کامریڈ باباجان اور گرتی ہوئی اخلاقی دیواریں


گزشتہ سال کے اواخر میں انسپکٹر جنرل آف پولیس نے گلگت سے کچھ صحافیوں کو اپنے دفتر میں ملاقات کے لئے بلایا تھا جس کے اغراض و مقاصد کا علم نہیں تھا تاہم گمان پریس بریفنگ کی تھی لیکن صحافیوں کی تعداد بہت کم تھی۔ اس موقع پر انسپکٹر جنرل آف پولیس نے بتایا کہ آج معمول کا اجلاس یا پریس بریفنگ نہیں ہے بلکہ آپ لوگوں سے گلگت بلتستان کی بہتری کے لئے پولیس کا کردار اور رائے لینی ہے، آئی جی پی صاحب ان دنوں ابھی ابھی گلگت بلتستان آئے تھے اور حال احوال سے آگاہی لینے کی کوشش کررہے تھے، صحافی دوستوں نے اپنے ذہن کے مطابق آراء پیش کی۔

راقم نے اپنی باری میں انہیں کہا کہ اگر گلگت بلتستان میں اصلاحات متعارف کرانا اور پولیس پر عوام کا اعتماد بحال کرانا ہے تو سیاسی ورکروں پر انسداد دہشت گردی کی دفعات اور شیڈول فور میں ڈالنا بند کریں، کچھ وقت پہلے تک شیڈول فور اور انسداد دہشتگردی کے دفعات سے لوگ کانپنا شروع کرتے تھے لیکن اب یہ دفعہ 144 بن گیا ہے، سیاسی کارکنوں پر معمولی باتوں پر بھی انسداد دہشتگردی کے دفعات لگانا اور شیڈول فور میں ڈالنے کی وجہ سے عوام کا نظام سے اعتماد اٹھ رہا ہے، میری اس تجویز پر ایک اور سینئر صحافی نے بھی اتفاق کا اظہار کرتے ہوئے مزید زور دیا۔ انسپکٹر جنرل آف پولیس نے آگے سے کوئی سوال پوچھنے کی بجائے دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا کہ میں خود اس کا خلاف ہوں کہ معمولی باتوں پر اتنی سخت دفعات لگائی جائیں اور میری کوشش رہے گی کہ آئندہ کے لئے ایسے واقعات کم سے کم ہوسکے۔

گاہکوچ جیل میں اسیر قوم پرست رہنما بابا جان کی بگڑتی طبیعت گزشتہ کچھ دنوں سے بحث کا موضوع بنی رہی، ہنزہ میں احتجاج کرنے کے جرم میں قید بابا جان کے بگڑتی ہوئی صحت کے بارے میں جب بات سوشل میڈیا میں چلنے لگی تو ڈپٹی کمشنر غذر/سپرنٹنڈنگ غذر جیل نے باقاعدہ پریس ریلیز جاری کرکے ان تمام افواہوں کو بے بنیاد قرار دے دیا، بعد ازاں باباجان کے اپنے دستخطوں سے وزیراعلیٰ کے نام لکھی گئی ’چھٹی‘ بھی سامنے آگئی جس میں انہوں نے مطالبہ کیا کہ مجھے دل کی تکلیف ہے اور ڈاکٹروں نے انجیوگرافی کرانے کا مشورہ دیا ہے لہٰذا اسلام آباد کے ہسپتال میں علاج کے لئے سہولت دی جائے۔

ڈپٹی کمشنر غذر کے اس وضاحت کی وجہ سے شاید متعلقہ حکام نے کوئی نوٹس نہیں لیا اور سوشل میڈیا میں باباجان کے حق میں بھرپور مظاہرے ہوئے اور وہی تاثر ابھرنے لگ گیا کہ سیاسی قیدیوں کو ریاستی اداروں کی جانب سے علاج معالجے کی سہولت تک نہیں دی جارہی ہے جو یقینا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ بالآخر وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن اور فورس کمانڈر میجر جنرل احسان محمود خان دونوں نے ایک ہی روز نوٹس لیا اور اسیر قوم پرست رہنما باباجان کی علاج معالجے کے لئے سہولیات فراہم کرنے کی ہدایت کردی، کرنل کاظمی نے فورس کمانڈر کے ہدایت پر باباجان سے جیل میں ملاقات کی جبکہ صوبائی حکومت کی جانب سے میڈیکل بورڈ تشکیل دیدیا گیا جس میں ڈی ایچ کیو گلگت کے ماہر امراض قلب ڈاکٹر شاہ فرمان اور سی ایم ایچ کے سپیشلسٹ ڈاکٹرز بھی شامل تھے، علاج معالجے کے دوران تشخیص کیے گئے ٹیسٹ میں باباجان کی صحت کو تسلی بخش قرار دے دیا گیا جس پر باباجان اور اس کے بھائی امین اللہ جان دونوں کو اطمینان اور تسلی ہوئی، جس پر انہوں نے باضابطہ طور پر شکریہ بھی ادا کیا۔

یہی وہ رویے ہیں جن کو فروغ دینے کی ضرورت ہے، گلگت بلتستان میں سیاسی تحریکیں نہ ہونے کے برابر ہیں اور اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ سیاسی کارکنوں کو آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے اظہار رائے کی آزادی فراہم کی جائے، سیاسی کارکنوں کو اظہار رائے کی آزادی نہ ہونے اور اپنے دل کا بھڑاس سوشل میڈیا میں نکالنے کی وجہ سے فرقہ وارانہ معاملات کو ہوا دینے اور نوجوان نسل کو غلط راہ پر لے جانے والے بھیڑیے بھی سیاسی کارکنوں کی اس صف میں چھپ جاتے ہیں جو سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں۔

