محمد بن سلمان: وکیل سے ولی عہد تک


محمد بن سلمان

شاید ہی کوئی سعودی شہزادہ عالمی سطح پر اتنی تیزی سے ابھرا ہو جس طرح محمد بن سلمان کا عروج ہوا ہے

سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان پاکستان کے اپنے پہلے دو روزہ دورے پر اتوار کو اسلام آباد پہنچ رہے ہیں جہاں اطلاعات کے مطابق وہ تقریباً 10 ارب ڈالر کی مفاہمت کی یاد داشتوں پر دستخط کریں گے۔ ان کے ہمراہ سعودی تاجروں کا ایک 40 رکنی وفد بھی ہو گا۔

پاکستان کی خواہش ہے کہ سعودی ولی عہد کے اس اہم دورے کا بھرپور فائدہ اٹھایا جائے اور یہ باہمی تجارت اور سفارتی تعلقات میں مزید مضبوطی کا پیش خیمہ ثابت ہو۔

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی بھی سوچ کچھ اس طرح کی ہی ہے۔ وہ سعودی عرب کی معیشت میں انقلابی تبدیلیاں لانا چاہتے ہیں اور اس کے لیے انھوں نے تیزی سے کئی منصوبے شروع کیے ہیں۔

انھوں نے وژن 2030 کے نام سے ملک میں ایک منصوبہ متعارف کروایا ہے جس کے تحت سنہ 2030 تک سعودی معیشت کا تیل پر انحصار کم کردیا جائے گا۔

اس کا اعلان محمد بن سلمان نے اپریل 2016 میں کونسل آف اکنامک اینڈ ڈیولیپمنٹ افیئرز کے صدر کی حیثیت سے کیا تھا۔

سعودی ولی عہد کا تکونی نظریہ

سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو تین طرح سے بیان کیا جا سکتا ہے۔ وہ قدرے قوم پرست خیالات رکھتے ہیں، اپنے عوام میں مقبول ہیں، اور ان کا سیاست کے متعلق رویہ قدامت پسند ہے جبکہ اقتصادی اور سماجی مسائل کے متعلق بہت لبرل ہے۔

دوسری طرف ان کے ناقدین ان کے حکومت کرنے کے طریقے کو بہت سفاک اور آمرانہ کہتے ہیں۔

جمال خاشقجی

جمال خاشقجی دو اکتوبر کو شادی کی دستاویزات لینے استنبول میں واقع اپنے ملک کے سفارت خانے گئے تھے

ان کے ناقدین میں سے ایک صحافی جمال خاشقجی تھے جنھیں 2 اکتوبر 2018 کو ترکی کے دارالحکومت استبول میں سعودی سفارتخانے میں قتل کر دیا گیا تھا۔ اگرچہ اس واقعے کی وجہ سے سعودی عرب خصوصاً ولی عہد محمد بن سلمان خبروں میں رہے اور تنقید کا نشانہ بنتے رہے لیکن سعودی عرب کے اقتصادی اور منصوبہ بندی کے وزیر محمد التویجری کے مطابق اس سال ملک میں عالمی سرمایہ کاری میں دو گنا اضافہ ہوا۔

سعودی ولی عہد کی حیثیت سے توانائی سے متعلق عالمی پالیسی سازی اور تیل کی عالمی منڈیوں میں قیمت کے حوالے سے محمد بن سلمان بہت اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔

محمد بن سلمان

جب سے ولی عہد محمد بن سلمان منظرِ عام پر آئے ہیں اس وقت سے ہی سعودی عرب میں ایک ہلچل مچی ہوئی ہے

محمد بن سلمان کا حیرت انگیز عروج

شاید ہی کوئی سعودی شہزادہ عالمی سطح پر اتنی تیزی سے ابھرا ہو جس طرح محمد بن سلمان کا عروج ہوا ہے۔ اور شاہ فیصل کے بعد شاید ہی سعودی خاندان کے کسی فرد کے متعلق دنیا میں اتنا تجسس پایا جاتا ہو جتنا ولی عہد محمد بن سلمان کے متعلق پایا جاتا ہے۔ ہر کوئی جاننا چاہتا ہے کہ وہ اتنی تیزی سے قدامت پسند سعودی پالیسیوں میں تبدیلی کیوں لانا چاہتے ہیں۔

بی بی سی کے نامہ نگار فرینک گارڈنر کے مطابق جب وہ سنہ 2013 میں جدہ میں محمد بن سلمان سے ملے تھے تو انھوں نے اپنا تعارف محض ایک ‘وکیل’ کے طور پر کروایا۔ لیکن آج وہ وکیل نہیں عرب دنیا کے سب سے طاقتور ملک کے سب سے طاقتور شخص نظر آ رہے ہیں اور سعودی فرمانروا بھی بظاہر اہم فیصلے ان کے صلاح مشورے سے ہی کرتے ہیں۔

