کچھ بات بلتستان یونیورسٹی کی


مختصرت سی مُدت!

طویل المعیاد حکمت عملی!

زینہ بہ زینہ ترقی کی جانب گامزن!

نئی نسل کی بے باک و بے مثال ترجمان!

گلگت بلتستان کی آن، شان اور نرالی پہچان!

یونیورسٹی آف بلتستان، یونیورسٹی آف بلتستان!

(ڈاکٹر ریاض رضیؔ)

ہمارے ایک دوست نے کہا کہ اِدھر دیکھو بلتستان یونیورسٹی اُدھر دیکھو بلتستان یونیورسٹی، سوشلستان دیکھو بلتستان یونیورسٹی۔ آخر کسی اور یونیورسٹی کا چرچا اِس قدر کیوں نہیں جس قسم کی تشہیر آپ لوگ بلتستان یونیورسٹی کی کر رہے ہیں۔ پھر خود ہی حیرت و استعجاب میں کہنے لگے کہ جس قسم کی تیز رفتاری سے بلتستان یونیورسٹی آگے بڑھ رہی ہے مجھے یقین ہے کہ بہت جلد اِس کا شُمار ملک کی بہترین جامعات میں ہونے لگے گا۔ وجہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے موصوف نے کہا کہ بلتستان یونیورسٹی کی فعال قیادت یعنی کہ شیخُ الجامعہ جس برق رفتاری کے ساتھ اپنا کام آگے بڑھارہے ہیں اُس کے دور رس نتائج یقیناً مستقبلِ قریب میں ظاہر ہوں گے لیکن سرِ دست اس کے اثرات بلتستان یونیورسٹی کی ملک گیر شناخت اور لوگوں کا اس کی طرف رُجحان کی صورت میں ظاہر ہورہے ہیں۔ میں نے مکمل اتفاق کیا اور اپنی ”فلسفیانہ“ رائے جھٹ سے سامنے رکھ دی اور کہا کہ:

”بلتستان یونیورسٹی گلگت بلتستان کے لئے عظیم علمی تحفہ ہے۔ وہ جو قوم کہ جس کے پاس سرمایہ علم و افتخار کا ذریعہ صرف ایک ہی یونیورسٹی (جامعہ قراقرم) تھی اب بلتستان یونیورسٹی نے اُس کی اُمیدوں اور فخریہ سوچ کو مزید بڑھاوا دیا ہے۔ بطور جبیئن (گلگت بلتستانی) اور اُستاد میری ذمہ داری بنتی ہے کہ میں یونیورسٹی کو بلند سے بلند مقام تک لے جاؤں کہ جہاں سے ہماری قوم جہانِ عالم کی طرف تفخُرانہ نگاہ کرسکے۔ “

یہ حقیقت ہے کہ ابتدائی طور پر کوئی بھی ادارہ نتائج دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا۔ وقت اور حالات کا سامنا کرتے ہوئے اور ایک صبر آزما مُدت کے بعد وہ ادارہ اس لائق ہوتا ہے کہ لوگ اُس کے وقار، عزت اور بھروسے کے قائل ہونے لگتے ہیں اور وہ ادارہ مثال بن جاتا ہے۔ بلتستان یونیورسٹی بھی اِسی صورتحال سے گزر رہی ہے۔ قومی بھروسا کو عزمِ مصمم عطاء کرنے کا سوچا تو اس قدر کہ مُلکی علمی تاریخ میں مختصر عمارت کے ساتھ دیگر جامعات کا بھرپور مقابلہ کررہی ہے یہاں تک کہ قوم کے بھروسا کو حد درجہ اعتماد حاصل ہونے کا مقام آن پہنچا ہے۔

دیگر جامعات سے مسابقتی رویہ اختیار کرنے کی فکر اپنالی تو اس طرح کہ نہ صرف اندورن مُلک بلکہ بیرون دُنیا تک رسائی حاصل کرلی۔ شیخُ الجامعہ کا حالیہ دورہ اسپین اس مثال کی وضاحت کے لئے کافی ہے۔ بہت ہی کم وقت میں متعدد شعبہ جات میں اضافہ اور منظوری بھی اس بات کی علامت ہے کہ بلتستان یونیورسٹی کسی بھی پہلو سے تشنہ لب نہیں رہنا چاہتی۔ ہر ہر شعبہ علم کو عام کرنے کا تعمیری فیصلہ اس قدر جاندار اور حالاتِ حاضرہ سے مطابقت رکھتا ہے کہ اگلے وقتوں میں بلتستان یونیورسٹی کا تعلیمی و تحقیقی مقام دیگر خطوں کے لئے مثال بن جائے گا۔ یہ دعویٰ گمان سے بڑھ کر اور یقین سے آگے کی منزل ہے کہ جس کی نشاندہی میں نہیں کروں گا بلتستان یونیورسٹی کی کارکردگی خود کرے گی۔

