شکنتلا اچانک غائب کیوں ہو گئی؟


بھوربن میں ایک مہینے کے قیام کے لئے رہائش کا بندوبست ایک مہربان نے کیا تھا۔ راجا انور کامیاب بزنس مین تھے۔ برسوں پہلے کاروبار کی خاطر لاہور منتقل ہوگئے تھے۔ اب تو ان کا بزنس انگلینڈ تک پھیل چکا تھا لہٰذا ان کا ایک قدم لندن میں ہوتا تھا اور ایک لاہور میں۔ اس کے باوجود گرمی کا سیزن وہ اپنے بھوربن والے بنگلے میں ہی گزارتے تھے۔

ان سے بات ہوئی تو انہوں نے فوراً آفر کر دی کہ میرے بنگلے میں رہو۔ آج کل خالی ہے۔ چناں چہ جب میں بنگلے تک پہنچا تو دور پہاڑوں پر ڈوبتا سورج سرخی بکھیرتا دکھائی دے رہا تھا۔ شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے۔ نوازش کو میری آمد کی اطلاع مل چکی تھی اس نے صفائی وغیرہ کر دی تھی۔ وہ اس بنگلے کا کئیر ٹیکر تھا۔ اس نے میرا بیگ اندرپہنچایا۔ آتش دان میں لکڑیاں جل رہی تھیں۔ میں اس کے ساتھ بنگلے کے مختلف کمروں کا جائزہ لے رہا تھا۔

”صاحب! کچن میں کھانے پینے کا سامان اور گیس سیلنڈر بھی موجود ہے۔ آپ خود چائے وغیرہ بنانا چاہیں تو مسئلہ نہیں ہو گا۔ میں ادھر بنگلے کے ساتھ والے ہٹ میں ہوں گا۔ جب مجھے آواز دیں گے کھانا وغیرہ بنانے کے لئے آ جاؤں گا۔ “ نوازش نے کہا۔ ”او کے۔ مجھے جب بھی ضرورت ہو گی تمہیں بلا لوں گا۔ لیکن ابھی میں آرام کروں گا۔ “ میں نے جواب دیا۔ ”ٹھیک ہے صاحب؛ آپ آرام کریں میں کھانا بنا لیتا ہوں، آپ کے لئے کیا بناؤں؟ “

” کچھ بھی بنا لو، چاول وغیرہ۔ “ میں نے چلتے چلتے کہا۔ ہم واپس لاؤنج میں آ گئے تھے۔ سامنے دیوار پر چھ سات برس کی ایک بچی کی تصویر لگی تھی۔ تصویر زندگی سے بھرپور تھی۔ بچی ہنستے ہوئے برف کا گولا کسی کی طرف پھینک رہی تھی پس منظر میں پہاڑوں پر برف نظر آ رہی تھی۔ ”یہ راجا صاحب کی بیٹی کی تصویر ہے۔ “ نوازش نے مجھے تصویر کی طرف دیکھتے پایا تو بولا۔

راجا صاحب کی بیٹی تو بڑی ہے ؛ کیا یہ اسی کی تصویر ہے؟ میں نے حیرت سے کہا۔ ”ہاں صاحب یہ تو پندرہ سولہ برس پہلے کی تصویر ہے۔ نوازش نے بتایا۔ “ اوہ تو یہ بات ہے۔ اچھا میں بیڈ روم میں جا رہا ہوں۔ کھانا دو گھنٹے بعد کھاؤں گا۔ ”نوزش نے سر ہلا دیا۔ بیڈ پر لیٹ کر میں اپنے مقصد کے بارے میں سوچنے لگا۔ فروری کا مہینا تھا۔ مجھے مارچ کے دوسرے ہفتے تک یہاں قیام کرنا تھا۔ سوچتے سوچتے اونگھ آ گئی۔ آنکھ کھلی تو وقت دیکھا۔ آٹھ بجے تھے۔ طبیعت کچھ مضمحل تھی۔

