عمران خان کا وسیم اکرم اور گوئبلز


کوئی دو عشرے پہلے جب عمران خان نے تحریک انصاف کی داغ بیل ڈالی تھی، اس وقت سے عمران خان کو سپورٹ کیا۔ 2011 کے بعد دلوں میں موجود نرم گوشہ باقاعدہ حمایت میں بدل گیا۔ 2013 اور 2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کو ووٹ بھی ڈالا۔ اب ایک ووٹر اور سپورٹر کی حیثیت سے غلطیوں کی نشاندہی اور ہر اس کام پر تنقید کرتے ہیں، جس کو غلط سمجھتے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے کے بعد جس چیز نے سب سے زیادہ مایوس کیا وہ حکومت کی میڈیا ہینڈلنگ ہے۔

پتہ نہیں کون سے بزرجمہر ہیں جنہیں لگتا ہے کہ قوم صرف ان کی ہی بات سنتی ہے اور اس کے علاوہ کوئی اور ذریعہ نہیں۔ سو غلط بیانیوں پر غلط بیانیوں کی گردان ہمہ وقت جاری رہتی ہے اور احباب کے لئے تفنن طبع کا بھی اہتمام رہتا ہے۔ مثلاً امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کال اور امریکی وزیر خارجہ کی ملاقات کے بعد متضاد پریس ریلیز، جس پر آج تک نہ کوئی تحقیق ہوئی نہ کسی نے تردید کی زحمت محسوس کی۔ فرانسیسی صدر اولاند نے کال کیا تو ہم نے تواتر سے یہ کہا کہ وزیر اعظم صاحب مصروف تھے اس لئے فرانسیسی صدر کو آدھا گھنٹا بعد کال کرنے کا کہا گیا۔

ایسی توجیہہ کوئی ایسا شخص ہی دے سکتا ہے جسے خارجہ امور کی شد بد ہی نہ ہو۔ فرانسیسی سفارتخانے کی تردید کے بعد کسی نے اس پر ذرا سی شرمندگی بھی محسوس نہیں کی۔ ملائشیا کے دورے کا آغاز بھی ایسے ہی بھنڈ سے ہوا تھا کہ مہاتیر محمد نے دورے کی دعوت دی ہے جبکہ ملائشین وزارت خارجہ نے واضح طور پر کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے دورے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ دروغ گوئی کرتے ہوئے پیرومرشد گوئبلز کے اس قول کو مشعلِ راہ سمجھا جاتا ہے کہ جھوٹ اتنا بولو کہ سچ کا گمان ہونے لگے۔ کسی بھی ملک کی اعلیٰ ترین سطح پر ایسی ناپختگی کا مظاہرہ شاذ ہی دیکھنے میں آیا ہو گا۔

پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لئے ہما جب عثمان بزدار کے سر پر بیٹھا تو خان صاحب نے تواتر سے یہ کہا کہ عثمان بزدار وسیم اکرم ثابت ہوں گے۔ ہر بار بزدار صاحب کا دفاع کرتے ہوئے وسیم اکرم کا حوالہ دیا۔ آج کل سوشل میڈیا پر میمز (Memes) کا دور ہے تو یار لوگوں نے مزے مزے کے میمز تخلیق کیے۔ ناچیز کو یہی حسنِ ظن رہا کہ خان صاحب کا حوالہ وسیم اکرم کی صلاحیتوں کو نکھارنے کی جانب ہے۔ آج ایک ویڈیو نظر سے گزری جس میں خان صاحب بڑی صراحت سے انضمام الحق، وسیم اکرم اور وقار یونس کو دریافت کرنے کا ماجرا سنا رہے ہیں۔

انضمام اور وقار یونس کی دریافت کے حوالے سے کوئی متضاد رائے سننے میں نہیں آئی اور ان دو کھلاڑیوں کا ڈیبیو بھی عمران خان کی کپتانی میں ہوا۔ تاہم وسیم اکرم کے حوالے سے خان صاحب کا بیان ہضم نہیں ہوا۔ لاہور کی کرکٹ کو جاننے والے جانتے ہیں کہ وسیم اکرم لیجنڈری کرکٹر خان محمد کی دریافت تھے اور اس زمانے میں لدھیانہ جمخانہ کی طرف سے کھیلتے تھے۔ جس سیریز میں وسیم اکرم کو پہلی دفعہ سیلیکٹ کیا گیا، اس سیریز میں عمران خان روایتی ناراضگی کے سبب ٹیم کا حصہ نہیں تھے۔

