رمشا اور زعیم کے بعد ارشاد رانجھانی کا بے رحم قتل، اور انصاف سوال


جب قانون انصاف موجود ہو تو اپنی عدالتیں قائم کرکے ریاست کے اندر ریاست قائم کرنا کھلی دہشت گردی ہے اور ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے کے برابر بھی ہے۔ پاکستان سمیت جیسے جیسے قومیں ترقی یافتہ ہوتی جا رہی ہیں۔ انفرمیشن ٹیکنالوجی زور پکڑتی جا رہی ہے۔ دنیا گلوبل ولیج میں تبدیل ہوگئی۔ دنیا میں جنگیں اسلحہ کی زور کے بجائے سوشل میڈیا پر پروپگینڈہ کرکے مقابلہ کیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا واٹس ایپ۔ ٹویٹر۔ فیس بوک۔ انسٹاگرام نے دنیا کو ایک جال کی طرح لوگوں کو جوڑ کر رکھ دیا ہے۔

انسانوں سے انسانیت بھی دم توڑتی جا رہی ہے۔ پہلے زمانے میں لوگ جنگلات میں نکل جاتے تھے دعا کرتے تھے کہ اللہ کرے کوئی جانور سامنے نہ آجائے انسان مل جائے۔ تب دنیا میں خوف کی علامت آدم خور جانور ہوا کرتے تھے۔ ہم بچپن میں اپنے والدین یا بزرگوں سے جب رات کو سوتے وقت کہانیاں سنتے تھے وہ ساری فرضی کہانیاں انسانیت پر مبنی ہوتی تھی۔

خیالی خوابی کہانیوں میں جانوروں بھوت اور دیوتاؤں کے ایسی ایسی مثالی اسباق ہوتے تھے اس وقت تو وہ مزا دینی والی کہانیاں تھی مگر اب پتا چلتا ہے کہ ان کہانیوں میں اب جانوروں بھوتوں کی جگہ انسانوں نے لے رکھی ہے۔ ہر طرف مار دھاڑ۔ افرا تفری اور خوف و ہراس دہشت پھیل چکی ہے۔ اب انسان کسی اور جانور آدم خور سے نہیں ڈرتا ہر وقت دعا کرتا ہے اے اللہ انسان کے شر ظلم جبر بربریت سے بچا۔ یہی وجہ ہے کہ حال ہی میں کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جنہوں نے انسانیت کا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔

جب ایسے واقعات سننے دیکھنے پڑھنے کو ملتے ہیں تو پتھر دل انسان بھی خون کے آنسوؤں رونے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ چاہیے وہ واقعات ملک کے کسی کونے میں ہی کیوں نہ ہو۔ ساہیوال سانحہ کے بعد سندھ میں بھی حال ہی میں ایسے قتل و غارتگری کے واقعات رونما ہوئے ہیں یقین جانیں جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ حال ہی میں کراچی کے سچل گوٹھ علاقے میں نوجوان زعیم شر بلوچ کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے قتل کردیا۔ مقتول نوجوان کی لاش لینے کے لئے اس کے چچا، بھائی اور کار ڈرائیور کراچی جا رہے تھے کہ راستے میں حادثے کا شکار ہو گئے جس کی وجہ سے تینوں افراد بھی جاں بحق ہوگئے۔

یہ ایک ایسا واقعہ پیش آیا ایک قتل اسی گھر کے مزید تین افراد حادثے کے شکار ہوگئے۔ جب ایک ہی گھر سے چار میتیں اٹھائی گئی تھی اس وقت گھر کیا گاؤں اور علاقہ ہی قیامت صغریٰ کا منظر پیش کر رہا تھا۔ اس کے ٹھیک کچھ روز بعد خیرپور کے نواحی علاقے کنب گاؤں نواب خان وسان جو کہ سابق ایم این اے نواب وسان اور سابق صوبائی وزیر منظور وسان کا آبائی گاؤں ہے۔ ایک نامور وسان برادری کے ڈاکو ذوالفقار وسان عرف زلو وسان نے پسند کی شادی کرنے کی کوشش کرنے والی 13 سالہ رمشا وسان کو اس کے گھر گھس کر ماں کے سامنے گولیوں سے چھلنی کردیا۔ رمشا وسان کا قصور یہ تھا کہ وہ دوسرے گاؤں کے ایک لڑکے جس تعلق بھی وسان کمیونٹی سے تھا پسند کرتی تھی اور اسی سے ہی شادی کرنا چاہتی تھی۔ لیکن وہاں کے ذرائع اور پولیس کے مطابق وسان برادری کے بڑوں نے کہا کہ اس گاؤں کی لڑکی دوسرے گاؤں میں نہیں جائے گی۔

