’’لاہور کا قدیم ترین گورا قبرستان…1841ئ‘‘


عام طور پر قبرستان کو ہمارے ہاں شہر خموشاں کہا جاتا ہے لیکن شہر تو کبھی خاموش نہیں ہوتے کہ جہاں لوگ آباد ہوں گے وہاں ان کی باتوں کا شورتو ہو گا‘ آوازیں تو ہوں گی۔ چنانچہ جیسے شہر بولتے ہیں ایسے قبرستان بھی بولتے ہیں اگرچہ سرگوشیوں میں اور یہ سرگوشیاں خاص طور پر انہیں سنائی دیتی ہیں جن کے پیارے وہاں دفن ہوتے ہیں۔

کیا ہم اپنے عزیزوں کی ڈھیریوں کو چھوتے ہی دل ہی دل میں ان سے مخاطب نہیں ہوتے۔ ان سے کلام نہیں کرتے۔ کبھی آپ کو کوئی خوشی ملتی ہے‘ کوئی خاص عنائت ہوتی ہے تو آپ کا جی چاہتا ہے کہ آپ اپنے جدا ہو چکے پیاروں خاص طور پر اپنے والدین کو اس میں شریک کریں۔

کم از کم میں تو ایسا ہی کرتا ہوں۔ قبرستان جا کر ان سے الگ الگ باتیں کرتا ہوں۔ انہیں وہ خبر سناتا ہوں دل ہی دل میں جو میرے لئے مسرت کی نوید لاتی ہے۔ امی سے الگ اور ابا جی سے الگ کہ ماں سے مخاطب ہو کر کچھ اور کہنا ہوتا ہے اور باپ کے ساتھ گفتگو یکسر مختلف انداز میں ہوتی ہے۔ جب کبھی مجھے یا میرے بچوں کو کوئی کامیابی نصیب ہوئی میں اکثر اپنے والدین کی قبروں پر گیا اور ان کا شکریہ ادا کیا۔

پچھلے دنوں میرے مرحوم بھائی زبیر کے اکلوتے بیٹے زوہیر کے ہاں ایک بیٹے کی ولادت ہوئی اور میں نے اس کا نام سناّن رکھا۔ میرا چھوٹا بھائی کرنل مبشر خاص طور پر قبرستان گیا کہ بھائی جان کو خوشخبری سناتے ہیں۔ زندگی میں صرف ایک بار صبح سویرے عید کی نماز سے بھی پیشتر میانی صاحب کے قبرستان میں گیا کہ ایک دوست کے نومولود بچے کی وفات ہو گئی تھی اور میں نے وہاں زندگی کے کوئی رنگ دیکھے۔

ایک ماں اپنے جڑواں بچوں کی قبروں کو ایسے پیار کر رہی تھی جیسے مٹی نہ ہو ان کے بدن ہوں اور اس کے آنسو ٹپ ٹپ گرتے جا رہے تھے لیکن وہ مسکرا بھی رہی تھی کہ اس ملاقات نے اسے خوشی بھی دی تھی۔ ایک اور قبر کے گرد باقاعدہ ڈھول بج رہے تھے اور عزیز رشتے دار ایک دوسرے کو ہار پہنا رہے تھے۔

زیادہ تر لوگ عید کی نماز کے بعد آئے بہت بنے سنورے اور وہ سب بہت خوش تھے۔ صرف وہ بہت غمگین تھے‘ آنسو بہاتے تھے جن کے عزیزوں کی قبروں کی مٹی ابھی سوکھی نہ تھی۔ 25دسمبر کو یعنی بڑے دن میں اپنے چند دوستوں کے ہمراہ سرکلر روڈ پر واقع لاہور میں غالباً سب سے قدیم گورا قبرستان میں گیا اور وہاں ہماری مسیحی برادری کے لوگوں کی اتنی رونق تھی کہ کیا بیان کروں۔

جیسے ہم عید کی نماز کے بعد قبرستانوں کا رخ کرتے ہیں یہی رواج عیسائیوں میں بھی تھا۔ یہاں بھی مردوزن اپنے بہترین لباسوں میں تھے۔ سب سے قدیم قبر 1841ء کی تھی۔ بیشتر قبریں سرخ اور سفید پتھروں کی تھیں اور ان پر نہایت شاندار پھول بوٹے ابھرے ہوئے تھے۔ جدائی کی نظمیں تھیں۔ دعائیں تھیں اور ان کے لئے جنت کی آرزو نقش تھی۔

میں سمجھتا ہوں کہ ان قدیم قبروں اور ان پر آویزاں کتبوں کو محفوظ کر لینا چاہیے کہ پرانی تاریخ یوں بھی ترتیب دی جاتی ہے۔ ’’یہاں مسٹر بارلو آف رائل لانسرز کا بیٹا دفن ہے۔ وفات مئی 1842ء یہ کتبہ زمین پر پڑا ہوا ہے۔ قبر معدوم ہو چکی ہے۔ ’’یہاں چند ولال کی پیاری بیوی ایما دفن ہے جو 21دسمبر 1910ء کو ہمیشہ کے لئے نیند میں چلی گئی۔

’’یہاں جان بر جرلی بیرسٹر ایٹ لاء کی بیوی میری دفن ہے جو لاہور میں بتاریخ 12اگست 1890ء میں اسے چھوڑ کر چلی گئی‘‘ ’’پیاری میگی کی یاد میں جارج اور اینی سلوسٹر کی اکلوتی بیٹی جو 15برس کی عمر میں 28اپریل 1889ء میں ہم سے بچھڑ گئی اور وہ ہماری پیاری محبت مری نہیں بلکہ اپنے ایسے سکول چلی گئی جہاں اسے ہماری حفاظت کی ضرورت نہیں۔

