شرفا کی غیرت بمقابلہ غربا کی غیرت


سنا ہے کل رات ایک اور بھائی کی غیرت جاگی اور ایک اور بہن موت کے گھاٹ اتار دی گئی ۔ غلط وقت پر ہی سہی مگر بھائی کی غیرت جاگی تو سہی ۔

یہ غیرت تب سو رہی تھی جب

اسی بھائی کی بہن فوزیہ کی زبردستی شادی کی گئی۔۔۔ ایک ناپسندیدہ مرد کو اس پر مسلط کیا گیا۔۔  جب وہی شخص اس پر تشدد کرتا رہا اور فوزیہ سے اس کا بیٹا چھین لیا۔۔

جب فوزیہ قندیل بلوچ بنی۔۔۔ جب میڈیا اس کا استحصال کرتا رہا۔۔ جب ہم سب نے اپنی پارسائی کی گواہی قندیل کی ناپارسائی سے دلوائی۔۔

اس سب کے دوران اس کی غیرت سو رہی تھی ۔ مگر یہ بات مت بھولیے کہ غیرتیں زیادہ دیر تک سویا نہیں کرتیں۔ یہ کبھی نہ کبھی جاگا کرتی ہیں۔

ہاں یہ الگ بات ہے کہ کہ شرفا کی غیرت اور غریب کی غیرت کو جگانے والے عوامل قدرے مختلف ہیں-

اوپر بیان کی گئی وجوہات سے یا تو شرفا کی غیرت جاگتی ہے یا پھر ان لوگوں کی جن کے بچے راتوں کو بھوکے پیٹ نہیں سوتے۔ بیٹی کا آزادی مانگنا، نام نہاد خاندانی اصولوں سے روگردانی کرنا، اپنی مرضی سے شادی کرنا، ناانصافی پر سوال اٹھانا، معاشرتی رویوں کی پرواہ نہ کرنا، جیسے مسائل صرف آسودہ حال لوگوں کو پریشان کرتے ہیں۔

غریب کی غیرت ذرا گہری نیند سو رہی ہوتی ہے اور اسے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا کہ اس کہ بیوی، بیٹی یا بہن کہاں سے آرہی ہے یا کیا کر کے آ رہی ہے۔غریب کی عورت گھر داخل ہو گی تو اسے یہی سننے کو ملے گا ، آ گئی اپنے یار سے مل کر۔ چل اب نکال کیا ہے تیرے پاس۔

اگر عورت چپ چاپ سب نکال کر دے دے تو سب خیر ہے، اگر انکار کرے گی تو ایک آدھ تھپڑ، دو تین لاتیں، کچھ گھونسے کھائے گی۔ پھر بھی نہ مانے تو سب کا استاد ڈنڈا ہے نا۔ یہ چلے دیرپا اور کام کرے سب سے زیادہ۔عام تھپڑوں، گھونسوں اور جوتوں کے مقابلے میں پیسے نکلوائے سب سے زیادہ۔

قندیل کے معاملے میں شاید کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ وہ بھائی جس کی غیرت اتنے سال نہیں جاگی، وہ اچانک اتنا غیرت مند کیسے ہو گیا؟ یا تو قندیل نے اسے پیسے دینے سے انکار کیا ہو گا، یا پھر کسی اور نے قندیل کا قتل کرنے کے کی صورت میں زیادہ پیسوں کا لالچ دیا ہو گا۔ یہ وہی غیرت مند بھائی ہے جو اپنی بہن کو فحش کام کرنے کے جرم میں قتل کرتا ہے اور اسی فحاشی سے کمائے گئے پیسے اور موبائل لے کر فرار ہو جاتا ہے۔ واہ رے تیری غیرت۔۔۔

قندیل کے بھائی نے غیرت کا مظاہرہ بھی ٹھیک سے نہیں کیا۔ بالکل اسی طرح جیسے کل رات ترک فوج کا ایک گروہ مارشل لا کا کامیاب مظاہرہ نہ کر سکا۔ اصل غیرت مند وہ ہوتے ہیں جو قتل کرنے کے بعد سینہ ٹھوک کر تھانے پہنچتے ہیں اور گرفتاری دیتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کے والدین جلد ہی انہیں چھڑوا لیں گے۔ جعلی غیرت مند البتہ دم دبا کر بھاگ جاتے ہیں، جی بالکل ترک فوج کے باغی دھڑے کی طرح۔

قندیل کی موت کے بعد کچھ اور غیرت مند بھی سامنے آئیں گے۔ جو یہ کہیں گے کہ اس کی ویڈیوز نہ دیکھیں، اس کا فیس بک پیج بند کروا دیں تاکہ اس کو کم عذاب ملے۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنی سوچ سے اس کی زندگی کو عذاب بنا ڈالا تھا۔ آپ کو کچھ ایسے لوگ بھی ملیں گے جو یہ کہیں گے کہ قندیل ایک سوچ کا نام تھا، قندیل نے ہمیں جھنجھوڑ ڈالا، قندیل ہمارے معاشرے کے چہرے پر تھپڑ ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہی قندیل جب زندہ تھی تو یہ لوگ اس کو میڈیا پر بلا کر ،اس کا مذاق اڑا کر ریٹنگ لیتے تھے۔ آنے والے چند گھنٹوں میں آپ کو غیرت مندوں کی ایک اور قسم نظر آئے گی؛ وہ مولوی حضرات جو قندیل کی نماز جنازہ پڑھانے سے انکار کریں گے، یا پھر اسے عبرت کا نشان کہیں گے۔ وہ قوم کی ماؤں بیٹیوں کو یہ پیغام دیں گے کہ قندیل کے انجام سے سبق سیکھیں۔

میرے لیے قندیل نہ تو کوئی سبق ہے، نہ تھپڑ، نہ عبرت کا نشان ۔ وہ قندیل تھی ۔وہ لڑکی جس کوشہرت چاہیے تھی، جسے آسودگی چاہیے تھی، جو یہ سمجھتی تھی کہ سسک سسک کر جینے سے بہتر ہے کہ وہ اپنی زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش کرے۔ اس نے کچھ روایات سے انکار کیا، کچھ پر سوال اٹھایا۔ اور ہمارے ہاں ایک عورت کو قتل کرنے کے لیے یہ وجوہات کافی ہیں۔ ہم اس کا نام اس لیے لے رہے ہیں کہ وہ مشہور تھی، وگرنہ کتنی قندیلیں راتوں کی تاریکی میں بجھتی ہیں، ہماری جانے بلا۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments