نئے رزمیہ کی تیاری


خالی جیبوں، خالی ہاتھوں اور خالی ذہنوں کے ساتھ یہ چند کنگلے اور سرپھرے صحافی نما انسان، اپنے تئیں سچ کا علم اٹھائے پچھلیکئی دنوں سے پریس کلبوں کے باہرپُرامن دھرنے دیے بیٹھے ہیں۔ گلے گلے پھاڑ پھاڑ کرتقریریں جھاڑتے، نعرے لگاتے، سینہ کوبی کرتے، سر پیٹتے اپنے آپ کو ریاست کا چوتھا ستون سمجھنے کے جنون میں مبتلاہیں۔ دن چڑھے فٹ پاتھوں پر آ کر دھما چوکڑی کرتے اورشام ڈھلے خالی دامن جھاڑ، اپنے اپنے ویران اورفاقہ زدہ گھروں کو ناکام و نامراد واپس لوٹ جاتے ہیں۔

ان احتجاجیوں کا مطالبہ ہے کہ آزادی اظہار پر قدغن، اخبارات اور میڈیا چینلز سے سینکڑوں کارکنوں کی جبری برطرفیوں، نامعلوم گمشدگیوں اور سخت ترین سنسرشپ کا خاتمہ کیا جائے۔ ڈی چوک میں قریباً ایک سو بیس دنوں کے پرتشدد دھرنے سے لے کر فیض آباد اور پھر لاہور کے چئیرنگ کراس دھرنے کی لائیو نشریات دکھانے والے یہ بے چارے کم علم صحافی اس حقیقت سے ہی بے خبرہیں کہ کسی بھی پرُامن احتجاج کے ذریعہ آج تک کون اپنا  حق حاصل کر پایا۔

کامیابی کے لئے وہی مروجہ طریقہ کار اختیار کرنا لازم ہے جو رائج الوقت ہے۔ ان سے اچھے تو وہ ینگ ڈاکٹرز، ایل ایچ وی ورکرز، پیرا میڈیکل سٹاف، اساتذہ اور کلرکوں کی نمائندہ تنظیمیں اور نابینا افراد ہیں جو گھنٹوں نہ سہی، دنوں یا ہفتوں میں اپنے مطالبات بزور طاقت منواکر اٹھتے ہیں۔ بس ایک آدھ جلاؤ گھیراؤ، کچھ موٹرسائیکلیں اور گاڑیاں نذز آتش، ٹریفک بلاک اور میٹرو بس سروس جام کرناپڑتی ہے۔ اس کے بعد حکومت بے بس محبوب کی طرح آ پ کے قدموں میں۔

اب اس سے زیادہ پکھنڈ بازی اور کیا ہوگی کہ سالہاسال سے صحافیوں کی نام نہاد نمائندہ تنظیمیں احتجاج کرتی چلی آرہی ہیں لیکن آج تک ایک ویج بورڈ ایوارڈ پر عمل نہ کراسکیں۔ کیا ریاست کے اس طاقتور ستون میں اتنا دم خم ہے کہ کسی تاجر تنظیم کی طرح ہی سہی صرف ایک دن کی ہڑتال کرکے اخباری صنعت بند کرسکے، چند منٹوں کے لئے ٹیلی ویژن نشریات روک دے۔ شاید اس کا جواب یہ ہو کہ مقدس پیشہ کا ضابطہ اخلاق اس کی اجازت نہیں دیتا۔ تو کیا اخلاقیات کے کسی بھی دائرے میں رہ کر کوئی بھی اپنے مطالبات منوا پایا ہے۔ کم از کم پاکستان کی تاریخ میں تو کوئی ایک ایسا واقعہ ان گنہگار آنکھوں نے اب تک ہوتے نہیں دیکھا۔ چلیں اور کچھ نہ سہی ایک آدھ نامی گرامی صحافی لیڈر ہی تامرگ بھوک ہڑتال کا اعلان کردے۔