وسیم اکرم نیٹ بولر کے طور پر آئے اور خان محمد نے میانداد کی توجہ نوجوان کھبے کی طرف مبذول کروائی، اس زمانے میں وسیم اکرم کلب کرکٹ میں اسی نام سے معروف تھے۔ میانداد نے نیوزی لینڈ کے خلاف ہوم سیریز میں اس شرط پر کپتانی کرنے کی ہامی بھری تھی کہ نیوزی لینڈ کے خلاف جوابی دورے میں بھی وہی کپتان ہوں گے۔ چنانچہ عمران خان ان دونوں سیریز سے باہر تھے۔ عمران خان اور جاوید میانداد کی چپقلش کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔

اس ہوم سیریز میں وسیم اکرم کو سائیڈ میچ میں موقع ملا جہاں انہوں نے سات وکٹیں لیں، تاہم کسی ٹیسٹ میں موقع نہیں ملا سکا۔ البتہ ون ڈے سیریز میں ان کا ڈیبیو ہوا جہاں ظہیر عباس کپتان تھے۔ دو ماہ بعد نیوزی لینڈ کے جوابی دورے میں جو جنوری 1985 میں ہوا، وسیم اکرم کا ٹیسٹ ڈیبیو ہوا۔ اس دورے میں جاوید میانداد کپتان تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ وسیم اکرم سے عمران خان کی پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب وسیم دو ٹور کھیل چکے تھے۔

وسیم اکرم کی بالنگ اور کپتانی پر عمران خان کی چھاپ نمایاں ہے۔ اس دور کے سبھی کرکٹرز آج بھی کپتان کی ڈانٹ ڈپٹ، گیم پلان اور حکمت عملیوں کا ذکر کرتے ہیں۔ لیکن تواتر سے یہ کہنا کہ وسیم اکرم کو عمران خان نے دریافت کیا، سراسر جھوٹ اور ریکارڈ کے خلاف ہے۔ تاہم اس جھوٹ کو بھی اتنے تواتر سے بولا جا رہا ہے کہ قوم کو یہی یاد رہ جائے گا۔ جیسے بارہا کہا گیا کہ شریف خاندان نے تین سو ارب روپے کی کرپشن کی ہے، 200 ارب ڈالر عمران خان کے وزیر اعظم بنتے ہی بیرونی ممالک سے آ جائیں گے، شہباز شریف نے 100 ارب کے اشتہارات جاری کیے، میٹرو بس 100 ارب روپے کی لاگت سے بنی وغیرہ وغیرہ۔

مذکورہ بالا باتوں کی تردید پی ٹی آئی کے ترجمان خود کر چکے ہیں۔ تو ناچیز کو یہ خوش فہمی ہے کہ شاید کسی روز خان صاحب وسیم اکرم کو دریافت کرنے کے ماجرے پر رجوع کر لیں گے۔ جیسے بزدار صاحب کے انتخاب پر جلد یا بدیر کرنا پڑے گا۔ خان صاحب نے بہت سے کرکٹر دریافت کیے ہوں گے لیکن کسی کرکٹر کا اتنا دفاع نہیں کیا جتنا منصور اختر کا کیا کرتے تھے۔ منصور اختر کس معیار کے کھلاڑی تھے وہ ریکارڈ بکس میں دیکھا جا سکتا ہے۔ قطع نظر اس کے کہ خان صاحب اس بیان سے رجوع کر کے ریکارڈ کی درستی کریں یا نہ کریں اور ہماری معصوم قوم اسی کو سچ مانے رکھے، زیادہ اہم یہ ہوگاکہ آخری تجزیے میں عثمان بزدار وسیم اکرم بن پائیں گے یا ایک اور منصور اختر!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).