل شاوؑنسٹ معاشرے میں جی رہے ہیں کہ معاشرہ اور اس کے مرد تو ایک طرف ہماری خواتین بھی میل شاوؑنسٹ ہیں۔ ہماری بڑی بوڑھیاں جوان لڑکیوں کو دعا بھی دیتی ہیں تو کہتی ہیں ”سدا سہاگن رہو“ اب اس کی عملی صورت کیا ہوسکتی ہے؟ یہی کہ بیچاری لڑکی شوہر سے پہلے فوت ہو جائے۔

ہمارے میل شاوؑنزم کی انتہا یہ ہے کہ ہم اپنی عزت اور شرافت کا تذکرہ بھی اپنی بہن، اپنی ماں کے حوالے سے کرتے ہیں مثلاَ ”ہم بھی ماوؑں بہنوں والے ہیں، “ کسی عورت سے احترام کا اظہار کرنا ہو تو کہتے ہیں، ”آپ ہماری ماوؑں بہنوں جیسی ہیں“ یعنی عزت اسی صورت میں ہے اگر عورت آپ سے منسوب ہو، آپ کی ماں ہو آپ کی بہن ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نتیجہ یہ کہ جب ایک ایسی عورت آپ کی زندگی میں آتی ہے جو آپ کی بہن آپ کی ماں نہیں ہے تو ہمارے نزدیک وہ قابلِ احترام ہی نہیں ہوتی۔

یہی آج گھر گھر کا المیہ ہے۔ ہم اپنے لڑکوں کو اس معاشرتی ذمہ داری کے لئے تیار ہی نہیں کرتے، نہ ذہنی ظور پر نہ معاشرتی دباؑو کے ذریعے، نہ مذہبی رجحان کے تحت۔

گھر گرہستی کی کامیابی ہی عورت کی سلیقہ شعاری کا پیمانہ ٹھہرایا جاتا ہے۔ اور اس پیمانے پر پورا اترنے کے لئے عورت خود اپنے ہاتھوں اپنا معاشی استحصال کرواتی ہے۔ شوہر سے محبت کے نام پر، بھائیوں کی عزت کے بہروپ میں، بچوں کے لئے ایثار کے پردے میں۔

اور مجھ جیسے خود ساختہ فیمینسٹ سوشل میڈیا پر بقراطی جھاڑ کر اپنے فرض سے سبک دوش ہوجاتے ہیں۔ لہٰذہ آج میں اقبالِ جرم کرتا ہوں کہ میں اپنی عزیز ترین نسوانی ہستی کے معاشی استحصال کا مجرم ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).