اب کیا یہ بھی ریاست کی ذمہ داری ہے کہ سچ کے لبادے میں کوئی کچھ بھی اول فول بکتا رہے اور وہ اس کا پیٹ بھی پالے۔ نافرمان بچوں کو تو ان کی اپنی سگی ماں بھی وقت پر روٹی نہیں دیتی اور کبھی کبھی گھر سے بھی نکال دیتی ہے۔ ویسے بھی تاریخ گواہ ہے کہ گذشتہ ستر سالوں سے اس صحافتی مخلوق کا یہی رنڈی رونا چل رہا ہے۔ کوئی ایک دور ایسا جب یہ خوشحال تھے، سچ لکھتے تھے اور بالکل آزاد تھے۔ بلکہ تاریخ کا تلخ ترین سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے کبھی پورا سچ لکھا نہ مکمل جھوٹ۔

اور یہی سزا ہے منافقت کی۔ اگر کسی کو پورا سچ کہنے اور لکھنے کا دعویٰ ہے تو پھر گلہ کیسا۔ کیا انہیں اتنا بھی ادراک نہیں کہ جنوں کی حکایات خونچکاں لکھنے والوں کے ہاتھ بھی قلم ہوئے اور سر بھی۔ انگلیاں بھی فگار ہوئیں اور سینے بھی۔ اور یہ چند سرپھرے جنونی صرف سینہ کوبی اور ماتم زنی کو ہی اپنا اول و آ خر فریضہ سمجھ بیٹھے۔

بھائیو۔ ! دور کیوں جاتے ہو، ابھی تو تمہارے ساتھی جمال خاشقچی کا خاتمہ ہونے کے بعد اس کا قصہ تمام نہیں ہو پایا، جسے دنیا کی جائے امان قرار دیے جانے والے سفارت خانے میں گلا دباکر مارا گیا اور نعش کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے غائب کردیا گیا۔ گویا پورا کا پورا سچ صرف ایک پلاسٹک کے تھیلے میں سما گیا۔ تمہاری طرح پوری دنیا سراپا احتجاج ہے، عالمی برادری سیخ پا ہے لیکن تمام ثبوت ملنے کے باوجود اس کے قاتلوں کا بال بھی بیکا نہ ہوگا۔

اور تمہارا ابھی سے دم گھٹ رہا اور سانس پھول رہا ہے۔ بھلا کمزوروں اور طاقتوروں کا آپس میں کیا مقابلہ، خواہ وہ سچے ہوں یا جھوٹے۔ افغانستان، عراق، شام، لیبیا، یمن اور ایسی کتنی ریاستوں کی اینٹ سے اینٹ بجادینے والی سپر پاور تک اس ایک شخص کو انصاف دلانے کی متحمل نہیں۔ چنانچہ خاشقچی کی باقیات خواہ کتنی ہی پھڑکتی اور تھرکتی رہیں، اس کے نام کی گونج ایوانوں کو ہلاتی اورزندہ ضمیروں کوجھنجھوڑتی رہے اور شاید آئندہ دنوں میں چند صحافتی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ہر سال اسے یاد کرکے ایک دن کسی شام اس کے نام کی شمعیں روشن کرکے خراج تحسین پیش کرتی رہیں لیکن اسے انصاف ملا ہے نہ ملے گا۔

ایک خاشقچی ہی کیا۔ اس رزم گاہ میں تو جو بھی اترا، جسم و جاں کی سلامتی کے ساتھ کب واپس لوٹا۔ صحافت کی آزادی کا شکار تو اب ریاستوں کا پسندیدہ اور مرغوب ترین مشغلہ بن چکا۔ شکاریات کے ان تازہ واقعات میں تیس سالہ خاتون ٹی وی پریزینٹر وکٹوریہ مارینوا کو اکتوبر 2018 میں بلغاریہ کے شمالی شہر روسے میں بہیمانہ طریقے سے اس لئے ہلاک کیا گیاکہ اس نے یورپی یونین کے فنڈز میں مبینہ بدعنوانی کے ایک سکینڈل پر تحقیقاتی صحافیوں کے ساتھ پروگرام کیا تھا۔