’’ہنری ولیم کائولے اور میری ولیم کائولے کا بیٹا صرف 24سال کی عمر میں چلا گیا۔14جولائی 1882ئ‘‘ بیشتر قبروں پر خوبصورت نظمیں اور ادبی کتابوں کے حوالے کھدے ہوئے ہیں جنہیں تفصیل سے درج کرنا اس کالم میں ممکن نہیں۔ ’’ڈی آر سی میکارتھی۔ ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس این ڈبلیو پی‘‘ ’’ڈونلڈ روبرٹ میکڈونلڈ جو یہ زندگی چھوڑ کر20نومبر 1873ء میں منتقل ہو گیا‘‘ اس ابھی تک عمدہ حالت میں محفوظ قبر اور کتبے پر نہائت شاندار نقش اور صلیب ابھرے ہوئے ہیں۔

اس قبرستان میں سب سے منفرد اور عجیب شکل کی ایک قبر ہے۔ ایک دانے دار سرخ جدید شکل کا انوکھا سا ڈھیر ہے جس کے اندر لکھا ہے’’ایما رابنسن‘ پیدائش 5مارچ 1872ء وفات 8اگست 1874ء ‘‘ یہ دو برس کی بچی کی قبر ہے جس کا ڈیزائن بہت عجیب ہے۔ ’’جان مڈلٹن۔ لوکو فورمین لاہور 5اکتوبر 1892ء ۔ اس نے ہم سے پوچھا بھی نہیں اور رخصت ہو گیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ ہم بہت روئیں گے۔

اب تمارے دکھوں کا موسم سرما بیت گیا۔ تمہارے رنج کا طوفان تھم گیا۔ ’’میری پیاری بیوی کلدرا کی یاد میں 1899ء از طرف سارجنٹ نیری بوئر…گورنمنٹ ٹیلی گراف ڈیپارٹمنٹ ۔لاہور۔’’چارلز جارج رگل انسپکٹر نارتھ ویسٹرن ریلوے 6نومبر 1902ء لاہور۔ ’’جینی۔ سرجن میجر الیگزنڈر نیل کی بیوی 5جنوری 1875ئکو 26برس کی عمر میں فوت ہوئی اور ہنری نواڈ ان کا چھوٹا بچہ عمر صرف تین مہینے یہاں دفن ہیں۔

’’اگنیس ریٹ اے کِی۔ پیدائش 1837ء وفات 8جولائی 1905ء پرنسپل کرسچن گرل ہائی سکول لاہور۔ ’’ماریار میجر ہاورڈ ویک فیلڈ آف بنگال آرمی کی اہلیہ۔ اگست 1852ء ایک چھوٹی نانک شاہی اینٹوں سے تعمیر کردہ مسمار ہو چکی قبر کا کتبہ ابھی قائم ہے اور ٹھیک طرح سے پڑھا نہیں جاتا۔ رچرڈ پیس‘ پنجاب ریلوے۔ وفات ؟تاریخ وفات پڑھی نہیں جا رہی ہے لیکن یہ بھی اٹھارہویں صدی کے اوائل کی لگتی ہے یعنی اس قبرستان کی شائد پہلی قبروں میں سے ایک۔

اسی نوعیت کی بہت سی قبریں بیشتر اچھی حالت میں موجود ہیں اور ان میں سے کئی 1857ء کی جنگ آزادی سے بھی قبل کی ہیں۔ پورے قدیمی حصے میں ایک قبر ایسی تھی جسے دیکھ کر میں تشکر سے بھر گیا اور سفید سنگ مرمر کی بہت اچھی حالت میں یہ قبر ایک قومی سرمایہ ہے۔ ’’دے ریورنڈ سی ڈبلیو فورمین۔ پیدائش 3مارچ 1821ء یو ایس اے۔25اگست 1894ء کو ہمیشہ کی زندگی میں داخل ہو گئے۔

امریکی پرسبٹرئین مشنری جو بانی تھے رنگ محل مشن سکول اور فورمین کرسچن کالج لاہور کے۔ انہوں نے لاہور میں چھیالیس برس تعلیم کے شعبے میں خدمت کی۔(1848-1894ئ) میں نے خود اس عظیم شخص کے قائم کردہ رنگ محل مشن سکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور وہ ان زمانوں میں لاہور کا بہترین سکول ہوا کرتا تھا۔

میرے دونوں بچوں نے ایف سی کالج یعنی فورمین کرسچن کالج سے ایف ایس سی کا امتحان امتیازی نمبروں میں پاس کیا۔ شکریہ مسٹر بلکہ ریورنڈ فورمین۔ مجھے افسوس ہوا کہ میں اپنے ساتھ پھول نہ لایا تھا ورنہ ان کی قبر پر چڑھا دیتا اور مجھے مزید افسوس ہوا کہ آج کرسمس کے موقع پر بھی ان کی قبر ویران پڑی تھی۔

وہاں کوئی گلدستہ کوئی ہار نہ پڑا تھا۔ لیکن یہ شخص لاہور کو تعلیم کا ایک گلستان عطا کر گیا جس کی مہک سے یہ شہر خوشبو دار ہوا جاتا ہے۔ اسے کسی پھول کی حاجت ہی نہ تھی۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مستنصر حسین تارڑ

بشکریہ: روزنامہ 92 نیوز

mustansar-hussain-tarar has 181 posts and counting.See all posts by mustansar-hussain-tarar