ریاست مدینہ میں انصاف سے محروم: سمیع الحق، طاہر داوڑ اور اب ساہیوال کے مقتول


اللہ رب العالمین نے اپنے بندوں خاص طور پر انصاف کی کرسی پہ بیٹھے منصف اور اقتدار اعلیٰ پر بیٹھے حاکم کو عدل و احسان اور انصاف و برابری کا حکم دیا ہے۔ نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ظلم، جہالت و نا انصافی سے کس قدر نفرت تھی اس کا اندازہ اس دعا سے لگایا جا سکتا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم صبح شام مانگا کرتے تھے کہ ”اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں کہ صحیح راہ سے بھٹکوں یا بھٹکا دیا جاؤں، یا پھسلوں یا پھسلا دیا جاؤں، یا کسی پر ظلم کروں یا ظلم کیا جاؤں“ نبی کریم صلعم کا ارشاد ہے کہ ”کسی سے دشمنی تمہیں اس پر مجبور نہ کرنے پائے کہ تم ان سے نا انصافی کرو، ہر صورت میں انصاف کرو کہ یہی تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔

یہ تمہید اس لئے باندھنی پڑی کہ ملک پاکستان پر اس وقت جو حکمران حاکم ہے وہ اپنے آپ کو مدینے کی ریاست کا حاکم تصور کرکے مدینے کی ریاست قائم کرنے کا خواہاں ہے۔ اللہ رب العالمین ان کی اس خواہش کو پورا کرے مگر مدینے کی ریاست قائم کرنے کی خواہش رکھنے والے حاکم کے کسی قول و فعل سے اب تک ایسا نہیں محسوس ہوا کہ وہ مدینے کی ریاست تو کیا ملک میں صرف عدل و انصاف کا ہی نظام رائج کرنے کا خواہش مند ہو۔ خان صاحب کے اقتدار میں آنے کے بعد پانچ ماہ کے دوران کچھ بڑے واقعات رونما ہوئے ان میں سب سے پہلے مولانا سمیع الحق کا قتل، پھر پشاور کے انتہائی اہم ایس پی طاہر داوڑ کے اسلام آباد سے اغوا اور پھر افغانستان میں ان کا وحشیانہ قتل اور اب کچھ دن پہلے ساہیوال میں قانون نافذ کرنے والے ریاستی اداروں کی درندگی اور بربریت کی بھینٹ چڑھے چار معصوم و بے گناہ لوگ۔

ان واقعات میں قدر مشترک یہ ہے کہ یہ تینوں خونی واقعات کے متاثرین اب تک انصاف سے محروم ہیں اور ریاست مدینہ کے خلیفہ سے لے کر عام ریاستی کارندوں کے دعوؤں کے مطابق ان سے انصاف اور اپنے قاتلوں کے نام مانگ رہے ہیں۔ مولانا سمیع الحق کے قتل کے بعد ریاست مدینہ کے ردالی حرکت میں آ گئے اور مولانا کو انصاف دلانے کے لئے بڑے زور شور سے بیانات کی حد تک شروع ہو گئے، پھر ایک اور اہم واقعہ رونما ہوتا ہے پشاور کے اہم ترین ایس پی طاہر داوڑ کے اسلام آباد سے اغوا اور پھر افغانستان میں ان کے وحشیانہ قتل کا۔

نیازی کابینہ کے وزراء مشیران و معاونین خصوصی اور ریاست کی رعایا کے جان و مال کے محافظ ادارے افغانستان میں ان کے وحشیانہ قتل تک خواب خرگوش کے مزے لوٹتے رہے اور پھر جب طاہر داوڑ کی تشدد زدہ سوختہ لاش افغانستان میں ظاہر ہوئی تو ساری کی ساری ریاست مدینہ کے ستون ایک دم زمین پر آگرے۔ کسی کو پتہ نہیں چل سکا کہ لوگوں کی جان و مال کا ایک دلیر محافظ کس طرح ان کی ناک کے نیچے سے چند دہشت گرد اغوا کر کے دوسرے ملک لے گئے اور انہیں وہاں انسانیت سوز سلوک کا نشانہ بنا کر بربریت سے قتل کردیا گیا۔

پھر ساہیوال کا خونی سانحہ پیش آیا، پہلے ہی منٹ سے ریاست مدینہ کے کرتاؤں دھرتاؤں نے اس خونی واقعے کو مشکوک بناتے ہوئے ایک دل دوز، لرزہ خیز سانحے میں تبدیل کر دیا۔ مدینے کی ریاست کے معمار بغیر سوچے سمجھے، بغیر کسی قسم کی کوئی تصدیق کیے کہ اصل میں ہوا کیا ہے شروع گئے کہ جناب اس طرح بچے اغوا کر کے لے جائے جا رہے تھے تو ہماری جانباز سپاہ نے اپنی جانوں پہ کھیل کر تو بچوں کو بچا لیا اور اعصاب شکن باہمی جنگ کے بعد چار اغوا کار مار گرائے گئے۔

