جدت کی بدعت یا قدامت پہ ندامت


بندے کو فقیر ہونے کا گماں ہے نہ ہی امارت کا زعم، بس ہنگام شب و روز میں زندگی گزر رہی ہے بلکہ دوڑ رہی کہ کہیں ذرا سی بے ہنگمی کے باعث کچلی نہ جائے۔ ویسے فقیری کا لقب ادیب لوگوں کی کسر نفسی کی مرہون منت ہی زندہ ہے وگرنہ اس جہان آب و گل میں ہر ذی روح کو انفرادیت و اشرافیت کا واہمہ لاحق ہے۔ اب بندے کی کیفیت ہی دیکھ لو کہ چاروقت کی روٹی کیا ملنے لگی، اصل سے مفر۔ (یہ ”چار وقت“ بقائمی ہوش و حواس لکھا ہے کہ کوئی اسے کلیریکل مسٹیک نہ سمجھ لے، مذید برآں وضاحت اس لیے کہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ ) یہ عارضہ پہلے پہل چندیدہ نادیدوں کو لاحق ہوا لیکن اس کا ارتکاز ہوتے ہوتے قومی مغالطہ بن گیا۔

عام بول چال میں محاورہ اگرچہ تین وقت کی روٹی ہی ہے لیکن حالات اب کسی قدر خاص ہوگئے ہیں اور اس سب کا ذمہ دار مغربیت کا بلا ادراک زعم ہے جس میں آج کے یونیورسٹی گریجویٹس مبتلا ہیں۔ ہم ایسے خود ساختہ مقامی نیوٹنز اور آئین سٹائنز کے نزدیک اس وقت تک جدت و تہذیب ملکی سرحدوں سے کوسوں دور رہتی ہے جب تک شب خیزی کا یارا نہ ہو۔ اسی نظریے کی ترویج و اشاعت کے لیے شہروں کی بیرونی شاہرات پر قائم جامعات اور ان کی قیام گاہوں میں اقبال کے شاہین جاگتی آنکھوں سے خواب بننے کی عملی مشقیں کرتے پائے جاتے ہیں۔

اسی عمل میں اگر اردو ادب کے ایک آدھ محاورے میں حسب ضرورت تخفیف و ترمیم کرنی بھی پڑے تو کیا مضائقہ۔ بالآخر قوم کے معمار تیار ہو رہے جنہوں نے ادب و فلسفہ کے ساتھ ساتھ سائنس کو نئی جدتوں سے روشناس کروانا ہے۔ ویسے بھی قدیم روایات کے ساتھ ساتھ ان کے ادب کو بھی متروک تو ہو کر ہی رہنا ہے تو کیوں نہ کسی تعمیری عمل میں یہ سب کام آجائے۔ ہر چند بنیاد پرستوں نے اپنی سی سعی کرنی ہے کہ جدت کی راہ روکی جائے لیکن ہونی ہو کے رہتی ہے۔ وہ جتنی بھی دلیلیں، تاویلیں گھڑلیں، ان کی ایک نہی سنی جانی۔ سنی جائے بھی تو کیوں؟ بے تکی سی نرگیسیت ذدہ باتیں کرتے ہیں۔

ابھی کل ہی کی بات ہے کہ ایک قدیمی سے توانائی کے بحران پہ بات شروع ہوئی تو فٹ سے اسی گھسے پٹے موضوع کی طرف لپکا کہ یہ سب شہری زندگی کی لیٹ نائٹ ایکٹیویٹیز کے باعث ہے۔ اب بندہ اس سے پوچھے کہ اگر راتوں کو جاگنا ہے تو لائٹس تو آن رکھنی پڑیں گی نہ۔ تو کہنے لگا بلا سے رکھو گھروں کو روشن لیکن اس کے ساتھ یہ کیا کہ رات رات بھر بازار کھلے رکھے جائیں اور سٹریٹ لائیٹس کے بھاری بھرکم بلبز کو جلائے رکھنے سے خوامخواہ انرجی کو ضائع کیا جارہا ہے۔

اس کم فہم کو اتنا ادراک نہی کہ راتوں کو جاگنے والے شہری جب چوتھے وقت کا کھانا کھانا چاہیں تو وہ کیا کریں۔ چولہوں میں گیس تو آتی نہی۔ لے دے کے ملٹی نیشنلز فوڈ چینز والے اگر قوم کی بھوکی آنتوں کو تر رکھنے کا بندوبست کرتے ہیں تو آپ ایسے لوگ چڑھ دوڑتے ہیں کہ جی دوہرا گھاٹا دوہرا گھاٹا۔ اب اس میں دوہرا گھاٹا کیا ہے۔ بجلی استعمال ہوتی ہے تو وہ لوگ بل جمع کرواتے ہیں اور اگر سرمایہ باہر جاتا ہے تو اس پہ اعتراض کیسا۔

