اے پتر ہٹاں تے نہیں وکدے


نورجہاں کا گایا ہوا گانا اور وہ ماحول ایسا تھا کہ آج تک اس گانے کی گونج سنائی دیتی ہے۔ لیکن ہم کتنے بدل گئے ہیں زمانہ بدل گیا ہے ہماری سوچ بدل لیکن پھر بھی اپنی مٹی کی تاثیر کہ ہم جتنے مرضی سونے کی زنجیروں میں جکڑے ہوں پھر بھی اسی ماحول میں جینا چاہتے ہیں۔ اتنا عرصہ پردیس کی خاک چھانی لیکن پھر بھی اس زمانے کا ایک ایک لمحہ فخر یہ سا لگتا ہے۔ ذیشان بمشکل تئیس سال کا خوبصورت سا سٹوڈینٹ اور کسی ماں کا لاڈوں سے پالا بیٹا خوبصورت مستقبل کی دوڑ میں سٹوڈینٹ کے ویزے پہ یورپ آ گیا۔ اتفاق سے اسی دوران ہمارا دانہ پانی بھی انگریز کے کٹو رے میں لکھ دیا گیا وہ ہمارے ہی علاقے کے تھے جب ان کی امی کو پتا چلا کہ ہم اسی ملک جا رہے ہیں جہاں کچھ مہینے پہلے انھوں نے اپنا بیٹا بھیجا تھا تو وہ مجھے ملنے چلی آئیں اور بہت سارے تحفے میرے لئے اور اپنے بیٹے کے لئے مجھے دیتے ہوئے روتی آنکھوں سے کہنے لگیں، بیٹا اگر ذیشان سامان لینے آیا تو آپ اس کو دال کا سالن بنا دینا۔ دال اس کو بہت پسند تھی۔ لیکن بتا رہا تھا، ماں خود دال بناتا ہوں، یہاں نزدیک کوئی حلال ہوٹل نہیں ہے۔

خیر اس وقت تو وٹس اپ بھی نہیں ہوتے تھے جو گھڑی گھڑی رابطہ ہو۔ ان کو میں نے تسلی دی کہ میرا بھائی ہے مجھ سے جو ہوسکا اس کی خدمت کروں گی۔ یہ تو وہاں آکے پتا چلا کہ ذیشان تو اسلام آباد رہتا تھا اور ہم لاہور آئے تھے خیر وہ ملنے آیا باجی، باجی تو کہتا لیکن نہایت شرمیلا سا سر جھکائے خاموش اور کچھ پردیس میں گھر کی جدائی کبھی نہ کبھی فون پہ کوئی کھا نے کی ریسیپی پوچھ لیتا ورنہ بس وہ اپنی محنت میں لگا رہتا کہ میرے ماں باپ نے مجھے نجانے کتنی مشکلوں سے یہاں بھیجا ہے تو مجھے پیسا کمانا ہے اور کچھ نہیں یہاں اکثر ممالک میں سٹوذینٹس کو بہت مشکل پیش آتی ہے پرماننٹ سیٹل منٹ کے لئے اوپر سے کالج کی فیس بھی کما کے دینی پڑتی ہے اور اگر پرماننٹ سیٹلمنٹ نہ ہو تو آپ فل ٹائم ملازمت نہیں کر سکتے۔

خیر کچھ عرصے کے بعد ذیشان کی امی کا مجھے فون آیا کہ بیٹا ذیشان کے لئے آپ وہاں کوئی رشتہ دیکھیں۔ جیسا بھی رشتہ ہو بس پیپرز بن جائیں۔ ہم تو وہاں آ نہیں سکتے۔ ہم تھے گاؤں کی دیسی مٹی کے تو میں نے الٹا ان کو تبلیغ شروع کر دی کہ آنٹی یہاں اور ماحول ہے۔ آپ لوگوں کے ساتھ یہ بہو نہیں ایڈجسٹ ہو پائے گی وغیرہ وغیرہ۔ خیر ایک دو بار انھوں نے جب محسوس کیا کہ یہ کام اس کے بس کا نہیں تو مجھے کہنا چھوڑ دیا اس کے بعد ہم بھی اپنے کاموں میں مصروف ہوگئے یہاں پیپرز مکمل کرنا اتنے ہی ضروری سمجھے جاتے ہیں جتنا مرنے کے بعد جنازہ۔ خیر کافی عرصہ گزر گیا۔ ہم نے وہ ملک ہی چھوڑ دیا زندگی مصروف ہوگئی رابطہ بھی کم ہوتے ہوتے ختم ہوگیا کل اچانک ہی شاپنگ مال میں مجھے ایک جانی پہچانی آواز نے چونکا دیا باجی۔

میں نے مڑ کے دیکھا تو ذیشان ایک پچپن سالہ خاتون کے ساتھ ہاتھ میں سامان اٹھائے بولا باجی میں نے شادی کر لی ہے اور مجھے پرماننٹ ریزی ڈنسی مل گئی ہے یہ میری بیوی ہیں۔ مجھے تو جیسے ہارٹ اٹیک آتے آتے رہ گیا ایک تو وہ خاتون اس کی ماں لگ رہی تھی دوسرا وہ اس کے ساتھ ایسا برتاؤ کر رہی تھی جیسے پاکستانی ملازموں کے ساتھ کرتے ہیں جبکہ وہ بھی پاکستانی تھیں۔ خیر میں نے خود کو سنبھالا اور پوچھا تو کہنے لگا باجی یہ دو بار طلاق یافتہ ہیں تو میں نے اب ان سے شادی کی ہے یہ سوچ کر میں حیران رہ گئی کہ کیا اگر یہ عورت یورپ کی نیشنل نہ ہوتی اور ذیشان کی کوئی کزن ہوتی تو کیا پھر بھی وہ شادی کرتا یا آنٹی اس کو اجازت دیتیں۔ پاکستان میں تو چند سال عمر زیادہ ہو یا رنگ سانولا اہو تو ہم سو سو نخرے دکھاتے ہیں۔ تو کیا واقعی اب ہم پتر ہٹاں تے بیچ رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).