نظام پولیس، نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں


اگر آپ کا زندگی میں پولیس اور خاص طور پر پنجاب پولیس سے واسطہ پڑا ہے تو قرین قیاس یہی ہے کہ آپ کہیں گے کہ پولیس بد تمیز بھی ہے اور رشوت خور بھی، پولیس نا اہل بھی ہے اور سست بھی، پولیس ظالم بھی ہے اور بد طینت بھی، پولیس دست دراز بھی ہے اور جلاد بھی۔ یہ بالکل حقیقت ہے اور اگر ان تمام الزامات کو دس سے ضرب دے دی جائے تو جو جواب آئے گا وہ بھی درست ہوگا مگر سوال یہ کہ آخر پولیس ایسی کیوں ہے؟ کیا یہ بیماریاں اس کے تخم میں پہلے سے موجود تھیں یا اس کے جسد میں یہ ناسور بعد میں پھوٹا، اور اگر یہ بعد میں پھوٹا تو اس مریض کو درماندگی کی اس سطح تک لانے میں کن جاہل طبیبوں کی بیداد گری کا ہاتھ ہے۔ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ذرا ماضی کو کھنگالنا پڑے گا۔

انگریز دور حکومت میں بر صغیر پاک و ہند کے دیگر اداروں کی طرح محکمہ پولیس کی بنیادیں بھی مستحکم ہونا شروع ہو گئیں۔ ایک محکوم ملک پر اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنے کے لیے انگریز کو ایک ظالم، جابر، عوام دشمن اور اپنے آقا کے اشارے پہ مر مٹنے والی فورس درکار تھی، جس کی اپنی کوئی سوچ ہو نہ اپنا کوئی وژن۔ جو اپنے آقا کی جنبشِ ابرو پہ بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلنے میں ذرا نہ ہچکچائے۔ جس کے لیے آقا کے منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ پاک اور پوتر ہو اور جس کے نزدیک رعایا کی حیثیت گاجر مولی سے زیادہ نہ ہو۔

ان رہنما اصولوں کی روشنی میں انگریز نے 1861 میں پولیس ایکٹ تیار کیا اور نافذ کر دیا اس کے بعد 1898 میں ضابطہ فوجداری اور 1934 میں پولیس رولز مرتب کیے گئے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ سارے قوانین انگریز نے ایک ایسے خطے کے افراد کے لئے بنائے تھے جن کو وہ بزور قوت باجگزار اور غلام بنا چکا تھا اور طویل مدت تک اس استبدادی حکومت کو قائم رکھنا چاہتا تھا۔ اس سفاک پولیس کے ذریعے مقامی آبادی پر ظلم وستم کو کوہ گراں توڑے گئے اس طرح عوام الناس کے دلوں میں اس ظالم پولیس کے خلاف نفرت جڑ پکڑتی چلی گئی انگریز نے پولیس کی اعلیٰ بیورو کریسی کا نظام اپنے ہاتھ میں رکھا اور نچلے درجے کے پولیس عہدوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا، انسپکٹر، سب انسپکٹر اور اسسٹنٹ سب انسپکٹر کو ماتحتان اعلیٰ اور ہیڈ کانسٹیبل اور کانسٹیبل کو ماتحتان ادنی کا نام دیا گیا۔

یہ ماتحتان اعلیٰ و ادنی مقامی آبادیوں میں سے لئے گئے۔ لیکن ان ماتحتان کو تربیت میں جس ایک لفظ کی تکرار کروائی گئی وہ تھا ”یس سر“۔ اور اس ”یس سر“ نے اس خطے کے ہزاروں لوگوں کی جان لے لی۔ اس دور میں پولیس کی دہشت کا عالم یہ تھا کہ ایک بھی اسپ سوار عہدیدار کسی علاقے کا رخ کرتا تو پاس پڑوس کے دسیوں گاؤں کے باسیوں کو سانپ سونگھ جاتا تھا۔ لوگ ڈر کے مارے گھروں میں دبک کر بیٹھ جاتے تھے کہ کہیں داروغہ کسی ناکردہ جرم بھینٹ نہ چڑھا دے۔