معیاری کھانے بھی تو یہی لوگ فراہم کرتے ہیں۔ اپنے لوگوں نے تو جیسے قسم اٹھا رکھی ہے دو نہیں بلکہ تین یا چار نمبر اشیا فروخت کرنی ہیں۔ ہاں البتہ اتنا ضرور ہے کہ اپنی پروڈکٹس کے نام اسلامی رکھے ہیں۔ ہر تیسری دکان مدینہ سٹور کے نام سے ہے۔ ماشاءاللہ، مکہ، بسم اللہ، اور محمدی ایسے متبرک ناموں کی برکت سے، خالص ہو نہ ہو لیکن، مال خوب بکتا ہے۔ لگے ہاتھوں سال کی سال سرکاری سبسڈی سے حج و عمروں کا اہتمام باقاعدگی سے ہوتا رہتا ہے کہ نام کے ساتھ الحاج کا سابقہ کاروبار کے ساتھ ساتھ معاشرتی مقام و مرتبے کو چارچاند لگا دیتا ہے۔ یہ بات سن کر شرمندگی سے پہلو تہی کرنے کی بجائے الٹا پل پڑا۔ یہ کم علم لوگ بھی بلا کے ہٹ دھرم ہوتے ہیں۔ شومئی قسمت کہ لفظ سبسڈی اس کے لاشعور میں کہیں کھب کے رہ گیا۔

جس قدر رعب اس پہ اپنی اس ملاوٹ والی باتوں پہ مذہبی ناموں کا تڑکا لگا کے ڈالا اسی شدت سے اس نے پلٹ کے سبسڈی پہ حملہ کردیا۔ بڑے اہتمام سے آئیں بائیں شائیں کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اپنی ہٹ پر قائم رہا کہ بتاؤ حج کی سبسڈی تو ختم کردی کہ غریب قوم پر بوجھ پڑتا ہے لیکن بجلی گیس کی سبسڈی کا کیا؟ یہاں بھی امیر غریب کی تمیز رکھی جائے۔ اسی قیمت پر ایک 400 روپے دیہاڈی دار کو ملے اسی پر ایک انڈسٹریئلسٹ کو۔ یہ کہاں کا انصاف ہے۔

دوسرا حملہ اس کا ٹیکسوں کے نظام پر ہوا کہ کالا دھن کمانے والوں پر بھی وہی فکس ٹیکس جو اشیا کی قیمت خرید میں شامل کر دیا جاتا ہے اور غربا و مساکین کے لیے بھی وہی۔ امیر لوگوں کے لیے سال کے سال نئی نئی اسکیمیں متعارف کروا دی جاتی ہیں کہ کالا دھن سہولت کے ساتھ سفید ہو سکے لیکن غربا کا تو کوئی پرسان حال نہیں۔

اب اسے کیسے سمجھایا جائے کہ یہ جو غربت ہے یہ ان غریب لوگوں کے اپنے کرموں کی وجہ سے ہے۔ سرکاری اسکولوں میں اچھا بھلا انتظام ہوتا ہے لیکن مجال ہے یہ لوگ اپنے بچوں کو ان اداروں کی خالص مقامی تعلیم سے فیض یاب کریں۔ ان کی بے توجہی کے باعث بے چارے ممبران اسمبلی اور ان کے دوسرے تیسرے درجے کے چیلے چانٹوں کو ان بیش قیمتی اداروں کی دیکھ بھال کرنی پڑ رہی ہے۔ اس پر بھی کبھی کبھار کوئی ناہنجار قسم کا صحافی اپنے کسی ذاتی عناد پر خبر چھاپ دیتا ہے کہ درسگاہوں کو اصطبل بنا دیا گیا وغیرہ وغیرہ۔

اب یہ فیصلہ آپ لوگ ہی کرلیں کہ اس تمام تر صورت حال کے ذمہ دار کون ہیں۔ قومی مسائل آیا کہ جدت کی بدعت کی مرہون منت ہیں یا قدامت کی ندامت کے باعث۔ حل اس کا ان دونوں کے مابین ہی کہیں ملنا ہے۔ اب ان دو قطبین کو ملانا کیسے ہے یہ امتحان ہے اس ملک کے اہل لوگوں کا۔ لیکن اس پر بھی شدید ترین تحفظات بہر حال موجود ہیں کہ اہل لوگ ہیں بھی کہ نہیں۔ حالات قحط الرجال کی سی کیفیت سے دوچار نظر آتے ہیں۔ مثبت اور تعمیری مناظرے کا فقدان ہے۔ قدامت پسند اپنی حدوں پر قائم تو جدت کے دعوی دار سیکولر اپنی ہٹ کے پکے۔ عدم برداشت ایسی پستی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ مردم شناسوں کا کال پڑا ہے۔ ان حالات میں بندے کی فکر بس چار وقت کی روٹی ہے کہ اسی میں ترقی کا راز مضمر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).