بہر حال تازہ دم ہو کر ڈائننگ روم میں آیا۔ کچن سے اشتہا انگیز خوشبو آ رہی تھی۔ چند منٹ بعد نوازش کھانا لے کر آ گیا۔ اس نے پلاؤ کے ساتھ مٹن قورمہ بھی بنا دیا تھا۔ دیگر لوازمات کے ساتھ گرم گرم روٹیاں بھی تھیں۔ میں نے اعتراض کیا کہ اتنے اہتمام کی ضرورت نہیں لیکن نوازش نے بتایا کہ راجا صاحب کی خاص ہدایت ہے کہ کسی طرح کی کوئی کمی نہ ہو۔ میں خاموش ہو گیا۔ کھانے کے بعد نوازش اپنے ہٹ میں چلا گیا اور میں اس بڑے سے بنگلے میں تنہا رہ گیا۔

اپنے کمرے میں جا کر میں نے لیپ ٹاپ کھولا تا کہ کام کا آغاز کروں۔ کافی دیر تک سوچتا رہا کہ آغاز کہاں سے کروں۔ ذہن میں ایک آئیڈیا تھا مگر ابتدا نہیں کر پا رہا تھا۔ راجا صاحب کی بیٹی کے بارے میں سوچنے لگا۔ راجا صاحب نے ایک بار بتایا تھا کہ وہ یونیورسٹی میں پڑھ رہی ہے۔ راجا صاحب کی اپنی بیوی سے کبھی نہیں بنی۔ شاید اسی لئے ان کی ساری توجہ بزنس بڑھانے پر مرکوز تھی۔ جب کافی دیر تک کچھ نہ سوجھا تو میں نے لیپ ٹاپ بند کیا اور بستر پر دراز ہو گیا سوچا اتنی جلدی کیا ہے کل سے سہی۔ پھر مجھے نیند آ گئی۔

رات بارہ بجے کا وقت ہو گا۔ جب کسی شور سے میری آنکھ کھلی۔ ایک دم ساری حسیات بیدار ہو گئیں۔ رات کے اس وقت کون ہو سکتا ہے؟ کوئی چور نہ ہو۔ میں پوری طرح الرٹ ہو کر آوازوں کی نوعیت پر غور کرنے لگا۔ کسی کے بولنے کی آواز تھی اور ساتھ برتنوں کی کھنک بھی تھی۔ یہ کوئی اور ہے۔ میں نے سوچا پھر دبے پاؤں آوازوں کی سمت چلا۔ ڈائننگ روم میں دو لوگ موجود تھے۔ وہ کھانا کھا رہے تھے اور باتیں کر رہے تھے۔ بیس بائیس برس کی لڑکی اور اس کا ہم عمر نوجوان۔ میں نے لڑکی کو غور سے دیکھا تو اس کے نقوش تصویر والی بچی جیسے محسوس ہوئے۔ شاید اس نے بھی میری موجودگی کو محسوس کر لیا تھا۔ اس نے میری طرف دیکھا مگر چونکنے کے بجائے کچھ شرمندہ سی ہو گئی۔

”آپ جاگ گئے، در اصل ہم آپ کو ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتے تھے۔ “ اس نے معذرت خواہانہ لہجے میں کہا۔ ”لیکن آپ۔ راجا صاحب کی؟ “

”ہاں میں ان کی بیٹی ہوں۔ آئیے ناں، آپ کچھ کھائیں گے؟ “ اس نے پوچھا۔ ”نہیں میں کھانا کھا چکا ہوں۔ “ میں نے کہا۔ ”تو چائے بنا دوں؟ “ اس نے پوچھا۔ ”نو تھینکس! میری آنکھ کھلی تو آ پ کی آوازیں سن کر ادھر آ گیا۔ “

”سوری! اچھا آپ آرام کیجئے میں آپ سے کل تفصیل سے بات کروں گی۔ “ وہ جیسے خود مجھ سے جان چھڑانا چاہتی تھی۔ اس دوران نوجوان خاموشی سے کھانا کھانے میں مصروف تھا۔ میں نے سر ہلایا اور واپس آ گیا۔ یہ لڑکی بھی عجیب ہے۔ راجا صاحب کو اس بارے میں پتہ نہیں علم ہے یا نہیں۔ میں یہی سوچتے سوچتے ایک بار پھر سو گیا۔