اس کے بعد اس بیان میں بار بار، کئی بار تبدیلی لائی گئی بے حسی، بے دردی اور منافقت کی وہ وہ حدیں پار کی گئیں جو آج تک شاید ہی کسی اسلامی فلاحی ریاست نے اس سے پہلے پار کی ہوں۔ اس سارے سانحے کا سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ تین معصوم و بے گناہ بچے ساری کارروائی اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتے رہے اور آف بھی نہ کر سکے۔ بڑی بے شرمی سے ان کے ساتھ ہمدردی کبھی انہیں پھول پیش کر کے کی جاتی رہی۔ کبھی ان کے لئے معاوضے کے اعلانات کیے جاتے رہے تو کبھی ان کی کفالت کے اعلانات کیے جاتے رہے۔ کبھی اس سانحے کے تمام کرداروں کو عبرت کا نشان بنانے کے دعوے ہوئے تو کبھی یہ کہا گیا کہ دہشت گرد کی موجودگی کی اطلاع تھی۔ غلطی سے تین لوگ مارے گئے مگر چوتھا دہشت گرد تھا۔ مطلب ریاست مدینہ کے ماڈل کے دعویداروں نے ان دس بارہ دنوں میں اپنی حرکات اور اپنے اب تک کے لئے گئے اقدامات سے انسانیت کو ہی شرمسار کر دیا ہے۔

ریاست مدینہ کے خلیفہ جن کو کبھی یہ دکھ ستاتا تھا کہ ان کی سلطنت میں اگر کتے کو کچھ ہوتا ہے تو وہاں کی حکومت ہی ہل جاتی ہے۔ اس ملک کا حاکم خود کو اس کتے کا قاتل سمجھتا ہے۔ مگر آج جب مولانا سمیع الحق، طاہر داوڑ اور ساہیوال کے سانحات میں اپنی قیمتی جانیں گنوانے والوں کے لواحقین کرب و تکلیف میں مبتلا ہیں ابھی تک اپنے پیاروں کے بچھڑنے کے سوگ میں ڈوبے ہوئے ہیں تو ہمارے ریاست مدینہ کے خلیفہ کو ابھی تک فرصت ہی نہیں ملی کہ کسی ایک کے لواحقین سے تعزیت ہی کر لیتے۔

جو بے گناہ لوگ مارے گئے وہ اسی ریاست کے باشندے تھے اور اپنے اس وزیراعظم کی توجہ کے انتظار میں جو انگریزی کتے کے مرنے پر لئے جانے والے نوٹس کی تو مثال دیتے ہیں مگر اپنے ملک کے زندہ جیتے جاگتے انسانوں کے وحشیانہ قتل پر ان کو انصاف دینے سے ابھی تک گریزاں ہیں۔ ابھی تک شہداء کے لواحقین اپنی ریاست کے خدا ترس، اور غریب پرور وزیراعظم کے دعوؤں کے شرمندہ تعبیر ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ پاکستان کی عوام نے محترم عمران خان صاحب کو ووٹ دے کر اس لئے ایوان میں بھیجا تھا کہ شاید وہ معاشرے میں چاروں اور پھیلے ظلم و ستم نا انصافی سے انہیں نجات دلائے گا۔

وہ حقیقت میں خان صاحب کو اپنا نجات دہندہ سمجھ کر ان کے اقتدار میں آنے پر خوشیاں مناتے رہے مگر کسے پتا تھا کہ اپنے مخالفین کے خلاف کرپشن اور عوام کے ساتھ روا رکھے جانے والی ناانصافیوں پر تحریک چلانے والا ان کا مسیحا بے حسی و بے دردی میں اپنے پیش روؤں کو بھی مات دے دے گا۔ ان تینوں واقعات کی تحقیقات کے حوالے سے اب تک تو نظر یہی آ رہا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت سوائے دعوؤں اور اپنے مخالفین کے خلاف اخلاق باختہ زبان استعمال کرنے کے کچھ کرنے کے موڈ میں نہیں ہے۔

پولیس، سی ٹی ڈی اور قانون نافذ کرنے والی وہ ایجنسی جس کی خفیہ رپورٹ کی بنیاد پر یہ کارروائی عمل میں لائی گئی ان کے خلاف صرف لفاظی کی حد تک تو بہت کچھ کیا جا چکا ہے مگر حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ تینوں واقعات میں جن قوتوں کے ملوث ہونے کی طرف انگلیاں کھڑی ہوتی رہی ہیں اس سے تو لگتا یہی ہے کہ انصاف صرف خواہشات کی حد تک ہی رہ جائے گا۔ آج تحریک انصاف کی حکومت جو عوام کو کرپشن سے پاک، قانون کی حکمرانی اور بلا امتیاز انصاف کی فراہمی والا پاکستان دینے کے دعوے کر کے اقتدار میں آئی تھی، محض چھ ماہ میں وہ تمام کے تمام دعوے وعدے زمین بوس ہوتے نظر آ رہے ہیں۔

ساہیوال سانحے کے لواحقین سمیت مولانا سمیع الحق، ایس پی طاہر داوڑ کے لواحقین بھی ریاست مدینہ قائم کرنے کے خواہشمند وزیراعظم سے انصاف کے طلبگار ہیں جو اب تک ملتا نظر نہیں آرہا اور اگر خدا نخواستہ ان میں سے کسی ایک کو بھی مستقبل قریب میں انصاف نہ مل سکا تو شاید پاکستان کی عوام کا سیاسی جماعتوں اور سیاسی سسٹم سے ہی نہ اعتبار اٹھ جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).