محمد بن سلمان اب حقیقی طور پر تخت سے ایک ہی قدم کی دوری پر ہیں۔

شہزادے سے ولی عہد تک کا سفر

محمد بن سلمان 31 اگست 1985 کو پیدا ہوئے تھے اور وہ اس وقت کے شہزادے اور موجودہ بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز السعود کی تیسری اہلیہ فہدہ بن فلاح کے سب سے بڑے صاحبزادے ہیں۔

ریاض کی کنگ سعود یونیورسٹی سے بیچلرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد شہزداہ محمد نے کئی سرکاری اداروں میں کام کیا۔ اُن کی ایک ہی بیوی ہیں جن سے ان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔

انھیں 2009 میں اپنے والد کا مشیرِ خصوصی مقرر کیا گیا جو اُس وقت ریاض کے گورنر تھے۔

شہزادہ محمد کے سیاسی سفر میں ایک اہم موڑ اپریل 2015 میں اُس وقت آیا جب شاہ سلمان نے اپنی جانشینی کی قطار میں نئی نسل کو شامل کیا۔

شاہ سلمان نے سوتیلے بھائی مقرن بن عبدالعزیز کو ہٹا کر اپنے بھتیجے محمد بن نائف کو ولی عہد مقرر کیا جب کہ اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو نائب ولی عہد مقرر کر دیا۔

اس فیصلے کے بعد محمد بن سلمان کی تخت تک رسائی ممکن بنانے کے لیے بس محمد بن نائف کو ہٹنا تھا جو کہ کچھ عرصے بعد کر دیا گیا۔

ولی عہد کے پاس نائب وزیرِ اعظم کے ساتھ ساتھ وزیر دفاع کا عہدہ بھی ہے۔ شہزادہ محمد 29 برس کی عمر میں دنیا کے سب سے نو عمر وزیر دفاع بنے تھے۔

ولی عہد کے ‘دھماکے’

جب سے ولی عہد محمد بن سلمان منظرِ عام پر آئے ہیں اس وقت سے ہی سعودی عرب میں ایک ہلچل مچی ہوئی ہے۔

محمد بن سلمان کے وزارتِ دفاع کا قلمدان سنبھالتے ہی سعودی عرب نے اپنے جنوبی ہمسایہ ملک یمن میں عملی طور پر جنگی کارروائیاں شروع کر دیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس وقت یمنی تنازع دراصل ایران اور سعودی عرب کے درمیان پراکسی وار ہے۔

یمن کی جنگ میں 2015 سے اب تک ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ لاکھوں بھوک کی وجہ سے موت کے دہانے پر ہیں۔ لیکن ابھی بھی دونوں فریق جنگ روکنے کا نام نہیں لے رہے۔

جنگ کے علاوہ انھوں نے دوسرا دھماکہ مئی 2017 میں کیا جس میں درجنوں شہزادوں، امرا اور سابق وزرا کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔ یہ ایک بہت بڑا جوا تھا جس سے شاہی خاندان کے رشتوں میں دراڑ پڑ سکتی تھی لیکن ولی عہد محمد بن سلمان نہ صرف اس میں کامیاب رہے بلکہ اطلاعات کے مطابق انھوں نے گرفتار کیے گئے شہزادوں اور امرا سے پیسے بھی نکلوائے۔

اب نوجوان سعودی ولی عہد کی پوزیشن مضبوط سے مضبوط تر ہو گئی ہے اور ان کے تقریباً سارے حریف راستے سے ہٹا دیے گئے ہیں۔

ولی عہد محمد بن سلمان نے ملک میں عورتوں کے حقوق کے حوالے سے کئی اہم اقدامات اٹھائے ہیں جو کہ قدامت پسند ملک کے مذہبی علما کے لیے کسی دھماکے سے کم نہیں ہے۔

انھوں نے عورتوں کو گاڑی چلانے کی اجازت دی، بغیر مرد کفیل کے کاروبار شروع کرنے کا موقع دیا، ان کے ہی دور میں ایک خاتون سعودی عرب کی سٹاک ایکسچینج کی سربراہ بنی۔ اسی طرح آماد خیالی کا سلسلہ جاری رہا اور اپریل 2018 میں 35 برس بعد سعودی عرب کے سنیما میں دوبارہ فلم دکھائی گئی، اور سعوی عرب میں پہلے اینٹرٹینمنٹ سٹی کا منصوبہ بھی بنایا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp