مسئلہ بلی کے گلے میں گھنٹی لٹکانے کا ہے


سپریم کورٹ کا واضح، صاف صاف اور تحریری فیصلہ آگیا ہے۔ اس قسم کے فیصلے کی موجودہ دور میں سامنے آنے کی کوئی توقع تو نہیں تھی اس لئے کہ عدالتیں روزاول تا حال، ہمیشہ ہی ”طاقت“ کے زیر اثر رہی ہیں جس کی وجہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ ہر منصف نے اپنی تعیناتی کو سرکاری نوکری سمجھا اور اس سے علیحدہ ہوجانے کو بڑا نقصان جانا جس کی وجہ سے ”طاقت“ کے حوصلے بلند سے بلند ترہوتے چلے گئے یہاں تک کہ آئین کو توڑدینا یا مسخ کروادینا بھی ان کے لئے ایک ہنسی مذاق کا مشغلہ بن کر رہ گیا۔

پرویز مشرف اور اس سے قبل کے سارے عسکری ادوار میں یہی دیکھا گیا ہے کہ کورٹ عدل و انصاف پر مبنی فیصلے کرنے کی بجائے عسکری انقلابیوں کی مرضی و منشا کے مطابق فیصلے کر کے ان کے انقلاب کو قانونی تحفظ فراہم کرتی رہی ہے۔ جو بات سمجھ سے بالا تر رہی کہ وہ ججز جو احکامات ماننے سے انکار کی وجہ سے مستعفی ہونے پر مجبور کر دیے گئے یا مجبور ہو گئے ان کو عوام میں وہ پزیرائی نہیں مل سکی جو ان ججوں کے نصیب میں آئی جو قانون اور آئین توڑنے والوں کے ساتھی بنے۔

گویا یہ اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ ایسے تمام ججز جن کی نظروں میں قانون بڑا تھا اور اس کا توڑنا آئین پاکستان کی نظر میں سنگین جرم تھا، فعل کو تو معتبر جانا گیا اور جھنوں نے ایسے عہدے پر بیٹھنا بھی گوارا نہیں کیا جس پر بیٹھ کر آئین کی دھجیاں بکھیرنے والوں کی بات مانی جائے وہ سب بیوقوف، کم عقل اور جاہل ٹھہرے اور وہ تمام منصفین جو وقت کے سانچے میں ڈھل گئے وہ سارے کے سارے لائق تعظیم قرار پائے۔ اگر منصفین قانون کے پاسبان بن جانے کا حوصلہ و ہمت کرلیتے اور کرتے رہتے تو شاید پاکستان میں سب سے زیادہ طاقتور قانون ہی ہوتا جس کے آگے ہر طاقتور سے طاقتور کو سر جھکا ضروری ہوجاتا۔

قانون کی بے احترامیاں اب پاکستان کو اس موڑ پر لے آئی ہیں کہ اس کو آئین اور قانون کے راستے پر دوبارہ گامزن کردینا کسی طور ممکن نہیں آ رہا ہے۔

سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا ازخود نوٹس کیس میں حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے والے فوجیوں کے خلاف کارروائی کرے۔ عدالت نے آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلی جنس اور انٹیلی جنس بیورو کے علاوہ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کو بھی ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کام کریں۔

فیصلہ تو کردیا گیا اور لکھ بھی دیا گیا لیکن پھر بھی حد درجہ احتیاط کا عالم یہ تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے 22 نومبر کو فیض آباد دھرنے سے متعلق ازخود نوٹس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا اسے جاری تو کردیا گیا۔ لیکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جو ریمارکس دیے وہ اس بات کا مظہر ہیں کہ ازخود نوٹس کا فیصلہ سنانا ایک مشکل اور پر خطر کام تھا، جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ کے بینچ کی جانب سے عدالت میں فیصلہ پڑھ کر نہیں سنایا گیا بلکہ صحافیوں کو کہا گیا کہ اس کی کاپی عدالت عظمیٰ کی ویب سائٹ پر دستیاب ہوگی۔ بعد ازاں فیض آباد دھرنا از خود نوٹس کا تفصیلی فیصلہ عدالت عظمیٰ کی ویب سائٹ پر جاری کیا گیا جو 43 صفحات پر مشتمل ہے۔

اس فیصلے میں عدالت نے آرمی چیف، بحری اور فضائی افواج کے سربراہان کو وزارت دفاع کے توسط سے حکم دیا کہ وہ بھی فوج کے ان اہلکاروں کے خلاف کارروائی کریں جنہوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی سیاسی جماعت یا گروہ کی حمایت کی۔ فیصلے میں کہا گیا کہ پاکستان کا آئین مسلح افواج کے ارکان کو کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمیوں، بشمول کسی سیاسی جماعت، دھڑے یا فرد کی حمایت سے روکتا ہے، حکومت پاکستان وزارت دفاع اور افواج کے متعلقہ سربراہان کے ذریعے ان افراد کے خلاف کارروائی کرے جنہوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی ہے۔

عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں کہا گیا کہ تمام خفیہ اداروں بشمول (آئی ایس آئی، آئی بی اور ایم آئی) اور پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کو اپنے مینڈیٹ سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی وہ اظہار رائے کی آزادی کو سلب کر سکتے ہیں اور نہ ہی انہیں چینلز اور اخبارات کی نشرواشاعت اور ترسیل میں مداخلت کا اختیار ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ نجی ٹی وی چینلز جن میں ڈان اور جیو شامل ہیں اور جو کہ لائسنس یافتہ چینلز ہیں، کی نشریات کو چھاؤنی اور ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے علاقوں میں بند کر دیا گیا لیکن پیمرا نے اس پر کوئی کارروائی نہیں کی۔

فیصلے میں کہا گیا کہ حکومت یا کوئی بھی خفیہ ادارہ اظہار رائے کی آزادی پر قدغن نہیں لگا سکتا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اصغر خان کیس کے فیصلے کے بعد مسلح افواج اور آئی ایس آئی کی جانب سے سیاسی مداخلت کا معاملہ رک جانا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا، وردی میں ملبوس اہلکاروں نے فیض آباد دھرنے کے شرکا میں رقوم تقسیم کیں اور یہ کوئی اچھا منظر نہیں ہے۔ عدالت کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ نے بھی اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے سیاسی معاملات پر رائے زنی کی۔ فیصلے میں کہا گیا کہ مسلح افواج، فوج کے خفیہ اداروں اور فوج کے شعبہ تعلقات عامہ میں کام کرنے والے افسران اور اہلکاروں کو یہ تاثر نہیں دینا چاہیے کہ وہ کسی سیاسی جماعت یا گروہ کی حمایت کر رہے ہیں۔

عدالت نے نہ صرف بہت سارے فیصلے افواج پاکستان اور اس کے اداروں کے رویوں کے خلاف دیے بلکہ اس نے اپنے فیصلے میں سیاسی جماعتوں اور ان کے رویوں کو بھی غلط قرار دیتے ہوئے ایسے تمام افراد کے خلاف قانونی کارروائی کا حکم دیا ہے جو خلاف قانون سرگرمیوں میں مصروف رہے تھے۔ عدالت نے آئی ایس آئی کی اس رپورٹ کو بھی اپنے فیصلے کا حصہ بنایا ہے جو وزارت دفاع کے حکام نے عدالت عظمیٰ میں جمع کروائی تھی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بعض سیاسی شخصیات نے بھی فیض آباد دھرنے کی حمایت کی اور ان شخصیات میں عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور وفاقی وزیر شیخ رشید احمد کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ ضیا کے اعجاز الحق، پیپلز پارٹی کے شیخ حمید اور حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کا علما ونگ بھی شامل ہے۔