صبح آنکھ کھلی تو رات کا واقعہ یاد آیا لیکن جب تازہ دم ہو کر واش روم سے نکلا تو سوچ رہا تھا کہ شاید میں نے خواب دیکھا ہے بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ راجا صاحب کی بیٹی یوں رات بارہ بجے گھر آئے۔ ناشتے کی میز پر پہنچا تو نوازش نے پھر اہتمام کر رکھا تھا۔ بریڈ، جام، بٹر کے ساتھ پراٹھے اور آملیٹ بھی تھا۔ چائے کافی بھی موجود تھی۔ ”صاحب ناشتہ لگا دیا ہے۔ اب میں جاتا ہوں۔ “ نوازش یہ کہہ کر چلتا بنا اور میں سوچنے لگا کہ یہ ناشتہ میری ضرورت سے کہیں زیادہ ہے۔ نوازش کو منع کرنا چاہیے کہ ضرورت کے مطابق ہی کام کیا کرے۔

ناشتے کا آغاز کرنے ہی والا تھا کہ کسی کی چہکتی آواز سنائی دی۔ ”گڈ مارننگ“ میں نے چونک کر دیکھا۔ راجا صاحب کی بیٹی ڈائننگ روم میں آ گئی تھی۔ ”تم۔ ؟ “ میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے خواب نہیں دیکھا تھا۔ اس کی موجودگی ایک حقیقت تھی۔ البتہ اب وہ اکیلی نظر آ رہی تھی نوجوان اس کے ساتھ نہیں تھا۔ ”آپ اتنے حیران کیوں ہو رہے ہیں، میں نے کہا تھا ناں صبح بات ہو گی۔ “ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔

” بیٹھو“ میں نے کرسی کی طرف اشارہ کیا۔ یہ بات نہیں، وہ لڑکا تمہارے ساتھ نہیں ہے، کیا وہ ناشتہ نہیں کرے گا۔ لڑکی میری بات سن کر جھینپ سی گئی۔ ”نہیں وہ چلا گیا ہے۔ ہم بعد میں اس بارے میں بات کریں گے کیوں کہ ناشتہ ٹھنڈا ہو رہا ہے۔ “ وہ بولی۔ چناں چہ ہم چپ چاپ ناشتہ کرنے لگے۔ چائے کے کپ لے کر ہم ٹیرس پر آ گئے۔ سنی ڈے تھا۔ چمکیلی دھوپ چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔ میں نے اسے دیکھا تو ایسا لگا کہ وہ اپنے بچپن میں جتنی کیوٹ تھی نوجوانی میں اس سے کہیں زیادہ حسین لگ رہی تھی۔ بلیک جینز کے ساتھ بلیک جیکٹ اور شانوں پر لہراتے براؤن بال اس کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے تھے۔ تب مجھے خیال آیا کہ میں نے راجا صاحب سے کبھی ان کی بیٹی کا نام نہیں پوچھا تھا۔

” آپ میرے بارے میں سوچ رہے ہیں ناں، میرا نام شکنتلا ہے۔ شاید میرے ابو نے آپ کو میرے بارے میں بتایا ہو۔ “ اس نے جیسے میری سوچ پڑھ لی تھی۔ ”بتایا تو تھا مگر نام نہیں بتایا تھا۔ یہ نام کچھ نامانوس سا ہے۔ “ میں نے کہا۔ ”لیکن مجھے بہت پسند ہے، مجھے عام چیزیں، عام لوگ اور عام نام اچھے نہیں لگتے۔ میرا نام منفرد ہے اسی لئے مجھے اچھا لگتا ہے۔ “ وہ بولی۔ ”تم تو شاید اسلام آباد کی یونیورسٹی میں پڑھتی ہو، پھر یہاں کیوں؟ اور وہ لڑکا؟ کیا وہ تمہارا کلاس فیلو ہے؟ “

میرے سوالات س پر اس نے ایک گہری سانس لی اور بولی۔ ”میں آپ کے سب سوالوں کے جوابات دوں گی۔ فی الوقت صرف اتنا جان لیجیے کہ وہ میرا دوست ہے اور چند دن ہم بھی یہاں رہیں گے۔ وہ ایک ضروری کام سے گیا ہے شام تک آ جائے گا لیکن میری آپ سے ایک درخواست ہے براہِ کرم ابھی میرے ابو کو اس بارے میں کچھ نہ بتائیے گا۔ “ وہ بے حد سنجیدہ نظر آ رہی تھی۔ میرے لئے یہ بہت مشکل صورتِ حال تھی۔ راجا صاحب میرے مہربان تھے ان کو بتانا میں اپنا فرض سمجھتا تھا لیکن شکنتلا کی درخواست رد کرنا بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا۔

