جب بھارتی وزیر دفاع جارج فرنانڈس نے انٹیلی جنس رپورٹ صحافی کو تھما دی


 

جارج فرنانڈس کی سرکاری رہائش گاہ گیٹ کے بغیر تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ ان کی بنگلہ کے مقابل نرسمہا رائو حکومت میں وزیر داخلہ ایس بی چوان کی کوٹھی تھی۔ جب بھی وہ باہر نکلتے تھے تو پولیس راھگیروں کو کھدیڑ کر گلی کوچوں میں گھسنے پر مجبور کرتی تھی اور بقیہ تمام مکانوں کے گیٹ بند کرواتی تھی۔

جس سے خفا ہو کر انہوں نے اپنے بنگلہ کا گیٹ ہی اکھاڑ کر پھینک دیا۔ کچن میں چائے وغیرہ بنانے سے لیکر وہ اپنے کپڑے خود دھوتے تھے۔ تبت کے پناہ گزینوں سے لیکر، برما کے جمہوریت نواز طلبہ اور ایرانی حکومت کے عتاب سے فرار ایرانی سیاسی کارکن ان کے مکان کے باہری حصہ میں مستقل رہائش پذیر تھے۔

پچھواڑے میں جہاں دیگر بنگلوں میں خوبصورت لان بنے تھے، انہوں نے اسکو ایک میدان بنایا ہوا تھا، جہاں آس پاس کی کچی بستیوں کے بچے کرکٹ یا فٹ بال کھیلتے ہوئے نظر آتے تھے۔ دوپہر بعد جارج خود بھی ہاتھ میں چائے کی پیالی لئے برآمدہ میں کرسی بچھا کر انکے میچ دیکھتے تھے۔ ایک بار پارلیمنٹ کے پورچ میں وہ کھڑے اپنی گاڑی کا انتظار کررہے تھے، میں اور ہندی کے ایک صحافی پاس کھڑے تھے۔

کئی بار اعلان کے باوجود ، جب انکا ڈرائیور گاڑی لیکر نہیں آیا، تو انہوں نے ہمیں ساتھ پیدل چلنے اور اپنے گھر پر کافی پینے کی دعوت دی۔ واک کرتے ہوئے وہ سیاست کے کئی دریچے کھول رہے تھے اور ہم ہمہ تن گوش تھے۔ اس وقت شاید عراق پر امریکی چڑھائی شروع ہوچکی تھی وہ اسکے مضمرات پر بھی روشنی ڈال رہے تھے۔

تقریباً ایک چوتھائی کلومیٹر طے کرنے کے بعد سڑک کی دوسری طرف سے ایک سپاہی تیزی کے ساتھ بندوق تانے وارد ہوگیا اورپھٹکار لگائی کہ وزیر اعظم کا روٹ لگا ہو اہے۔ وہ شاید ہمیں آواز بھی دے رہا تھا۔ مگر چونکہ ہم جارج کی باتیں سننے میں اس قدر مگن تھے اور شاید اس زعم میں بھی کہ ملک کا وزیر دفاع ہم رکاب ہے، ہم نے اس کی آواز ہی نہیں سنی تھی۔

سپاہی نے ڈانٹتے ہوئے کہا کہ وہ ہمیں شوٹ بھی کرسکتا تھا ۔ اس سے پہلے کہ وہ یہ سنتا کہ پیدل چلنے والا کوئی عام رہگیر نہیں بلکہ ملک کا وزیر دفاع ہے، اسنے جارج سمیت ہمیںایک گلی میں کھدیڑ دیا۔ وزیر اعظم واجپائی کے قافلہ کو دور گلی میں چھپ کر گذرتے ہوئے دیکھ کر جارج نے مسکراتے ہوئے بس اتنا کہا کہ’’ پولیس شاید ہی کبھی سدھرے اور وی وی آئی پی کلچر شاید ہی اس ملک سے کبھی ختم ہو پائے۔‘‘

اس قافلہ کے گذرنے کے بعد راہگیروں کیلئے جب راستہ کھول دیا گیا ،تو پولیس والے نے ہدایت دی کہ آئندہ خیال رہے، ورنہ کوئی دوسرا سیکورٹی والا وارننگ دینے کے بجائے براہ راست شوٹ کریگا۔

واجپائی حکومت میں فرنینڈس جب وزیر بنے، تو ان کے ساتھ رابط تقریباً ختم ہوگیا تھا۔ 2002ئمیں جب میں تہاڑ جیل میں قید تھا، اور رہائی کی سبھی امیدیں دم توڑ رہی تھیں، تو ایک بار جیل میں ملاقات کے دوران میں نے اپنی اہلیہ آنسہ کو جارج کی دست راست جیاء جیٹلی سے ملنے کا مشورہ دیا۔

