نقارخانے میں طوطی کی آواز؟


کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ادھر پی ٹی آئی کی حکومت آئے گی اُدھر تمام مسائل حل ہو جائیں گے دوسرے لفظوں میں بہار کا سماں ہو گا اور دودھ کی نہریں بہہ رہی ہوں گی مگر اب جب تبدیلی سرکار کو آئے قریباً چھ ماہ ہو چکے ہیں تو انہیں دلکش و دلفریب نظارہ دیکھنے کو نہیں ملا لہٰذا وہ پریشان سے دکھائی دے رہے ہیں مایوسی ان میں تیزی سے آتی جا رہی ہے جو پی ٹی آئی کے کارکنان ہیں وہ کہتے ہیں کہ تبدیلی کا مطلب ہرگز کوئی انقلاب نہیں تھا کہ جو پلک جھپکتے میں صورت حال بدل کر رکھ دیتا لہٰذا عوام کو چاہیے کہ وہ انتظار کریں اگلے چھے سات ماہ میں واضح طور پر انہیں نظر آئے گا کہ حالات تغیر پذیر ہیں جو بہتری کی جانب جا رہے ہیں!

دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے کے مصداق عوام کو اب یقین نہیں آ رہا کہ موجودہ حکومت بھی ان کے لیے آسانیاں پیدا کر سکے گی ان کے نزدیک یہ پہلے چند ماہ ہی ہوتے ہیں جن سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ حکمران کتنے پانی میں ہیں لہٰذا ان کے بارے میں بھی وہ جان چکے ہیں کہ انہیں کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ حالت موجود کو کیسے قابو میں کیا جا سکتا ہے مگر یہاں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ معاشی، معاشرتی اور سیاسی ڈھانچہ بری طرح سے متاثر ہے جو ٹھیک ہونے میں وقت لے گا اگر حکومت پوری طرح فعال ہوتی ہے تب وگرنہ اگلے پانچ برس بھی ناکافی ہوں گے۔

اصل میں ملک کو ایک انقلاب کی ضرورت ہے جس میں یہ نہ دیکھا جائے کہ کون کیا ہے اگر ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کے آگے کوئی رکاوٹ آتی ہے تو اسے ہٹا دیا جائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کھربوں پتی جو ناجائز ذرائع سے بنے ان سے دولت کا ایک بڑا حصہ لے کر قومی خزانے میں جمع کرادیا جائے اور میرٹ پالیسی کو عملاً نافذ کر دیا جائے مگر ابھی یہ ناممکن دکھائی دیتا ہے کیونکہ اہل اختیار کو شاید ڈر ہے کہ ملک کسی بڑے انتشار کا شکار نہ ہو جائے لہٰذا دھیرے دھیرے آگے بڑھا جائے مگر کیسے؟

اس وقت حکمران ایک عجیب صورت حال سے دو چار ہیں کہ وہ کچھ کرنا بھی چاہتے ہیں اور نہیں بھی یعنی ایک دھڑا جو عوام کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے اور اسے ان سے کیے گئے وعدوں کا احساس ہے وہ کچھ فوری تبدیلیوں کا خواہاں ہے مگر اسے جب دوسرے دھڑے کی خفگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ خاموش ہو جاتا ہے اس کے باوجود تھوڑا بہت کچھ ہو رہا ہے مگر وہ عوام کی توقعات پر پورا نہیں اترتا اور مسائل کے صحرا سے باہر نکلنے میں معمولی ہے؟

سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت کو یہ سب معلوم نہیں تھا کہ وہ اقتدار میں آتی ہے تو انہیں مشکلات شہدکی مکھیوں کی مانند آن لیں گی کیوں اس نے غور و فکر نہیں کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہا تو ایسے جا رہا تھا کہ وہ الہ دین کا چراغ رکھتی ہے جسے رگڑتے ہی کوئی بہت بڑا جن حاضر ہو جائے گا اور تمام مسائل کو ایک ہاتھ سے یہاں سے نکال باہر کرے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں یہ نہیں کہتا کہ وزیراعظم عمران خان میں اہلیت و صلاحیت نہیں وہ ایک مخلص دیانت دار اور محب الوطن سربراہ مملکت ہیں انہیں اس دھرتی سے بے حد لگاؤ ہے۔