انگریز نے ان فورسز کے ذریعے بغاوت کی ہر ہلکی اور بھاری آواز کو آہنی ہاتھوں سے کچل ڈالا تھا اور عوام کے دلوں میں شدید خوف وہراس بٹھا دیا تھا۔ 1857 میں کانپور اور آلہ آباد کی پر تشدد کارروائیاں، 1919 کا جلیانوالہ باغ امرتسر کا المناک واقعہ، 1924 کوہاٹ کی پر تشدد کارروائیاں، 1926 میں کلکتہ کے ہنگاموں میں زبردست تشدد، 1930 میں قصہ خوانی بازار پشاور میں خونریزی اس کی چند ایک مثالیں ہیں۔ تقسیم کے بعد اس امر کی شدید ضرورت تھی کہ پولیس کے اس پرانے اور فرسودہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا جاتا جس کی بنیاد ظلم اور بربریت پر رکھی گئی تھی اور اس کی جگہ ایک نئی پولیس کی بنا رکھی جاتی جس کو انسان دوستی، مساوات، احساس اور درد مندی کے اصولوں سے پختہ کیا جاتا۔ جو نام و نسب، غربت و امارت، عہدہ و منصب اور اس جیسے دیگر امتیازات سے بالا تر ہوکر صرف اور صرف انصاف کی بالا دستی لے کام کرتی۔ وہ پولیس جو حکمرانوں کی رکھیل بننے کی بجائے مملکت خدادا کے ہر باسی کا درد اپنے سینے میں محسوس کرتی۔ مگر ایسا نہ ہوسکا۔ سیاسی عدم استحکام نے ملت کے نحیف و نزار بدن پر آمریت کو کئی بار پنجے گاڑنے کے جواز فراہم کیے اس عمل نے اداروں کو مضبوط نہ ہونے دیا۔ اس طرح ریاستی ادارے جنھوں نے اجتماعی ملی سوچ کے تحت پروان چڑھنا تھا ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے چلے گئے۔

محکمہ پولیس کی بھی جب آئین نو اور افکار تازہ کے چراغوں کے ذریعے راہبری نہ کی گئی تو یہ بھی کہنہ طرز پگڈنڈیوں پہ بھٹکنے لگا۔ ناعاقبت اندیش سیاستدانوں کو اپنے فرسودہ مقاصد کے حصول کے لئے جس طرح کی جاہل اور اجڈ پولیس درکار تھی وہ انھیں میسر تھی۔ آپ ملاحظہ فرمائیں کہ انھوں نے دکھلاوے اور بد نیتی کی بنیاد پر پولیس کے نظام میں کئی بار ردوبدل کی کوشش کی حتی کہ وردیاں تک بدل ڈالیں مگر اس کی پراگندہ روح کو بدلنے کے لیے کوئی راست اقدام نہیں اٹھایا۔

ستم بالائے ستم کہ اعلیٰ امتحانات پاس کرنے کے بعد پولیس جوائن کرنے والے افسران نے بھی اس محکمے کو صحیح معنوں میں فلاحی محکمہ بناکر اس کی عزت اور توقیر بڑھانے کی بجائے اپنی آنکھوں پر لالچ یا کم ہمتی کی پٹی باندھ لی اور اربابِ سیاست کی قدم بوسی کو اپنا شرف سمجھا۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے پولیس ہر غریب اور بے سہاراکے لیے بد تمیز اور مغرور چکی ہے اور ہر امیر و صاحب حیثیت کی جی حضوری کو دست بستہ کھڑی ہے۔

کیا اس طرح کی پولیس پورے سماج کے منہ پر تمانچہ نہیں ہے، کیا یہ پولیس کسی کو انصاف دینے کے قابل ہے جس کا بال بال، انگ انگ کرپشن سے لتھڑا پڑا ہے۔ جس میں کم وبیش ہر افسر اپنے سے بڑے افسر کو خوش کرنے کو اپنی نوکری سمجھتا ہو۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ اس ادارے کی فلاح و بہبود کو اتنا ہی درخورِ اعتنا سمجھا گیا جتنا یہ ادارہ حساس اور اہم نوعیت کا تھا۔ اگرچہ ہم نے انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل کرلی ہے مگر ہم سے اپنے اداروں کو صحیح اسلامی فلاحی ریاست سے مطابقت رکھنے والے اداروں کے قالب میں ڈھالنے میں ناکام رہے ہیں۔ آج بھی پولیس اسی نوآبادیاتی نظام کی یادگار معلوم ہوتی جس میں اونچے طبقے کو ہر سہولت بلکہ عیاشی میسر ہے اور نچلے طبقے کو محکمانہ امور کی انجام دہی کے لیے جائز ضروریات بھی پوری نہیں ہوتیں۔

پولیس کے وہ افسران اور ملازمین جن کے فرائض کی نوعیت کچھ اس طرح کی ہے کہ ان کا عوام کے ساتھ بلا واسطہ رابطہ رہتا ہے وہ چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں انھیں اعلیٰ ترین اخلاقی اقدار کو اپنانے کا درس دیا جاتا ہے مگر ان کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ اس بے توجہی کا ردعمل عوام کے ساتھ بے اعتنائی کی صورت میں نکلتا ہے۔ اس طرح عوام اور پولیس کا باہم اعتماد بری طرح متاثر ہوتا ہے اور اگر کسی سے پولیس کے بارے میں بات کریں تو شکایات کا طوفان پھوٹ پڑتا ہے مگر آپ یقیناً کچھ کچھ اندازہ لگا چکے ہوں گے کہ اس سپیدہ سحر کو تیرہ و تاریک کرنے والے کون کون ہیں اور کہاں کہاں بیٹھے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).