عہد حاضرکی سختیاں


عہد حاضر درحقیقت ہے کیا؟ ذرا پہلے اس بات کو سمجھا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ عہد حاضر دراصل وہ جگہ ہے کی جو انسانوں کے لیے تو شاید وجود میں لائی ہی نہ گئی تھی موجودہ حالات میں کوئی بھی شخص کم از کم اس بات پر تو متفق ہوں گے کہ شاید یہ تحریر کچھ حد تک درست ہے۔

مگر قارئین یہ تو سوچیں کہ ایسا ہوا ہی کیوں؟ ایسی نوبت آئی ہی کیوں؟ تو ذرا بغور مطالعہ کریں تو شاید میری ادنی سی بات لوگوں کے دلوں میں گھر کر جائے۔ اگر آپ غور کریں تو ایک سوال میں آپ سے کرتا ہوں کہ عہد حاضر میں کون سا ایسا شخص ہے کہ وہ اپنی زندگی خود ہی اپنے بل بوتے پر جی رہا ہو؟ ہم جب بھی کوئی بھی اچھا یا برا خواہ کوئی بھی کام ہو ہمارا وتیرہ یہی ہوتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ سماج کیا کہے گا؟ تو ایسی زندگی کا کیا فائدہ کہ آپ اپنے فیصلے بھی جہاں خود نہ کر سکیں۔

لیکن قصور یہاں ہم لوگوں کا بھی نہیں ہے کیونک ہمارا ظالم زمانہ ہی ہم لوگوں کو اپنے بل بوتے پر زندہ رہنے ہی نہیں دیتا اب اگر کوئی شخص صاحب استطاعت کبھی کہیں بھی کچھ خرچ کر دے تو لوگ وہاں بھی ہمیشہ ہی گلہ کرتے نظر آتے ہیں

مثال کے طور پر

اگر ایک اچھا خاصا امیر شخص جب کسی شادی بیاہ پر کھلا خرچہ کرے تو معاشرہ بغیر سوچے سمجھے بیان صادر فرماتا ہے کہ دیکھو کتنا پیسہ خرچ کر دیا صرف ایک ہی شادی پر اتنا پیسہ لٹا دیا یہی کسی غریب کے کام آ جاتا مگر نہیں۔

تو کیا یہاں وہ شخص مکمل طور پر اپنے فیصلے خود کر سکتا ہے؟

یہی نہیں اب اگر کوئی شخص قناعت پسندانہ طوارق سے خرچہ کرے تو وہاں بھی لوگ کچھ ہوں کہتے نظر آتے ہیں۔

ارے دیکھا کتنا کم پیسا خرچ کیا پتہ نہیں شاید باقی کا پیسہ قبر میں ڈالنا ہے؟

ارے بھائی کم از کم مجھے یہی بات تو سمجھائیے کہ کیا کسی کو بھی کسی دوسرے کی قبر کا علم ہے؟ ارے وہ چھوڑیے کیا آپ کو اپنی قبر کا بھی معلوم ہے کہ کیا ہونا ہے وہاں؟ نہیں نا! تو پھر کیوں کسی کی زندگی میں دخل اندازی کرتے ہو؟

سکھا کہ مجھ کو اب یہ زمانہء نو آداب زندگی وقار

اب مجھ سے میرے کیے کا سوال کرتا ہے

یہی وجہ ہے کی عہد حاضر کی سختیاں ہی اتنی بڑھ گئی ہیں کی اس دنیائے فانی میں زندہ رہنا اب نا ممکن سا نظر آ تا ہے۔ یہ گناہ گار زمانہ اور گناہ گار بندے کسی بھی حال میں خوش نظر نہیں آتے۔

اس دنیا نے کیا کیا جب سقوط ڈھاکہ ہوا؟

کیا کیا کہ جب کشمیر پر ظلم ہوا؟

کیا کیا کہ جب پختونوں اور مہاجروں کا بے دردی سے قتل عام کیا گیا؟

کیا کیا کہ جب عوام کے محافظ ہی عوام ہر سر عام گولیاں برساتے رہے؟

کیا کیا کہ جب بات ہر بار نیا حکمران چننے کی آئ؟

غور کیجیے گا تو دل خون کے آنسو روتا ہے کہ جب جواب ملتا ہے کہ صرف تبصرہ کیا۔

صرف مذمت کی۔

صرف چند دن تک سوگ منایا اور پھر کوئی نیا مقالمہ تلاش کیا کہ جس پر بحث کی جائے۔

افسوس صد افسوس۔

یہ ہے ہمارا معاشرہ یہ ہے عہد حاضر۔

میں کس کے ہاتھ میں اپنا لہو تلاش کروں

سارے شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے

ذرا نہیں پورا سو چیئے گا

ملک وقار احمد، ملتان
Latest posts by ملک وقار احمد، ملتان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).