پہلے تو ایک ہفتہ تک رمشا وسان کو اغوا کیا گیا۔ اس کے ساتھ ایک ہفتے تک مبینہ جنسی زیادتی کی گئی جب اسے واپس کیا گیا تو ملزمان نے دوبارہ اسے اٹھانے کے بجائے گھر میں داخل ہو کر گولیاں مار کر ہمیشہ کے لئے موت کی نیند سلادیا۔ سندھ میں رمشا وسان کے دل ہلانے جیسے قتل کے خلاف سوشل میڈیا پر آواز اٹھنے کے بعد قومی میڈیا نے بھی آواز اٹھائی تو پولیس کو ہمت ملی۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر نواب وسان اور سابق صوبائی وزیر منظور وسان کے گھر چھاپے مارنے کے بعد مرکزی ملزم ذوالفقار وسان عرف زلو کو گرفتار کر لیا گیا۔

ملزم کی گرفتاری کے ٹھیک ایک روز بعد کراچی میں 6 فروری کو شام کے وقت پانچ بجے بھینس کالونی کے قریب قومی شاہراہ پر ایک دل کو ہلانے جیسے واقعہ پیش آیا۔ قتل کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد سندھ سمیت ملک بھر میں سوشل میڈیا پر آگ بھڑک اٹھی۔ بھینس کالونی کے یوسی چیئرمین رحیم شاہ نے سرعام رہیو روڈ پر اپنی ویگو گاڑی روک کر سیاسی کارکن ارشاد رانجھانی چانڈیو بلوچ کو گولیاں مار کر زخمی کر دیا۔ شاہراہ پر چلتی گاڑیاں رک گئیں۔

وہ پسٹل لہرا کر ارشاد رانجھانی کے جسم میں مزید گولیاں مار کر ایسی گالیاں دے رہا تھا جس کی وجہ سے شرم سے سر ہی جھک جائیں ایک انڈین مووی فلم کا منظر پیش کر رہا تھا۔ ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے کسی فلم کی سین میں امریش پوری کسی شریف انسان کو قتل کرنے کے بعد دیدہ دلیری سے فخریہ انداز میں فخرتے ہوئے کہ رہا ہو کو اس نے ایک ڈاکو کو ہلاک کر دیا ہے۔ زخمی تڑپ کر روڈ پر ہسپتال لے جانے کی صدائیں دے رہا تھا مگر اسی وقت ارشاد رانجھانی کا بھائی بھی جائے وقوعہ پر پہنچ گیا کہ یہ اس کا بھائی ہے ڈاکو نہیں ہے اسے ہسپتال لے جانے دیا جائے مگر رحیم شاہ جو بھینس کالونی کے یوسی چیئرمین بھی ہیں نے اسے اجازت نہیں دی۔

ارشاد رانجھانی اگر ڈکیت بھی تھا تو اسے ہسپتال لے جانے سے کیوں روک دیا گیا۔ رحیم شاہ نے ملیر پولیس کو فون کرکے بتایا کہ اس نے ایک ڈاکو کو زخمی کیا ہے۔ پولیس بھی وہی تھی جو اس مافیا کی سرپرست رہی ہے۔ ارشاد رانجھانی کے خلاف شاہ لطیف ٹاؤن تھانے پر پرچہ کٹ گیا کہ وہ ڈاکو تھا اور جب مختلف تھانوں سے رکارڈ چیک کیا گیا تو قاتل ملزم رحیم شاہ کے خلاف کراچی کے مختلف تھانوں میں قتل و غارت اغوا برائے تاوان قبضہ سمیت 10 سے زیادہ سنگین قسم کے کیسز سامنے آئے جبکہ مقتول ارشاد رانجھانی کے خلاف کوئی کیس نہ مل سکا۔