متعدد شعبہ جات میں سے ایک شعبہ ”گلگت بلتستان اسٹیڈیز“ کے نام سے کھولنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ یقیناً گلگت بلتستان کی تاریخ کے بند قبوں کو کھولنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ مجھے پورا بھروسا ہے کہ شعبہ ہذا کے توسط سے گلگت بلتستان کی تاریخ کے کئی ایسے راز، گوشے اور پرتیں طشت از بام ہوں گی کہ جس کا تصور خوشگوار حیرت کا باعث بنے گا۔ ہماری تاریخ کا قدیمی گوشہ اس قدر اختلاف سے آلودہ ہے کہ کسی ایک موقف کی بھرپور تائید کرنا ایک محقق کے لئے ممکن نہیں رہتا۔

بلکہ وہ ذہنی طور پر مزید مخمصے کا شکار ہوجاتا ہے۔ یہی مثال لیجیے کہ ہمارا قدیمی تعلق اور پہچان کی صورت کیا ہو تو لکھنے والوں نے کبھی کہا کہ ہم دردستانی ہیں، کبھی کہا کہ ہم بالاورستانی ہیں، اور اب جدید دُنیا کے لئے ہم گلگت بلتستانی ہیں۔ شعبہ گلگت بلتستان اسٹیڈیز میں اس طرح کے اختلافی نظریات کا تجزیہ و تحلیل ہوگا، نئے نئے پہلو سے تحقیق ہوگی تاآنکہ کسی حتمی اور اجتماعی موقف کی نشاندہی نہ ہو۔ ایک تاریخی پہلو سے نشاندہی ہوتی ہے کہ داریل تانگیر میں حضرت عیسی علیہ السلام سے تین ہزار سال قبل باقاعدہ یونیورسٹی قائم کی گئی تھی اور دُنیا جہاں کے بُدھسٹ علم و فن سیکھنے کی غرض سے یہاں آتے تھے۔

یہ تاریخی گوشہ اگر حقیقت پر مبنی ہے تو یقین جانیں کہ ہمارا قومی رویہ قدیم تاریخ سے ہی تعلیم و تعلم کی طرف مُلتفت تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج گلگت بلتستان میں تعلیمی شعور اوج ثریا کو چُھو رہا ہے۔ تعلیم کی طرف رُجحان اور ترغیب کا یہ عمل تین ہزار سال قبلِ مسیح والے رویئے کا تسلسل ہے۔ علوم اسلامی کے شعبہ جات کی طرف دھیان بھی ضروری ہے۔ جدید دور میں جس قدر نیچرل سائنس کی تشہیر ہورہی ہے، اُس کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے بعینہ اسلام کی تعلیمات کی طرف مُلتفت رہنا بھی ضروری ہے۔ نوجوان نسل کی فکری آبیاری بھی دراصل وقت کی اہم ضرورت ہے۔ آج کی دُنیا میں مذہب سے دوری کا جو ماحول بن رہا ہے اُس کے سدّباب کے لئے ادیانِ عالم پر وسیع اور جامع تحقیق کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت مجھے یقین ہے کہ بلتستان یونیورسٹی پوری کرے گی۔

پی ایچ ڈی دانشوروں کی ایک معقول تعداد نے بلتستان یونیورسٹی کو علم و تحقیق کا گہوارہ بنادیا ہے۔ خاص طور پر نیچرل سائنس کے پی ایچ ڈی ڈاکٹرز کی موجودگی بلتستان یونیورسٹی کی کیفیت اور کمیت کو بدل کرکے رکھ دے گی۔ جبکہ سوشل سائنسز میں بھی ایک قابلِ اطمینان تعداد کی آمد متوقع ہے۔ لہٰذا بلتستان یونیورسٹی کی اس کثیرالجہت حیثیت کو دیکھتے ہوئے میں یہ پیشنگوئی کرنے لگا ہوں کہ:

نہ اُدھر کی نہ اِدھر کی۔ بس اِس پار صرف بلتستان یونیورسٹ کی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).