فلسفہ اور اچھوت


اردو میں لکھنا میٹرک کے بعد سے تقریبا بند ہے۔ ایک تو یہ ہے بہت مشکل اوپر سے ادب کے میدان کے سبھی بزرگ شایداپنی اپنی بیویوں سے کافی تنگ رہے ہوں گے جو غصہ اپنے پڑھنے والوں پر نکالتے رہے۔ ابھی آج ہی کی بات لیجیے، ایک عرصہ گزرجانے کے بعد ایک بار پھر سے خدا بخشے یوسفی صاحب کو پڑھنے کا دل کیا تو ”ماکولات اور معقولات“ سے آگے نہیں چل سکے۔ تلاش کرنے پر جو ہم کو ملا اس کے مطابق اول ذکرکا تعلق کھانے سے ہے اور بعد والے کا علوم فلسفہ سے۔ یقین جانیے لکھنا بھی فلسفہ پر ہی چاہ رہے تھے سو اسی بہانے ذکر خود ہی چھڑ گیا۔

فلسفہ کی حالت زار دیکھ کر یقین جانیے دل سے ایسی ٹھنڈی آہ نکلتی ہے کہ سربیا کی سردی بھی رشک کرے۔ یوں تو فلسفہ میرامضمون نہیں ہے مگر کیوں کہ بڑے بھائی صاحب کو کم عمری میں ہی فلسفہ کا کیڑا تنگ کرنے لگ پڑا تھا۔ سوعذاب ہمارے حصہ میں بھی آیا۔ کیوں کہ ملک خداداد میں فلسفی کی عزت کتے سے بھی کم ہے۔ اس لیے بھائی صاحب سے چالاک نکلے اور فلسفہ کی ہم زاد یعنی ریاضی سے دست وگریبان ہوگے، کہ کچھ توبا عزت مضمون ہے۔

خیر! بھائی صاحب کی وجہ سے چڑھتی جوانی میں ہی جامعہ پنجاب کے شعبہ فلسفہ میں آنا جانا شروع ہو گیا۔ آج آپ کا گزر جامعہ پنجاب سے ہو تو فیصل آڈیٹوریم کے پہلو میں 4 مرغیوں کے ڈربا نما کمروں پر مشتمل شعبہ فلسفہ کو نزدیک سے دیکھ لیجیے گا۔ تا کہ کل کو تاریخ نویسوں کے لیے شھادت موجود رہے آپ کی صورت میں۔

جیسا کہ اوپر عرض کیا کہ شعبہ فلسفہ میں آنا جانا بچپن سے ہی شروع ہو گیا تھا۔ اسی وجہ سے اساتذہ اکرام کی محفلوں میں اٹھنے بیٹھنے کا موقع بھی ملتا رہا۔ خاص طور پر شاہد گل صاحب کی محفل میں، جو غالباٰ آج کل شعبہ کے منتظم اعلی بھی ہیں۔ ان کی محفل میں بیٹھنے کا بھی اپنا ہی مزہ تھا۔ ایک تو فلسفہ کے استاد، اوپر سے نہایت شفیق اور اس پہ انتہائی پیاری آواز۔ ہیمنت کمار کا گانا ”نہ یہ چاند ہو گا نہ تارے رہیں گے“ پہلی باران کی آواز میں سنا اور آج تک سنتے چلے جا رہے ہیں۔

انہی کی بدولت ایم فل مکمل ہونے کے بعد ایک سمسٹر کے لیے ریاضی کا ایک ذیلی مضمون ڈسکریٹ میتھیمٹکس پڑھانے کا موقع شعبہ فلسفہ میں ملا۔ جو زندگی کاپہلا اور ابھی تک کا واحد تجربہ بھی ہے۔ میری اس کلاس میں مشکل سے 3 یا 4 ہی بچے ایسے تھے کہ جنہیں ریاضی کی جمع تفریق ہی صحیح سے آتی ہو۔ آگے آپ خود سمجھدار ہیں۔ قصوران بچوں کا نہیں تھا بلکہ اس حقیقت کا ہے کہ فلسفہ ہمارے ہاں بالکل ویسا ہی مضمون ہے جیسے ہمارے ہمسایہ ملک میں اچھوت۔

تقریبأ 1000 سال (غزالی صاحب کی تشریح سے لے کرآج تک) میں صرف ایک ہی فلسفی ہماری تاریخ میں ملتا ہے اور وہ بھی سپلیٹ پرسنیلٹی۔ شاعری میں ملا اور فلسفہ میں اول درجے کے کافر۔ شروع کی شاعری میں بھی کافر ہی تھے مگر مولویوں سے پھینٹی کھانے کے بعد شاید سمجھ گئے تھے کہ مولوی کو شاعری سمجھ میں آتی ہے (الفاظ کی حد تک) اسی وجہ سے شاید کفر سارا فلسفہ میں بولتے رہے اور عشق (مولوی والا) شاعری میں۔

بات اصل میں یہ کرنی تھی کہ کچھ دنوں پہلے پنجاب میں اساتذہ کی آسامیوں والی خوشخبری میں فلسفہ کا ذکر نہ پا کر دل جل سا گیا۔ انہی دنوں میں ایک ولایتی پروگرام میں ایک صاحب نے اپنا تعارف کچھ یوں کروایا،

”Hi every one، my name is Sam and I am High School Philosophy teacher“

سن کر پریشانی مزید بڑھ گئی کہ کیسی قوم ہے ہمارے ہاں یونیورسٹی تک میں فلسفہ کے استاد نہیں اور ان کے ہاں ہائی سکول میں بھی فلسفہ پڑھایا جاتا۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ فلسفہ کا اصل مقصد سہی سوال کرنا سیکھانا ہے اور میری ناقص رأے میں اس کو پڑھانے کا نقطہ آغاز ہائی سکول ہی ہونا چاھیے۔ جیسا کہ ہمارے اپنے ملک کے واحد غیرمسلم مسلمان بھی فرما گئے ہیں کہ بچوں کو سوال کرنا سکھائیں۔ اگر ہماری حکومت اور اصل حکمرانوں میں کچھ عقل ہو تو براہ کرم احسان فرمایئے اور ہماری آنے والی نسلوں کا سوچیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).