چونکہ مجھے سرکاری رازدار ی قانون کی سنگین دفعات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا اور وزارت دفاع کے ماتحت ملٹری اینٹلی جنس کو گواہ کے طور پرچارج شیٹ میں درج کیا گیا تھا، اسلئے خیال آیا کہ شاید جارج کو کیس کی اصل تفصیلات سے آگاہ کرواکر کچھ رعایت مل سکے ۔

گو کہ میڈیا کے ذریعے جیا ء کو میرے کیس کے متعلق سن گن تھی، مگر تفصیلات نے اسکو چکرا دیا۔ جارج فرنینڈس کو بریف کرنے کے بعد وہ کئی بار میری اہلیہ کی ہمت بندھانے کیلئے میرے گھرپر بھی آئی۔ ایک سنگین الزام میں بند کسی شخص کی فیملی سے کسی وزیر دفاع کاملنے پر آمادہ ہونا ہی اس بات کی دلیل تھی کہ وہ حکومت اور سیاست میں کس قدر اثر و رسوخ رکھتے تھے۔

میرے کیس کی بنیاد ہی استغاثہ کے اس بیان پر ٹکی تھی کہ میرے کمپیوٹر سے برآمد ایک دستاویز کو ملٹری انٹلی جنس نے نہایت حساس اور ملک کی سیکورٹی کیلئے انتہائی خطرہ بتایا ہے۔ جب فرنینڈس نے ملٹری انٹلی جنس کے سربراہ کو طلب کیا تو معلوم ہوا کہ جب انکو پولیس اور وزارت داخلہ نے ڈاکومینٹ بھیجا تھا تو انہوں نے رپورٹ دی تھی کہ کہ دستاویز کسی دفاعی اہمیت کی حامل نہیں ہے اور یہ کسی تحقیقی پیپر کا حصہ ہے، جو اس کے ساتھ انٹرنیٹ پر دستیاب ہے۔

مگر وزارت داخلہ نے انتہائی بدمعاشی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے کورٹ میں ملٹری انٹلی جنس کے نام سے کوئی اور ہی رپورٹ دائر کی تھی۔ شاید انہیں یقین تھا کہ ہم کبھی بھی اصل رپورٹ تک نہیں پہنچ پائیں گے۔ ہماری درخواستوں کے باوجود استغاثہ اصل رپورٹ کورٹ میں پیش نہیں کر رہا تھا اور مصر تھا کہ جو رپورٹ دائر کی گئی ہے، وہی حرف بہ حرف صحیح ہے۔

جس دن کورٹ میں میرے چارج شیٹ پر بحث ہو رہی تھی اور جج موصوفہ تقریباً مجھے چارج کرنے جا رہی تھی، کہ جارج نے ایک صحافی دوست اوما کانت لکھیرا ، جو ایک معروف ہندی روزنامے کیلئے وزارت دفاع کور کرتے تھے، کو ملٹری انٹیلی جنس کی اصل رپورٹ کی کاپی تھما دی۔

اوما کانت نے کورٹ پہنچ کر میرے وکیل کو کاپی دے دی، جس نے اسکو فوراً ہی عدالت میں پیش کیا۔ کیس کا پانسہ پلٹ گیا۔ جج موصوفہ جو چارج لگانے پر تلی تھیں ،نے پہلے اسکی اصلیت پر سوال کھڑے کئے، مگر اسکی جانچ کیلئے اسکے پاس کوئی چارہ نہیں بچا تھاکہ وہ وزارت داخلہ، پولیس اور ملٹری انٹیلی جنس کے سربراہ کو کورٹ میں طلب کرے۔

چند روز بعد سربراہ نے کورٹ میں آکر ہماری دائر کردہ رپورٹ کی تصدیق کی، تو وزارت داخلہ کے ارباب حل و عقد بوکھلا گئے اور کورٹ میں کیس واپس لینے کی عرضی دائر کرنے پر مجبور ہوئے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ملٹری انٹلیجنس کی اصل رپورٹ پریس کے ہاتھ لگنے پر کابینہ میں خاصا ہنگامہ ہوگیا تھا۔ جس کا جارج نے نہ صرف بھر پور دفاع کیا، بلکہ استعفیٰ تک کی دھمکی دے ڈالی۔

بقول تاریخ دان رام چندر گوہا، فرنینڈس ایک منفرد سیاستدان تھے۔ ایک ایسا لیڈر جو شاید ہی دوبارہ پیدا ہو۔ آج کے بھارت میں شاید ہی کوئی تصور کرسکے کہ ایک کونکنی بولنے والا جنوب کا ایک عیسائی اس حد تک سیاست پر اثر انداز ہوسکے کہ وہ بمبئی میں طاقتور کانگریسی لیڈروں کا تختہ پلٹ دے اور پھر آٹھ بار مسلسل بہار جیسے صوبہ سے لوک سبھا کی نمائندگی کرے یا جس کا بغیر دروازہ والا گھر کسی کیلئے بھی ہمہ وقت کھلا ہو۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).