اویغوروں کا مطالبہ: ’مجھے بھی میرے والدین دکھائیں کہ وہ زندہ ہیں‘


جب سے چین کے ریاستی میڈیا نے ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں معروف اویغور موسیقار کو ان کی موت کی خبروں کے برعکس زندہ دکھایا گیا ہے، سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر اویغور مسلمانوں کی جانب سے اپنے رشتہ داروں کی سلامتی کے بارے میں خبروں کے مطالبات کا سیلاب سا آ گیا ہے۔

10 فروری کو جاری کی گئی ویڈیو فوٹیج میں ایک شخص عبدالرحیم حیات کو یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ وہ ’اچھی صحت‘ میں ہیں۔

یہ ویڈیو ترکی کی چین کی طرف سے اویغور مسلمانوں کے لیے بڑے پیمانے پر قائم کیے گئے حراستی مراکز پر تنقید کے بعد سامنے آئی ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ اس نے کیمپ میں عبدالرحیم حیات کی موت کی خبر سنی ہے۔ کئی اویغور گروپوں نے اس ویڈیو کی صداقت اور اس کے فلمانے کے وقت کے بارے میں سوالات اٹھائے ہیں۔

تاہم اب ’#MeTooUyghur‘ کا ہیش ٹیگ استعمال کرتے ہوئے، قیدیوں کے رشتہ دار اور سرگرم کارکن ٹوئٹر اور فیس بک پر چینی حکومت سے اپنے پیاروں کی زندگی کے ثبوت مانگ رہے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ایک لاکھ اویغور اور دیگر مسلمانوں کو ان حراستی مرکزوں میں رکھا گیا ہے، جنھیں چین پیشہ ورانہ تربیت اور دہشت گردی سے مقابلے کے مراکز قرار دیتا ہے۔

کیا وہ زندہ ہیں؟

الفریڈ نے ٹویٹ کیا کہ انھوں نے اپنے والدین کو 11 ماہ سے زائد عرصے سے نہیں دیکھا ہے اور وہ چین سے چاہتے ہیں کہ ’مجھے دکھائیں کہ وہ اب بھی زندہ ہیں۔` اویغور چین کے مغربی علاقے سنکیانگ میں آباد باشندے ہیں جو چینی حکومت کی سخت نگرانی کے زیرِاثر علاقہ ہے۔ چین سے باہر رہنے والے بہت سے اویغوروں کا کہنا ہے کہ وہ برسوں سے اپنے خاندان کے افراد سے بات نہیں کر پائے۔

بابر جلال دین اور ان کی بہن بھی اپنے والدین کی حالت کے بارے میں فکر مند ہیں جنھیں جنوری 2018 سے حراست میں رکھا گیا ہے۔ انھوں نے بھی چین سے زندگی کا ثبوت فراہم کرنے کے لیے کہا ہے۔ سنکیانگ کے سرکاری ثقافتی رسالے کے سابق ایڈیٹر قربان مموت نے بھی اپنے والد کی رہائی کی اپیل کی، جو سنہ2017 سے لاپتہ ہیں۔ بہرام قربان نے اپنی ٹویٹ میں کہا ’میرے والد قربان مموت کی ویڈیو بھی دکھائیں۔ آپ نے ایک سال سے زائد عرصے سے ہمارا رابطہ کاٹ رکھا ہے۔`

25 سالہ پیشہ ورانہ فٹ بال کھلاڑی، ایرپات ابلی کریم کے کزن نے چینی حکومت سے اپیل کی کہ انھیں ’حراستی کیمپ` سے آزاد کر دیں، وہ کہتے ہیں انھیں وہاں مارچ 2018 سے قید رکھا گیا ہے۔

https://www۔facebook۔com/photo۔php?fbid=10157173738387089

فن لینڈ میں، اویغور کے سرگرم کارکن ہلمرات ہری نے بہت سے دوسرے افراد کے بارے میں پوچھا جو غائب ہیں۔

ویڈیو کیوں جاری کی گئی تھی؟

ہفتے کے اختتام پر ترکی کی غیر ملکی وزارت نے عبد الرحیم حیات کی موت کی خبروں پر ایک بیان جاری کیا۔ جس میں کہا گیا کہ اویغوروں کو حراست کے دوران ’تشدد‘ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس بیان میں چین کی پالیسی کو ’انسانیت کے لیے شرمناکاور ’حراستی کیمپوںکو بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

چین نے 11 فروری کو دیے گئے جوابی بیان میں ، ترکی کے بیان کو ’مضحکہ خیز جھوٹ‘ اور ’حقائق کے منافی‘ قرار دیا۔ اگست 2018 میں، نسلی امتیاز کے خاتمے کے لیے بنائی گئی اقوام متحدہ کی کمیٹی کے مطابق: قابل اعتماد رپورٹس موجود ہیں کہ چین نے ان ’انتہا پسندی کے مراکز` میں دس لاکھ اویغوروں کو قید کر رکھا ہے۔

بین الاقوامی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان کیمپوں میں اویغوروں کو ان کی مرضی کے خلاف رکھا جاتا ہے اور انھیں ان کے خاندان سے رابطہ کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جاتی۔

چین بار بار ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے ان کیمپوں کو ‘کاروباری تعلیم کے مراکز’ قرار دیتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32504 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp