اپوزیشن کی اپوزیشن


اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وزیر اعظم عمران خان نے احتجاجی سیاست میں بڑا نام پیدا کیا ہے۔ انہوں نے دو عشروں کے لگ بھگ اس کی پریکٹس کی اور بالآخر اپنے حریف اول نواز شریف کی تینوں وکٹیں اڑانے میں کامیاب ہو گئے۔ ایک کرکٹر کے طور پر تو دنیا ان کا اعتراف کرتی ہے۔ کرکٹ ٹیم کے کپتان کی حیثیت سے ان کی فتوحات میں بھی کوئی کلام نہیں۔ ان کی کرکٹ کہانی تجربے اور سسپنس سے بھرپور ہے۔ وہ اس کھیل میں اتنا آگے بڑھیں گے اور ایسے کمالات کر دکھائیں گے، یہ کسی کو یقین نہیں تھا، لیکن وہ مسلسل محنت کے ذریعے وہاں پہنچے جہاں کم ہی لوگ پہنچ پاتے ہیں۔

ایک بار تو باقاعدہ ریٹائر ہونے کا فیصلہ بھی کر چکے تھے، لیکن پھر جنرل ضیاء الحق کی مداخلت (یا درخواست) پر رجوع کر لیا۔ گویا جنرل ضیاء الحق، نواز شریف اور عمران خان کے درمیان قدر مشترک ہیں۔ اول الذکر کا انہوں نے کلہ مضبوط کیا ’اور اپنی عمر بھی ان کو لگ جانے کی دعا کی۔ یہ دعا جس طرح قبول ہوئی، اس سے سب آگاہ ہیں۔ بہت سوں کو بابر اور ہمایوں کا واقعہ یاد آ گیا کہ ہمایوں شدید بیمار پڑا تو اس کے بادشاہ والد نے اس کی موت کا صدمہ برداشت نہ کر سکنے کی وجہ سے اس کی چارپائی کے گرد چکر لگائے اور بارگاہِ ایزدی میں ہاتھ اٹھائے کہ اس کی زندگی اس کے بیٹے کو عطا کر دی جائے اور بیٹے کے سر پر منڈلانے والی موت کی نذر اسے کر دیا جائے۔

دعا قبول ہوئی۔ ہمایوں بھلا چنگا بستر سے اٹھ کھڑا ہوا اور بابر کی پیٹھ بستر سے لگ گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ دنیا سے رخصت ہوا اور ہمایوں نے اس کی جگہ بھی سنبھال لی۔ اگر بابر کی دعا قبول نہ ہوتی تو برصغیر کی تاریخ مختلف ہوتی۔ بابر کا جانشین کوئی اور ہوتا تو شاید شیر شاہ سوری اس کو شکست نہ دے پاتا۔ ہمایوں شکست کھا کر ایران بھاگا، وہاں پناہ لی اور جب وہاں سے واپس آیا تو ایسا بہت کچھ ساتھ لایا جس سے ہندوستان ابھی تک واقف نہیں تھا۔

ہمایوں کی واپسی کے سماجی، مذہبی اور ثقافتی اثرات کا تذکرہ اس وقت مقصود نہیں ہے۔ صرف اس طرف توجہ دلانا کافی ہے کہ ہمایوں کی تخت نشینی نے برصغیر کی تاریخ کا رخ موڑ دیا۔ جنرل ضیاء الحق کی شہادت بھی تاریخ پر اثر انداز ہوئی، نواز شریف ان کے سیاسی جانشین بن کر ابھرے اور ان کے خون نے ان کی سیادت کے پودے کی ”آبیاری“ اس طرح کی کہ وہ ایک گھنا درخت بن گیا۔ اس کے پتے تو کئی بار جھڑے، لیکن جڑیں نہیں کٹ سکیں۔ آج بھی ٹنڈ منڈ ہونے کے باوجود یہ زمین میں پوری مضبوطی سے گڑا ہوا ہے اور اکھاڑے نہیں اکھڑ رہا۔

جنرل ضیاء الحق کی بدولت جہاں نواز شریف کی تاج پوشی ہوئی، وہاں پاکستانی قوم کو ایک ایسا ہیرو بھی مل گیا، جسے کرکٹ کی دنیا سے ہوتے ہوئے سیاست کے آسمان پر چمکنا تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان شیر شاہ سوری ثابت ہوتے ہیں یا ہمایوں کا بستر ہمیشہ کے لئے گول ہو جاتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے بہت سے حامیوں کو توقع ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی اور عمرانی وقفہ مختصر ثابت ہو گا۔ نواز شریف یا ان کے نامزد کردہ (Nominee) لدے پھندے آئیں گے اور وہیں سے آغاز کر دیں گے، جہاں سے اختتام ہوا تھا۔

عمران خان جس سیاست کی بنیاد رکھنے کا دعویٰ کر رہے ہیں، اس کی جڑیں گہری بھی ہو سکتی ہیں اور تاریخ ایک دوسرے رخ پر بھی بہہ سکتی ہے، سیاست پر موروثی اثرات کم بھی ہو سکتے ہیں، لیکن اس کے لئے جو کچھ کرنا چاہیے وہ ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ حکومت کی توجہ حکومت سے زیادہ اپوزیشن پر ہے اور وہ اپنے ایجنڈے پر آگے بڑھنے کے بجائے اپوزیشن کو الجھانے یا اسے زچ کرنے کو (یوں لگتا ہے کہ) زیادہ لذیذ کام سمجھ رہی ہے۔ عمران خان صاحب سے کوئی لاکھ اختلاف کرے، ان کی ان تھک محنت کا اعتراف کر کے ہی رہتا ہے۔ وہ دل چھوڑنے یا ہار ماننے والے نہیں ہیں۔ ایک اپوزیشن لیڈر کے طور پر انہوں نے اپنا لوہا منوایا ہے اور نواز شریف خاندان کے ساتھ وہ کر دکھایا ہے، بلکہ اس سے کئی گنا زیادہ کر دکھایا ہے جو اول الذکر نے بے نظیر بھٹو خاندان کے ساتھ کیا تھا۔

نواز شریف نے پہلے آئی جے آئی اور پھر مسلم لیگ (ن) کے سربراہ کے طور پر بے نظیر بھٹو کو پہلے اقتدار سے باہر کیا، پھر سیاست میں سانس لینا بھی دوبھر کر دیا۔ برادرم احتساب الرحمن (عرف سیف الرحمن) کے احتساب بیورو نے جس طرح عالمی سطح پر محترمہ اور ان کے شوہر نامدار کا تعاقب کیا ’اور جو جو کچھ، جہاں جہاں سے ڈھونڈ کر لائے، اس کے اثرات ابھی تک مندمل نہیں ہو سکے۔ عمران خان نے بھی نواز شریف کے خلاف ”آئی جے آئی“ بنائی، بظاہر ان کی پارٹی کا نام تحریک انصاف تھا (اور ہے ) لیکن یہ ایک پارٹی سے زیادہ متحدہ محاذ تھا (اور ہے ) اس میں وہ سب لوازمہ موجود تھا جو آئی جے آئی میں پایا جاتا تھا۔ مختلف الخیال عناصر اس میں یک جا ہیں اور اپنی اپنی بولی بھی بول رہے ہیں، جس طرح آئی جے آئی سے مسلم لیگ (ن) برآمد ہوئی تھی، اسی طرح موجودہ تحریک انصاف سے ایک یکسو جماعت برآمد ہو سکے گی یا نہیں، اس کے بارے میں مبصرین کی آراء اپنی اپنی ہیں۔

تبصرہ نگاروں میں اس نکتے پر عمومی اتفاق پایا جاتا ہے کہ عمران خان حکومت، حکومت سے زیادہ اپوزیشن کی اپوزیشن نظر آتی ہے۔ اپوزیشن کو احتسابی اداروں اور عدالتوں کے سپرد کر کے تبدیلی کے اپنے ایجنڈے سے اس کی نظریں ہٹ ہٹ جاتی ہیں۔ شیخ رشید کی سیاست اس پر غالب ہونے لگتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان پر لازم ہے کہ وہ اپنے اہداف پر نظر رکھیں۔ کسی ڈبے کو انجن نہ بننے دیں، وہ گاڑی کو کھینچ تو سکے گا نہیں، پٹڑی سے اتار بہرحال دے گا۔

دھرنا کیس کا فیصلہ

سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے ’جو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس شیر عالم پر مشتمل تھا‘ فیض آباد دھرنے کے حوالے سے تحریری فیصلہ جاری کر دیا ہے۔ اس فیصلے میں جسے جسٹس قاضی نے تحریر کیا ہے تحریک لبیک کے شہرہ آفاق دھرنے کی وجوہات، واقعات اور اثرات پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے اور مختلف اداروں کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرتے ہوئے ہدایات بھی جاری کی گئی ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مذکورہ دھرنے کی وجہ سے پاکستانی ریاست کی کمزوریاں عیاں ہوئیں، اس کی سیاست اور معیشت کو شدید نقصان پہنچا۔

اس سے سبق حاصل کرنا ضروری ہے۔ ہر اس شخص اور ادارے کو اپنی کوتاہیوں کا جائزہ لینا چاہیے امن و امان قائم کرنا، اور دستوری بالا دستی برقرار رکھنا جس کی ذمہ داری ہے۔ ذمہ داریوں سے فرار اختیار کرنے والے کسی ریاست کو استحکام نہیں دے سکتے۔ مقامِ شکر ہے کہ اس طرح کے دھرنے کو دہرانے کی کوشش ناکام ہوئی اور آسیہ کیس کے فیصلے کے بعد ریاستی اداروں نے مکمل ہم آہنگی کا ثبوت دیتے ہوئے اسے روک لگا دی۔ قانونی اور پر امن ذرائع سے جدوجہد کرنے کا حق ہر شخص کو حاصل ہونا چاہیے، لیکن قانون کو ہاتھ میں لینے والا کسی رعایت کا مستحق نہیں ہے۔ یہ سو نہیں ہزار باتوں کی ایک بات ہے جسے ہر ادارے کو پلے باندھ لینا چاہیے۔

بشکریہ: روز نامہ پاکستان

مجیب الرحمن شامی
Latest posts by مجیب الرحمن شامی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مجیب الرحمن شامی

یہ کالم روز نامہ پاکستان کے شکریے کے ساتھ شائع کیا جاتا ہے

mujeeb-ur-rehman-shami has 129 posts and counting.See all posts by mujeeb-ur-rehman-shami