کامریڈ باباجان کے متعلق جس قسم کی افواہیں جنم لے رہی تھیں وہ خوش اسلوبی سے ختم ہو گئی ہیں جو کہ خوش آئند ہے مگر سیاسی کارکنان جن پر مجرمانہ دھبہ نہ ہو، جن کا ماضی داغدار نہ ہو، جو فرقہ وارانہ سوچ کے حامل نہ ہوں اور صرف سیاسی حقوق کے لئے جدوجہد کرتے ہیں ان کے لئے مزید گنجائش پیدا کی جانے کی ضرورت ہے تاکہ دیوار سے لگا ہوا طبقہ بھی سامنے آ سکے، اور اپنے احساس محرومی کے خاتمے کے لئے جدوجہد کر سکے۔

گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والی خاتون خوش بخت کراچی سے لاپتہ ہوگئی۔ سوشل میڈیا میں ہنگامہ برپا کردیا گیا (بعد میں رضامندانہ بازیابی بھی ہوئی)۔ گلگت بلتستان سے ہی تعلق رکھنے والی ایک اور خاتون راولپنڈی اسلام آباد میں اپنے کمرے میں مردہ حالت میں پائی گئی جس پر مبینہ قتل کیے جانے کے نشانات موجود تھے۔ کراچی میں مقیم گلگت بلتستان کی ایک خاتون مسماة ش نے دلبرداشتہ ہوکر تین سالہ خوبصورت پھول نما بیٹی کو سمندر میں ڈبوکر قتل کردیا۔

اشکومن سے تعلق رکھنے والے 17 سالہ نوجوان کو مبینہ طور پر زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا، غذر اور اشکومن سے آنے والی خبروں کے مطابق مقتول کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی اور بعد میں گلا دبا کر انتہائی بے دردی سے قتل کردیا گیا اور ان کی نعش کو دریا کے قریب پتھروں میں دبا کر چھپانے کی کوشش کی گئی۔ جن بوجھل خیالات اور دل کی کیفیت کے ساتھ یہ سطور لکھی جا رہی ہیں وہ بیان کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ ہم گلگت بلتستان کے لوگ اپنی اور علاقے کی تعریف کرتے ہوئے خود کو مہذب لوگ کہتے ہیں، ہم کہتے ہیں کہ ہمارے پاس ثقافتی اقدار کا تحفظ ہے، ہمارے ہاں ان تمام اخلاقی باتوں پر عملدرآمد ہوتا ہے جو دیگر علاقوں میں صرف کہے جاتے ہیں یا بزرگوں کی نشانی کے طور پر یادگار رکھتے ہیں۔

مذکورہ بالا چبھتے ہوئے حادثات میڈیا میں رپورٹ ہوگئے ہیں وگرنہ نہ جانے کتنے ایسے واقعات سماج کے خوف سے دبائے جاتے ہیں اور ان پر کوئی توجہ نہیں ہوتی۔ مجھے معلوم ہے کہ ان تمام اوصاف کا جی بی کے ثقافتی پس منظر سے کوئی تعلق نہیں ہے مگر پے درپے واقعات اور حادثات اس بات کی نشاندہی کررہے ہیں کہ سماجی اقدار بگڑ گئی ہیں، اور اخلاقی دیواریں گر رہی ہیں۔ گلگت بلتستان میں ہر مکتب، ہر مسلک، ہر فرد، ہر شخصیت، ہر ادارہ کے پاس اور اجتماعی طور پر بھی بحث میں آنے والے معاملات ہوائی ہیں، جن میں سیاسی گفتگو، آئینی حقوق کی محرومی اور دیگر ہیں، جب خدا کے گھروں سے بھی سیاسی تقریریں ہوں گی، وزیراعلیٰ زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے لگیں گے، یا حمایت اور مخالفت کی باتیں چلیں گی، تو اخلاقی اور سماجی اقدار کی پرورش اور تحفظ کون کرے گا۔

کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک پر امن اور رہنے والوں کے لئے قابل قدر نہیں ہوتا ہے جب تک اس میں سماجی اقدار کا تحفظ نہ ہو۔ سماجی اقدار موجود نہ ہوں تو جنگل کا قانون ہی چلے گا، ایک نوجوان کو اتنی بے دردی سے قتل کرنے کے بعد اس مطالبے کی کیا اہمیت کہ اس کے قاتلوں کو گرفتار کیا جائے؟ اور جب سماجی اقدار کی بات ہو تو عبادت گاہوں سے لے کر سول سوسائٹی تک سب کوصرف اور صرف خواتین کا ناچ اور مخلوط رقص نظر آتا ہے، جب معاشرتی سطح پر انفرادیت بڑھ جائے، سماجی اقدار زوال پذیر ہوں، تو لوگوں کی فلاح و بہبود، خاندانی نظام سے لے کر انفرادی حقوق اور پہچان تک کو کیسے محفوظ کیا جا سکے گا۔

گلگت بلتستان میں ایسے ادارے نظر ہی نہیں آتے ہیں جو سماجی پرورش کا بیڑا اٹھا سکے، جب ہر شخص سماجی اقدار سے بیزار ہوگا تو وہاں کی تعلیم کیسی؟ وہاں کی صحت کیسی اور وہاں کے حقوق کیسے؟ ایسے معاشرے کو آج تک کسی نے بھی حوصلہ افزا قرار نہیں دیا ہے اور نہ ہی قبول کیا ہے۔ معاشرتی تقسیم کو ختم کرکے اقدار کی بنیاد پر معاشرے کی ازسرنو بحالی کے لئے کام نہ کیا گیا تو ممکن ہے کہ درج بالا حادثات یا واقعات ہماری ثقافت کی شناخت بن جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).