بہر حال شکنتلا نے کہا تھا کہ ابھی نہ بتائیے یعنی چند دن میں غور کر سکتا تھا کہ کیا کرنا چاہیے۔ چناں چہ میں نے اس سے وعدہ کر لیا کہ کہ فی الحال اس حوالے سے خاموش رہوں گا۔ اس نے شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ وہ اپنے کمرے میں جا رہی ہے ٹی وی وغیرہ دیکھنے۔ میں نے سوچا کہ اب مجھے بھی اپنا کام کرنا چاہیے لہٰذا کمرے میں آ کر لیپ ٹاپ کھولا۔

ایڈیٹر صاحب نے مجھے چھ مہینے کا وقت دیا تھا اور صرف ایک مہینا بچا تھا۔ شہر کے ہنگامے ناول کی تکمیل میں حائل تھے یا کوئی اور وجہ تھی حتمی طور پر میں بھی اس سے لا علم تھا۔ ایسے میں پھر ناراضی بھری فون کال موصول ہوئی تو میں نے سوچا کہ کسی پر سکون جگہ پر کچھ عرصہ قیام کیا جائے اور پوری یکسوئی سے ناول لکھا جائے۔ اب شکنتلا کی موجودگی کیا رخ اختیار کرے گی ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا تھا۔

لکھنے بیٹھا تو لفظ ذہن میں اترنے لگے تین چار گھنٹے گزر گئے اور مجھے پتہ بھی نہ چلا۔ میرا انہماک اس وقت ٹوٹا جب میرے نتھنوں سے انتہائی مسحورکن خوشبو ٹکرائی۔ شکنتلا کمرے میں آئی تھی۔ ”سوری میں بور ہو رہی تھی۔ میں آپ کے کام میں خلل نہیں ڈالنا چاہتی۔ “ اس نے کہا۔ ”نہیں نہیں مجھے بھی بریک کی ضرورت تھی۔ چلو کہیں باہر چلتے ہیں۔ “ میں نے کہا۔ شکنتلا خوش ہو گئی۔

ہم باہر نکلے اور قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے پیدل چلتے رہے۔ پہاڑی علاقوں میں جگہ جگہ خوبصورتی بکھری ہوئی ہوتی ہے۔ ہم علاقے کے حسن سے متاثر تھے۔ ایک ریسٹورانٹ نظر آیا تو شکنتلا رک گئی۔ مجھے چائے کی طلب محسوس ہو رہی تھی۔ شکنتلا کی طرف دیکھا تو وہ مسکرا اٹھی چناں چہ ہم ریسٹورانٹ میں بیٹھ گئے۔

بیرا ہونق سا آدمی تھا۔ میں نے اسے دو کپ چائے لانے کے لئے کہا تو عجیب سی نظروں سے مجھے تکنے لگا۔ ”لگتا ہے تم بہرے بھی ہو، بھئی چائے لاؤ۔ “ میں نے دوبارہ کہا۔ تو جیسے اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ جلدی سے آگے بڑھ گیا۔ شکنتلا ہنسنے لگی۔ ہنستے ہوئے وہ بڑی پیاری لگ رہی تھی۔ میں اس کے دوست کے بارے میں سوچنے لگا۔ اس کے بارے میں پوچھنا چاہتا تھا مگر شکنتلا سے کیا ہوا وعدہ یاد آ گیا کہ ابھی اس کے بارے میں کوئی سوال نہیں کروں گا لہٰذا خاموش رہا۔ چائے پینے کے بعد ہم واپس آ گئے۔ کچن سے کھانے کی خوشبو اٹھ رہی تھی۔ ہمیں دیکھ کر نوازش کھانا لگانے لگا۔ شکنتلا بالکل خاموش سی تھی۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے نوازش کی موجودگی میں وہ کمفرٹیبل نہیں تھی۔ میں نے ایک دو بار اس سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے جوابات محض ہوں ہاں تک محدود رہے۔