نکولائی آندرشتشینکو کو 19 اپریل 2017 کو روسی شہر سینٹ پیٹرز برگ میں سرعامایک سڑک پر اس لئے تشدد کرکے ماردیاگیا کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جرائم کے خلاف لکھتا تھا اور یہاں تک لکھ گیا کہ صدر ولادیمیر پوٹن جرائم پیشہ گروہوں اور کے جی بی کے جانشین خفیہ ادارے کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے اقتدار میں آئے۔ میکسیکو کی صحافی میروسلاوا بریچ کو 23 مارچ 2017 کی شام اس کے گھر کے سامنے سر میں آٹھ گولیاں مار کر قتل کردیا گیا کیونکہ وہ منشیات فروش گروہوں کے راز فاش کیا کرتی تھی۔

شیفا گہ ردی 25 فروری 2017 کو شمالی عراق میں ایک بارودی سرنگ کے دھماکے میں اس وقت ہلاک ہوئی جب وہ عراق میں ملکی دستوں اور اسلامک سٹیٹ کے مابین جاری جنگ کی رپو رٹنگ کررہی تھی۔ امریکی شہریت رکھنے والا بنگلہ دیش کا اوبجیت رائے جو اپنے بلاگ مکتومونا (کھلا ذہین) کی وجہ سے شہرت رکھتا تھا اور سائنسی حقائق اور مذہبی انتہا پسندی کے بارے میں لکھتا تھا جب فروری 2015 میں جب وہ ایک کتاب میلے میں شرکت کے لئے ڈھاکہ آیا تو اسیمذ ہبی انتہا پسندوں نے تیز دھارچاپڑوں سے قتل کردیا۔

ازبکستان کا سالیجون عبدالرحمانوف 2008 سے تا حال منشیات رکھنے کے الزام میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہے، شنید ہے کہ وہ بہت زیادہ سچ لکھتا تھا، سو اسے چپ کرانا ضروری ہو چکا تھا۔ ترک نژاد جرمن صحافی ڈینیز یوچیل فروری 2017 سے ترکی میں دہشت گردی کا پرچار اور عوام میں نفرت پھیلانے کے الزام میں زیر حراست ہے۔ ڈوئچے ویلے کے لئے کام کرنے والی چینی صحافی گایو 2014 سے اب تک سرکاری راز افشاء کرنے کے جرم میں قید ہے۔

آذر بائجان کا مہمان حسینوف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بد عنوانیوں سے پردہ چاک کرنے کا شوقین تھا، اسی لئے اس معروف ویڈیو بلاگر کو بہتان تراشی کے الزام میں مارچ 2017 میں دو سال قید کی سزا دی گئی۔ مقدونیا کا ٹیموسلاف کیزاروفسکی جسے مشرقی یورپ کا واحد سیاسی قیدی کہا جاتا ہے، ایک صحافی کے قتل کا کھوج لگاتے پولیس کی خفیہ دستاویزات تک پہنچ گیا، چنانچہ اکتوبر 2013 کی ایک متنازعہ عدالتی کارروائی کے ذریعے چار سال قید کی سزا بھگت رہا ہے۔ اوراب اپنے وطن عزیز پاکستان کی وہ غیر معروف چوبیس سالہ زینت شہزادی جس 19 اگست 2015 کو مسلح افراد نے اس وقت اغواء کیا جب وہ ایک رکشے میں سوار ہوکر اپنے دفتر جارہی تھی۔ ہیومن رائٹس کمیشن کا دعویٰ ہے کہ وہ چند سرکاری نامعلوم طاقتوں کے تعاقب کا شکار بنی۔ واللہ اعلم بالصواب۔

اب ان بڑی بڑی کارروائیوں کے بعد چھوٹی چھوٹی باتوں پر سانس بند ہونے، دم گھٹنے اور اتنے حسین موسم میں چپ کے نوحے پڑھنے کے بجائے اس نئے رزمیہ کی تیاری کیوں نہ کی جائے، جب حبس کا عذاب نازل ہونا ہے۔ جس میں خود کلامی کی آنچ میں اپنے ہی اند ر گرتے آنسوؤں کی نمی چین نہیں لینے دیتی، دم گھٹتا اور سانس رکتی محسوس تو ہوتی ہے مگر جان نہیں نکلتی۔ بقول غالب

رگ و پے میں جب اترے زہر غم تب دیکھیے کیا ہو

ابھی تو تلخی کام و دہن کی آزمائش ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).