فیصلے میں فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے اس بیان کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ فیض آباد پر دھرنا دینے والی جماعت تحریک لبیک کے ذرائع آمدن کا پتا لگانا اس کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اٹارنی جنرل سے جب ان قوانین اور قواعد و ضوابط کے بارے میں پوچھا جس کے مطابق آئی ایس آئی کام کرتی ہے تو اس بارے میں اٹارنی جنرل کی طرف سے ایک بند لفافہ عدالت میں پیش کیا گیا اور ساتھ یہ بھی استدعا کی گئی کہ آئی ایس آئی کے دائرہ اختیار کو پبلک نہ کیا جائے۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ کوئی بھی ایسا شخص جو کسی دوسرے کے خلاف فتوی دیتا ہے جس سے کسی کو نقصان پہنچے یا اس کی راہ میں رکاوٹ آئے، اس کے خلاف انسداد دہشت گردی یا سائبر کرائم کے قوانین کے تحت مقدمہ قائم ہونا چاہیے۔

عدالت نے انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے صاف صاف کہہ دیا کہ احتجاج کرنا ہر ایک کا حق ہے لیکن یہ حق اس وقت تک تسلیم کیا جانا چاہیے جب تک اس سے دوسروں کے حقوق متاثر نہ ہوں۔

وہ تمام فیصلے جن کا تعلق سیاسی جماعتوں، ان کے کارکنوں، رہنماؤں یا عام لوگوں سے ہے ان کے خلاف کارروائی تو ممکن ہے عمل میں آجائے کیونکہ پاکستان کا ماضی اسی قسم کی تاریخ سے پٹا پڑا ہے لیکن کیا ہماری وزارت دفاع کوئی ایسا قدم بھی اٹھا سکتی ہے کہ وہ عسکری اداروں کے خلاف سنائے گئے فیصلوں پر کوئی کارروائی عمل میں لا سکے؟

یہاں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کے پاس وہ کون سی طاقت ہے جس کی ذریعے اگر وہ چاہے بھی تو کوئی ایسی کارروائی کر سکے یا جس کی مدد سے قانون کی خلاف ورزی کرنے والے قانون کی گرفت میں آسکیں۔

سپریم کورٹ جو فیصلے اب تک سناتی رہی ہے اس پر سول اداروں کو مجبور کرتی رہی ہے کہ وہ بہر صورت اس پر عمل کریں بصورت دیگر توہین عدالت کے زمرے میں ان کے خلاف کارروائی عمل میں آسکتی ہے یہی وجہ ہے کہ ادارے اس بات کو جانتے اور سمجھتے ہوئے بھی کہ فیصلہ بے شک عدالت کا ہی ہے لیکن اس پر عمل ظلم عظیم سے کم نہیں، وہ عمل نہ کرتے ہوئے خوف زدہ دکھائی دیے ہیں۔ لوگوں کو بے گھر کرنا، ان کے کاروبار تباہ کرنا اور گھر یا دکانیں مسمار کرنے سے قبل ان کے لئے متبادل انتظام نہ کرنا کسی طرح بھی کسی ادارے یا حکومت کے لئے مناسب نہیں ہوتے ہوئے بھی ایسا ہی کیا گیا۔ یہ سب آفتیں بے بس افراد پر توڑی گئیں اور ان کے سانس لینے کو مشکل تر کردیا گیا۔

جب سول ادارے یا حکومت سپریم کورٹ کے ان فیصلوں پر جس میں حکم دیا گیا تھا کہ کینٹومنٹ علاقوں میں بنے شادی حال، سینما گھر، تفریحی پارک یا کاروباری مراکز کو بھی مسمار کیا جائے، آج تک عمل نہیں کر سکی تو کیا وہ اتنی جرات اور ہمت رکھتی ہے کہ افواج پاکستان اور ان کے اداروں کے ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی روبہ عمل لا سکے؟ پھر ایک ایسی حکومت جس کی بیساکھیاں ہی یہی طاقتیں ہوں ان سے ایسی توقعات رکھنا خواب و خیال ہی ہو سکتا ہے۔

فیصلہ تو ہوگیا کہ بلی کی آمد سے پہلے اس کی آمد کی خبر ہوجانے کا بہترین حل یہی ہے کہ اس کے گلے میں گھنٹی لٹکادی جائے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ لٹکائے گا کون؟ پاکستان کا آئین، قانون اور عدالت عظمیٰ موجودہ حکومت کے ساتھ کھڑی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کھڑی ہونے کے لئے تیار ہے یا لیٹے رہنے میں ہی اپنی عافیت تلاش کر رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).