کھانے کے بعد وہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔ میں نے بھی اپنے بیڈ روم میں جا کر لکھنا شروع کیا۔ شام ہوئی تو آوازوں سے اندازہ ہوا کہ نوجوان واپس آ گیا ہے۔ اگرچہ کسی کی جاسوسی کرنا اچھی بات نہیں لیکن تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر میں چپکے سے اپنے کمرے سے نکلا اور آوازوں کا تعاقب کیا۔ آوازیں ٹیرس کی طرف سے آ رہی تھیں۔ میں ایک محفوظ فاصلے سے انہیں دیکھنے لگا۔ وہ خوش گپیوں میں مصروف تھے انہیں آس پاس کی کوئی خبر نہ تھی۔

پھر وہ اندر آ گئے اور لاؤنج میں ٹی وی آن کر کے بیٹھ گئے۔ میں اندازہ لگا سکتا تھا کہ ٹی وی محض ایک بہانہ تھا۔ وہ ایک دوسرے کی رفاقت سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ وہ صوفے پر اس طرح بیٹھے تھے کہ شکنتلا نوجوان کے بازوؤں میں تھی۔ شکنتلا کی نظریں ٹی وی پر تھیں جبکہ نوجوان کی توجہ کا مرکز شکنتلا تھی۔ پھر جب وہ زیادہ رومینٹک موڈ میں آئے تو میں اپنے کمرے میں آ گیا۔

رات کے کھانے کے لئے جب ڈائننگ روم میں پہنچا تو وہ دونوں پہلے سے میز پر موجود تھے۔ میں چند رسمی باتوں کے بعد نوجوان کی طرف متوجہ ہوا تو مجھے شکنتلا کی تنبیہی نگاہوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مطلب یہ کہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ میں اس سے زیادہ بات کروں۔ ”شکنتلا کھانے کے بعد چائے پیو گی؟ “ میں نے پوچھا۔ ہاں میں پیوں گی مگر یہ نہیں پئے گا، یہ رات کو چائے پی لے تو پھر اسے رات بھر نیند نہیں آتی۔ ”شکنتلا نے فوراً کہا۔

” کوئی بات نہیں میں جاگ سکتا ہوں۔ میں بھی چائے پیوں گا۔ “ نوجوان نے شوخی سے کہا۔ ”میں نے نہیں کہہ دیا ناں، اب چپ رہو۔ “ شکنتلا نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔ اسی دوران میں نے محسوس کیا کہ میز کے نیچے اس نے نوجوان کے پاؤں پر پاؤں مارا۔ نوجوان کے منہ سے ایک آواز نکلی۔ ”کیا ہوا؟ “ میں نے فوراً پوچھا۔ کچھ نہیں شاید میرے پاؤں پر کسی کیڑے نے کاٹا ہے۔ نوجوان نے جلدی سے کہا۔ شکنتلا پھر اسے گھورنے لگی۔

نوازش کھانا سرو کرنے لگا۔ ”نوازش میاں کھانے کے بعد ہمیں چائے بھی چاہیے، شکنتلا بی بی بھی چائے پئیں گی۔ “ نوازش نے میری طرف عجیب سی نظروں سے دیکھا۔ ”جی کیا کہا صاحب؟ “

” چائے بھی بنا لو اب سمجھے۔ “ میں نے ذرا تیز لہجے میں کہا۔ ”جی سمجھ گیا“ وہ جلدی سے کچن میں گھس گیا۔ ہم ہنسنے لگے۔ اس رات میں جلدی سو گیا۔ صبح ناشتے پر پھر شکنتلا اکیلی تھی نوجوان شاید پھر نکل گیا تھا۔ میں اسے سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ فیصلہ یہ ہوا کہ دوپہر کے کھانے کے بعد ہم باہر جائیں گے۔ میں نے اس وقت کو ناول لکھنے کے لئے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا اور کام میں مصروف ہو گیا۔ پھر دو بجے کے قریب شکنتلا نے مجھے کمرے میں آ کر کھانے کے لئے بلایا۔

ہم باتیں کرتے ہوئے ڈائننگ روم میں داخل ہوئے تو نوازش کھانا لگا کرپانی رکھ رہا تھا۔ مجھے وہ کچھ ڈرا ڈرا سا لگا۔ ہم کھانے کے لئے بیٹھے تو میں نے نوازش سے پوچھا۔ ”کیا بات ہے میاں کوئی مسئلہ ہے کیا؟ “