ان کا خواب ہے کہ یہ ملک مہذب ممالک میں شمار کیا جائے اس کے عوام خوشحال ہوں، غربت، جہالت، بیماری اور بے بسی کا نشان تک نہ ہو مگر انہیں چاہیے تھا کہ وہ اپنے رفقاء کا رکو اچھی طرح سے پرکھتے ان کی تربیت کرتے اور انہیں ذہنی طور سے حالات کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ دیتے۔ آندھیوں اور طوفانوں سے ٹکرانے کے لیے ان کی ہمت بندھاتے مگر انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا لہٰذا اب وہ دائیں بائیں دیکھ رہے ہیں اور ایک بار پھر سبز باغ دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ان کے اس طرز عمل سے عوام میں یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو عمران خان کو ناکام دیکھنا چاہتے ہیں یا پھر واقعی ان کو کچھ خبر نہیں یہ جانتے ہی نہیں کہ نظام زندگی کیا ہوتا ہے اس میں کیسے تبدیلیاں لائی جاتی ہیں۔ ممکن ہے وہ سب جانتے بھی ہوں مگر سٹیٹس کو کے حامی ہوں جیسا کہ جتنے بھی بڑے زمیندار، سرمایہ دار اور زمینوں کا کاروبار کرنے والے ہیں وہ نہیں چاہیں گے کہ یہ نظام ختم ہو اور اس کی جگہ ایسا نظام لے لے جو ان سے سب کچھ چھین کر غریب عوام میں بانٹ دیتا ہو وہ تو کسی صور ت تبدیلی یا انقلاب نہیں لانے دیں گے مگر شاید وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکیں کیونکہ انہیں حساب کتاب کرنے والوں کو جواب دینا پڑے گا کہ وہ دولتمند کیسے بنے؟

ان دنوں جو لوگ حراست میں لیے جا رہے ہیں وہ بتائیں گے کہ انہیں پیسا کہاں سے ملا اور کیوں ملا؟ اسے وہ قانونی ثابت کر سکے تو ٹھیک بصورت دیگر سزائیں بھی کاٹیں گے اور مال بھی بحق سرکاری ضبط کرائیں گے۔ جن کا یہ کہنا ہے کہ حکومت کے آدمیوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے وہ غلط فہمی میں ہیں ادارے اپنے انداز سے کام کر رہے ہیں یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی ملکی خزانہ لوٹے یا ناجائز ذرائع سے دولت حاصل کرے اور وہ آرام کی نیند بھی سوئے ریاست بھولی نہیں وہ بے خبر نہیں اسے معلوم ہے کہ اب بھی وہ آنکھیں بند کر کے بیٹھتی ہے تو مافیاز جو طاقتور ہو چکے ہیں اس پر حاوی ہو جائیں گے پھر ملک میں ایک خوف و دہشت کا راج ہو گا جو اس کے وجود کو تباہ کر سکتا ہے لہٰذا ان لمحات میں اسے فعالیت اور خلوص کا مظاہرہ کرنا ہے سو وہ ایسا کر رہی ہے

وہ ہر اس شخص کو جس نے اسے کوئی نقصان پہنچایا ہے پوچھ گچھ کی رہ گزر سے گزار رہی ہے اب کوئی نہیں کہے گا کہ اسے کیوں پکڑا اسے کیوں پوچھا جا رہا ہے دوسرے کو کیوں نہیں سبھی کو قانون کے کٹہرے میں کھڑے ہونا ہے مگر حیرت ہے کہ جب بھی کوئی حکومت کا عہدیدار پس زنداں دھکیلا جاتا ہے تو آواز آتی ہے کہ یہ سب عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے جبکہ تجزیہ یہ بتاتا ہے کہ بلا تفریق احتساب ہونے جا رہا ہے۔

ملک کو ایک شفاف، محنتی، باصلاحیت اور عوام دوست سیاستدانوں کی کھیپ چاہیے جو اس کو دنیا کی نگاہوں کا مرکز بنا دے لہٰذا اسی پروگرام پر ذمہ داران عمل پیرا ہیں مگراس کی رفتار انتہائی سست ہے جس سے شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں اور حکومت پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں اس سے پہلے کہ لوگوں کے ذہنوں میں اندیشوں کے بگولے پیدا ہو کر طوفان کی شکل اختیار کر لیں اہل اقتدار عوام کی نفسیات کو سمجھنے کی کوشش کریں مگر سچ یہ ہے کہ نقارخانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).