بھینس کالونی کے یوسی چیئرمین رحیم شاہ نے شاہراہ پر ایسی عدالت قائم کی جس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ رحیم شاہ نے موقف اختیار کیا کہ وہ نرسری سے بینک میں سے 10 لاکھ روپے نکلوا کر پارٹنر کے ساتھ آرہے تھے کہ دو موٹر سائیکل سوار نے ان کا پیچھا کیا اور جب وہ اپنے گھر کے قریب پہنچے تو ملزمان نے روکنے کی کوشش کی اور گاڑی پر فائرنگ کردی۔ پھر موقف اختیار کیا کہ وہ دو موٹر سائیکل پر چار افراد تھے تین بھاگ گئے ایک زخمی کردیا۔ ایک قبضہ مافیا کا سرغنہ کس طرح کسی بے گناہ نوجوان کو قتل کرنے کے بعد اپنا جرم چھپا رہا تھا ایک ایسے واقعے کی جب ویڈیو وائرل ہوئی تو پہلی مرتبہ سندھ بھر میں سوشل میڈیا کے بعد عوام میں رد عمل دیکھنے کو ملا کراچی سمیت سندھ بھر میں غیر اعلانیہ احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے۔ سندھ حکومت نے نوٹس لے لیا وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ کسی کو اختیار نہیں کہ وہ دن دہاڑے کسی پر الزام عائد کرکے قتل کردے۔

جس کے بعد کراچی پولیس قاتل کو گرفتار کرنے سے کتراتی رہی۔ جب پانچویں روز ہزاروں افراد نے کارساز سانحے کی جگہ پر احتجاج کیا تو ملیر پولیس نے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو کر ملزم رحیم شاہ کو گرفتار کر لیا۔ ملیر وہی پولیس ہے جس نے ارشاد رانجھانی کو ہسپتال منتقل کرنے کے بجائے شاہ لطیف ٹاؤن تھانے پر دو گھنٹے ضائع کردیئے اور یوں ہسپتال جانے سے قبل ہی ارشاد رانجھانی زندگی کی بھیک مانگتے ہوئے موت کی نیند سو گئے۔

یہ وہی ملیر پولیس ہے جس کا 15 سال تک ایس ایس پی راؤ انوار تھا جس نے قبضہ مافیا کو تحفظ دیتے ہوئے نقیب اللہ محسود سمیت 450 سے زیادہ لوگوں کو جعلی مقابلوں میں موت کا مزا چکھا دیا تھا جب نقیب اللہ محسود بے گناہ ثابت ہوا تو پشتون کیا پورا پاکستان سراپا احتجاج بن گیا یوں مرکزی ملزم راؤ انوار گرفتار ہوگیا۔ اس کے بعد قصور میں بچی زینب کا واقعہ پیش آیا پنجاب کیا چاروں صوبوں میں سوگ تھا۔ قاتل کے گرفتار اور پہانسی تک خاموش نہ رہے اس کے بعد کراچی میں زعیم شر بلوچ قتل ہوا کسی کے کان میں جوں بھی نہ رینگی۔

جب خیرپور میں 13 سالہ بچی رمشا وسان قتل ہوئی تو چاروں صوبوں میں جو رد عمل انا تھا وہ صرف سندھ بھر میں نظر آیا اور اب جب ارشاد رانجھانی قتل ہوا تو صرف سندھ میں شدید احتجاج اور ردعمل سامنے آیا۔ کوئی تو اسے سندھی پٹھان تکرار پیدا کرنے کی سازش کر رہے تھے۔ پاکستان ایک جسم کی مانند ہے۔ جسم کے جس حصے میں بھی درد ہو یا تکلیف پہنچے تو پورے جسم پاکستان میں آواز اٹھنی چاہیے نہ کی وہی حصہ درد کی وجہ سے تکلیف میں ہو۔

آج ارشاد رانجھانی کے قتل کے خلاف سندھی لوگ اکیلے آواز اٹھا رہے ہیں کل کسی اور قوم اور صوبے شہر میں کوئی اور نقیب اللہ محسود۔ کوئی اور ارشاد رانجھانی قتل ہوسکتا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ کل آپ کو تنہا رونا پڑے اور ہم ایک قوم چار حصوں میں بٹ جائیں۔ پاکستانی قوم میں لکیر نہ کھینچی جائے۔ قوم کو قوم ہی رہنے دیا جائے۔ قاتل کوئی بھی ہو۔ اسے سزا ملنی چاہیے۔ مقتول کسی بھی صوبے کا ہو اس کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے۔ اب گیند حکومت کی کورٹ میں ہے کہ وہ مقتولہ رمشا وسان، زعیم شر بلوچ اور ارشاد رانجھانی کے ساتھ انصاف کرتی ہے یا نہیں ؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).