” کچھ نہیں صاحب! میں بالکل ٹھیک ہوں۔ “ اس نے فوراً کہا لیکن مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کچھ چھپا رہا ہے۔ میں نے زیادہ کریدنا مناسب نہیں سمجھا اور کھانا کھانے لگا۔ کھانے کے بعد ہم باہر نکلے۔ آج لمبی واک کا ارادہ تھا۔ پہلے تو ارد گرد کے علاقے میں ٹہلتے رہے پھر دیول کی سمت چلنے لگے۔ کافی دور نکل گئے اس دوران ڈھیر ساری باتیں ہوئیں بس ایک مسئلہ تھا کہ شکنتلا اپنی ذات کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتی تھی۔ میں کچھ پوچھنے کی کوشش کرتا تو خاموش ہو جاتی۔

واپسی پر معمول کے مطابق ڈنر کے بعد میں اپنے کمرے میں چلا گیا۔ آج دیر تک لکھنے کا ارادہ تھا۔ شاید گیارہ بجے کا وقت رہا ہو گا جب ہلکی سی آہٹ ہوئی۔ چونک کر مڑا تودل دھک سے رہ گیا۔ شکنتلا جانے کب سے بالکل میری کرسی کے پیچھے کھڑی میری تحریر پڑھ رہی تھی۔ اس وقت اس کا چہرہ اور آنکھیں بہت عجیب سی لگ رہی تھیں۔

”شکنتلا تم کب آئیں؟ تم نے تو مجھے ڈرا ہی دیا۔ “ میں نے شاید خفت مٹانے کے لئے کہا لیکن وہ شکنتلا جو بات بات پر مسکراتی تھی بڑی سنجیدہ لگ رہی تھی۔ وہ عجیب سی نظروں سے مجھے گھورتی رہی۔ ایک لفظ نہیں بولی۔ ”شکنتلا کیا ہوا؟ کچھ تو بولو؟ “ میں نے اٹھ کر اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ”یہ آپ کیا کر رہے ہیں۔ میری کہانی لکھ رہے ہیں، آپ کیا چاہتے ہیں، مجھے رسوا کرنا چاہتے ہیں۔ “ اس نے غصے سے کہا۔

”شکنتلا۔ مجھے غلط مت سمجھو۔ میں بس ایک کہانی لکھ رہا ہوں، تمہارا نام کہیں نہیں آئے گا۔ میں نے نام اور مقام بھی بدل دیا تھا تمہیں۔ “ میں کچھ اور بھی کہتا لیکن وہ چیخ اٹھی۔ ”نہیں یہ میری کہانی ہے۔ آپ ایسا نہیں کر سکتے اور اگر آپ نے ایسا کیا تو آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ میں آپ کے ساتھ کیا کروں گی، آپ بہت پچھتائیں گے مگر تب بہت دیر ہو چکی ہوگی۔ “ اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ وہ غصے کی شدت سے کانپ رہی تھی۔

میں اسے تسلی دینے کے لئے اس کی طرف بڑھا تو پھر چیخ اٹھی۔ ”میرے قریب مت آئیے، میں کچھ کر بیٹھوں گی۔ “

” دیکھو تم زیادہ جذباتی ہو رہی ہو۔ ہم بیٹھ کر بات کر سکتے ہیں، ابھی کچھ نہیں بگڑا، تمہیں نہیں لگتا کہ تم اوور ری ایکٹ کر رہی ہو۔ “ میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔ میں ابھی آپ سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتی، صبح بات ہو گی۔ وہ پاؤں پٹختے ہوئے چلی گئی۔ میں اس نئی مصیبت کے بارے میں سوچنے لگا۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں۔ پھر میں نے راجا صاحب سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔

وٹس ایپ کال مل گئی۔ راجا صاحب کی چہکتی آواز سنائی دی تو میں نے گھمبیر لہجے میں کہا کہ راجا صاحب آُپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے۔ شاید انہوں نے میرے لہجے پر زیادہ غور نہیں کیا اور بولے۔ ”فکر نہ کرو، ساری باتیں کل ہوں گی۔ سوچا تھا تمہیں سر پرائز دوں گا مگر تمہاری کال آ گئی ہے تو بتا دیتا ہوں میں اسلام آباد ائیر پورٹ پر اتر چکا ہوں۔ کل صبح ناشتے پر ملاقات ہوگی۔ “ اب میں اور کیا بات کرتا۔ کال منقطع ہو گئی۔

ساری رات کروٹیں بدلتا رہا۔ صبح تیار ہو کر ڈائننگ روم میں آیا تو سوچ رہا تھا کہ پتہ نہیں شکنتلا کا موڈ کیسا ہو گا۔ وہ ابھی نہیں آئی تھی۔ نوازش ناشتہ بنا رہا تھا۔ میں کچھ دیر کرسی پر بیٹھا اس کا انتظار کرتا رہا پھر سوچا کہ اس کے کمرے میں جا کر اسے بلاتا ہوں وہ شدید ناراض تھی۔ اس سے بات کرنا بہت ضروری تھا۔ اٹھ کر اس کے کمرے کی طرف بڑھا دروازے پر ہلکی سی دستک دی۔ کوئی جواب نہ ملا۔ دو تین بار دستک دی۔ خاموشی طاری تھی۔

آخر میں نے دستک دیتے ہوئے آواز دی۔ ”شکنتلا۔ شکنتلا۔ دروازہ کھولو۔ “ شاید وہ بہت زیادہ ناراض تھی نہ بول رہی تھی نہ دروازہ کھول رہی تھی۔ اچانک ایک خوفناک خیال آیا کہیں اس نے کچھ کر نہ لیا ہو۔ بے چین ہو کر دروازے کو دھکیلا، دروازہ کھلا ہوا تھا۔ بیڈ خالی تھا۔ شکنتلا وہاں نہیں تھی۔ شاید واش روم میں ہو۔ میں نے واش روم کا دروازہ بجایا اسے آوازیں دیں مگر کوئی جواب نہ ملا۔ ایک عجیب سا احساس ہو رہا تھا۔ واش روم کا دروازہ بھی کھول دیا۔ وہ یہاں بھی نہیں تھی۔ کہاں چلی گئی وہ۔ میں نے پھر کمرے کا جائزہ لیا۔ کمرے میں اس کی موجودگی کے آثار تک نہ تھے۔ شدید پریشانی کے عالم میں ڈائننگ روم میں آیا تو ناشتہ لگ چکا تھا اور عین اسی وقت ڈور بیل بجی۔

دروازہ کھلا اور راجا صاحب اندر آ گئے۔ ان کے ساتھ ایک نوجوان لڑکی بھی تھی۔ راجا صاحب ہنستے مسکراتے مجھ سے گلے ملے۔ لڑکی نے مجھے سلام کیا۔ میں سلام کا جواب دیا اور راجا صاحب سے کہا کہ مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے۔ ”تم فون پر بھی یہی کہہ رہے تھے، اب ہم آ گئے ہیں باتیں ہی ہوں گی لیکن تم پریشان لگ رہے ہو ہوا کیا؟ “ راجا صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں ہنستے ہوئے کہا۔

میں اس قدر پریشان تھا کہ ان کے ساتھ نوجوان لڑکی کو نظر انداز کرتے ہوئے بولا۔ ”مجھے آپ کی بیٹی کے بارے میں بات کرنی ہے۔ “ راجا صاحب چونک اٹھے۔ ”میری بیٹی کے بارے میں کیا بات کرنی ہے، تم تو اسے کبھی ملے ہی نہیں۔ “

”میں آپ کی بیٹی شکنتلا سے مل چکا ہوں اور وہ مجھ سے ناراض ہو کر کہیں چلی گئی ہے۔ در اصل میں۔ “

” تم کس کی بات کر رہے ہو۔ “ راجا صاحب نے میری بات کاٹتے ہوئے شدید حیرت سے کہا۔ ”میری بیٹی تو یہ ہے تمہارے سامنے۔ “

میں نے چونک کر اس نوجوان لڑکی کی طرف دیکھا۔ اب غور کیا تو ایسا لگا کہ اس کی شکل بھی اس برف سے کھیلتی بچی کی تصویر جیسی تھی لیکن شکنتلا جتنی خوبصورت نہیں تھی۔ ”میں اس کی بات نہیں کر رہا ہوں راجا صاحب! میں شکنتلا کی بات کر رہا ہوں۔ آپ کی دوسری بیٹی۔ “ میں نے الجھ کر کہا۔

” ابو آپ کی کوئی اور بیٹی بھی ہے؟ “ لڑکی بول اٹھی۔ راجا صاحب کی ہنسی کو بریک لگ گئی۔ ”تم چپ رہو۔ ہاں تم بتاؤ تم کس شکنتلا کی بات کر رہے ہو۔ کیوں کہ تم جانتے ہو میری ایک ہی بیٹی ہے اور اس کا نام عائشہ ہے۔ “ راجا صاحب کی بات سن کر عائشہ بھی سر ہلانے لگی۔ میرے دماغ میں دھماکے سے ہو رہے تھے۔ میں سے نوازش کو آواز دی۔ نوازش ادھر آؤ، بتاؤ ذرا اس کمرے میں کون سی لڑکی رہ رہی تھی۔ وہ شکنتلا تھی جس کے لئے تم ناشتہ اور کھانا بھی بناتے رہے ہو۔ یہاں ڈائننگ ٹیبل پر میرے ساتھ ہوتی تھی۔

”صاحب آپ کس کی بات کر رہے ہیں۔ آپ تو اکیلے ہی رہ رہے تھے۔ میں نے تو آپ کے ساتھ کبھی کسی کو نہیں دیکھا۔ “ نوازش نے فوراً کہا اور میرا سر گھوم گیا۔ یہ جھوٹ کیوں بول رہا ہے۔ شاید شکنتلا نے اسے منہ بند رکھنے کے لئے پیسے دیے ہوں۔ میں فوراً دروازے کی طرف بڑھا۔

کہاں جا رہے ہو، ناشتہ تو کر لو۔ راجا صاحب نے آواز لگائی لیکن میں نہیں رکا۔ میں شکنتلا کو ڈھونڈنا چاہتا تھا۔ آس پاس جہاں جہاں ہم گئے تھے میں وہاں وہاں اسے پاگلوں کی طرح ڈھونڈ رہا تھا۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ اچانک کہاں غائب ہو گئی ہے۔ پھر مجھے اس ریسٹورانٹ کا خیال آیا جہاں ہم نے چائے پی تھی۔ امید کی کرن چمکی وہ بیرا تو جھوٹ نہیں بولے گا وہ ضرور بتائے گا۔ میں ریسٹورانٹ کی طرف بڑھنے لگا۔ میرے پاس موبائل بھی ہوتا تھا۔ کاش میں نے شکنتلا کی کوئی تصویر ہی بنا لی ہوتی۔ خیر میں تیز تیز چلتا ہوا ریسٹورانٹ پہنچا۔

وہ بیرا مجھے فوراً ہی نظر آ گیا۔ ”مجھے پہچانتے ہو؟ “ میں نے جاتے ہی سوال کیا۔ ”جی ہاں آپ چند دن پہلے یہاں چائے پینے آئے تھے، دیر تک بیٹھے رہے تھے۔ میں آپ کو کیسے بھول سکتا ہوں۔ “ اس نے گھبرا کر کہا۔ ”تو پھر تمہیں وہ لڑکی بھی یاد ہو گی جو اس دن میرے ساتھ تھی۔ “ میں نے زور دے کر کہا۔

”لڑکی؟ نہیں صاحب آپ اکیلے تھے۔ “ اس نے کہا اور میرا دماغ بھک سے اڑ گیا یہ بھی انکار رہا ہے۔ یہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ ”دیکھو تم بھول رہے ہو، میرے ساتھ ایک لڑکی بھی تھی۔ “ میں نے پھر کہا۔ ”نہیں صاحب مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ آپ اکیلے تھے لیکن آپ نے دو کپ چائے منگائی تھی۔ میں اسی لئے تو حیران ہوا تھا۔ جب میں چائے لے کر آیا تھا تو آپ باتیں کر رہے تھے لیکن آپ کے ساتھ کوئی نہیں تھا۔ “ میری پیشانی پر پسینے کے قطرے نمودار ہونے لگے۔ شکنتلا کون تھی اور کیسے غائب ہو گئی مجھے کوئی نہیں بتا سکتا تھا۔ میری آنکھوں کے آگے اندھیرا سا آرہا تھا۔ میں نے کرسی کا سہارا لیتے ہوئے بیرے سے کیا۔ ”میرے لئے چائے لے آؤ۔ “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).