کلبھوشن یادیو کا مقدمہ۔ پاکستان کیا کرے


پاکستان میں دہشت گردی کے الزام میں گرفتار و سزا یافتہ ہندوستانی انٹلی جنس کے افسر کلبھوشن یادیو کے کیس کی سماعت بین الاقوامی عدالت انصاف میں کل بروز پیر پھر ہو نے جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کو کیا کرنا چاہیے، کن خطوط پردلائل دینے چاہیئں۔ آئیے اس بات پر بات کرتے ہیں۔

بین الاقوامی عدالت انصاف کی طرف سے کلبھوشن یادیو کیس میں عبوری فیصلہ کسی کے خیال میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ ان کے بھارتی تاجر دوست سجن جندال کی ملاقات اور کسی کے خیال میں پاکستانی وکلاء ٹیم کی مایوس کن کارکردگی کا نتیجہ تھا جبکہ کسی کے بقول پاکستان کووہاں جانا ہی نہیں چاہیے تھا یا یہ کہ بین الاقوامی عدالت انصاف کے فیصلے کو ماننا لازم نہیں اس لئے کلبھوشن کو فوراً پھانسی چڑھا دینا چاہیے تھا۔

جہاں تک عالمی عدالت انصاف میں جانے کا تعلق ہے اقوام متحدہ کے چارٹر کی دفعہ 94 کے مطابق بظاہر اس بات میں وزن دکھائی دیتا ہے کہ پاکستان کے پاس یہ اختیار تھا کہ اگر وہ عالمی عدالت نہ جاتا تو پھر اس کا فیصلہ ماننے کا پابند نہ ہوتا۔ لیکن چونکہ پاکستان عالمی عدالت میں اپنی دفاع کے لیے چلا گیا اور مقدمہ شروع ہو چکا تو اب اس پر مزید بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔

تاہم آخری نکتہ کہ عالمی عدالت کا فیصلہ ماننا لازم نہیں اس لیے کلبھوشن کو پھانسی دے دینی چاہیے، متعلقہ قوانین اور بین الاقوامی ذمہ داریوں سے واضح لاعلمی پر مبنی ہے۔

اقوام متحدہ کے چارٹر کی دفعہ 94 کے مطابق ”

Each Member of the United Nations undertakes to comply with the decision of the International Court of Justice in any case to which it is a party.If any party to a case fails to perform the obligations incumbent upon it under a judgment rendered by the Court, the other party may have recourse to the Security Council, which may, if it deems necessary, make recommendations or decide upon measures to be taken to give effect to the judgment.”

یعنی ”اقوام متحدہ کا ہر ممبر وعدہ کرتاہے کہ وہ ہر اس کیس میں عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عمل کرے گا جس میں وہ فریق ہے۔ اگر کیس کا کوئی فریق عالمی عدالت کے فیصلے کے تحت عائد ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکام ہوجاتا ہے تو دوسرا فریق سیکورٹی کونسل سے رجوع کر سکتا ہے جو اگر ضروری سمجھے تو فیصلے پرعمل درآمد کے لئے سفارشات تجویز یا اقدامات کا فیصلہ کرسکتا ہے۔ “

چناچہ واضح طور پر پاکستان کے لیے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے سے روگردانی ممکن نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ پاکستان امریکہ جیسی طاقت نہیں رکھتا جس نے کم ازکم دو مرتبہ عالمی عدالت کے اسی طرح کے فیصلوں کے باوجود ملزموں کو پھانسی چڑھا دیا تھا اور کوئی اس کا کچھ نہ بگاڑ سکا تاہم پاکستان کے پاس یہ راستہ کھلا ہے کہ وہ عالمی عدالت سے کلبھوشن کیس کا حتمی فیصلے اپنے حق میں کروانے کے لیے خوب تیاری کرے۔ اس کے لیے چند نکات پیش خدمت ہیں۔

ہندوستان نے ویانا کنونشن کی دفعہ 36 کی روشنی میں پاکستان پر کلبھوشن تک قونصلر رسائی نہ دینے اوراسکی گرفتاری سے بروقت مطلع نہ کرنے پر مقدمہ کیا اور آپشنل پروٹوکول کے آرٹیکل 1 کی بنیاد پر مطالبہ کیا کہ عالمی عدالت انصاف ویانا کنوشن کے مفہوم اور اطلاق سے پیدا ہونے والے تنازعات پرچونکہ فیصلے دینے کا لازمی دائرۂ اختیار رکھتا ہے ا س لیے وہ کلبھوشن کے مقدمے کو سنے تاہم پاکستان نے جواب میں عالمی عدالت انصاف کے حق سماعت کوچیلنج کیا اور کہا کہ کلبھوشن یادیو ایک جاسوس ہے جس پر قونصلر تعلقات کا ویانا کنونشن 1963 منطبق ہی نہیں ہوتا۔ پاکستان نے مزید کہا کہ بھارت اور پاکستان کے مابین 2008 میں قونصلر رسائی کا ایک معاہدہ ہوا تھا جس کے مطابق سیاسی اور سیکورٹی بنیادوں پر گرفتاری، حراست اور سزا کی صورت میں ہر ریاست کو کیس کی میرٹ پر خود فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔

کیا 2008 کا یہ پاک بھارت معاہدہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 102 کے شق ا کے مطابق اقوام متحدہ کے ساتھ رجسٹرڈ کیا گیا تھا یا نہیں۔ اگرہاں تو پھر پاکستان کا کیس مضبوط ہے تاہم اس کے لیے اسے ثابت کرنا ہوگا کہ کلبھوشن ایک غیرقانونی مداخلت کار اور جاسوس ہے۔

اور اگر یہ معاہدہ اقوام متحدہ کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں تو پھر اقوام متحدہ کے آرٹیکل 102 کے شق 2 کے مطابق اقوام متحدہ کے کسی ذیلی ادارے کے سامنے ایسے کسی معاہدے سے مدد نہیں لی جا سکتی۔

انڈیا کے قانونی ماہرین نے اپنی حکومت کو کہا ہے کہ یہ باہمی معاہدہ اقوام متحدہ کے ساتھ درج نہیں ہے اس لیے پاکستان کو اس دلیل پر مدد نہیں مل سکے گی۔

انڈیا نے اگر کلبھوشن کے معاملے میں یہ لائن لے لی تو پھراگر پاکستان کشمیر میں بھارتی فورسز کے ہاتھوں انسانی حقوق کی پامالیوں پرعالمی عدالت انصاف میں مقدمہ کرلیتا ہے تو انڈیا بھی شملہ معاہدے کی آڑ نہیں لے سکے گا کہ شاید یہ بھی اقوام متحدہ کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں کیا گیا ہے۔

تاہم ویانا کنونشن کے آپشنل پروٹوکول کے آرٹیکل 1 سے پہلے چند الفاظ آئے ہیں جن کی بنیاد پر پاکستان اپنا کیس بنا سکتا ہے۔ ”جب تک ایک معقول وقت کے اندر فریقین تصفیہ کی کسی اور شکل پر متفق نہ ہوں، وہ کنوشن کی تفہیم یا اطلاق سے پیدا ہونے کسی بھی تنازع پر بین الاقوامی عدالت انصاف سے رجوع کرنے کی خواہش کا اظہارکرتے ہیں۔ “

اب یہ معقول وقت کیا ہے اور تصفیہ کی اور شکلیں کیا ہیں؟ اور یہ کہ اس کے بغیر کیا کوئی فریق براہ راست عالمی عدالت میں جا سکتا ہے یا نہیں۔ بین الاقوامی قانون کے ماہرین سے اس بارے معلومات لینے چاہییں۔

اس کنونشن کے آرٹیکل 2 کے مطابق ”فریقین چاہیں، تواس کے بعد کہ ایک فریق نے دوسرے کو اطلاع دے دی ہو کہ تنازع موجود ہے، دو مہینے کے اندر اندر عالمی عدالت نہیں بلکہ کسی ثالثی ٹریبیونل سے رجوع کرنے پر متفق ہو جائیں۔ اس مدت کے اختتام پر کوئی بھی فریق ایک درخواست سے اس تنازع کو عالمی عدالت میں لا سکتا ہے“۔

اس کنونشن کے آرٹیکل 3 کے ذیلی شق 1 کے مطابق اسی دو مہینے کی مدت میں فریقین چاہیں تو عالمی عدالت سے رجوع کرنے سے پیشتر اصلاح و تصفیہ کے کسی طریق کار پر رضامند ہوں۔ شق دو کے مطابق یہ مفاہمتی کمیشن اپنی تقرری کے پانچ ماہ کے اندر اندر اپنی رپورٹ دے گا۔ اگر اس کمیشن کی سفارشات کو کوئی فریق دو ماہ کے اندر اندر قبول نہ کرے تو دوسرا فریق ایک درخواست کے ذریعے عالمی عدالت کے سامنے یہ تنازعہ لاسکتا ہے۔

دیکھنا یہ ہے کہ عالمی عدالت میں جانے سے قبل یہ شرائط ہندوستان نے پوری کی تھیں یا نہیں یعنی کیا اس نے پاکستان کے ساتھ کسی ٹریبیونل یا مفاہمتی کمیشن کے لئے بات کرنے کی خواہش اور کوشش کی تھی؟ اگر نہیں تو وہ اس کنونشن کے تحت براہ راست عالمی عالت انصاف سے رجوع کرنے کا حق نہیں رکھتا اور اس کا کیس بہت کمزور ہو جائے گا۔

پاکستان کے لیے کلبھوشن ایک جاسوس ہے جو دہشت گردی کرانے غیرقانونی طریقے سے بھیس بدل کرپاکستان میں داخل ہوا تھا اور اسے ویانا کنونشن کے تحت حقوق نہیں دیے جا سکتے جبکہ انڈیا اسے ایک بے گناہ ہندوستانی گردانتا ہے جس کو قونصلر رسائی اور قانونی امداد کے حقوق حاصل ہیں۔

اب ایک طرف ویانا کنونشن ہے اور دوسری طرف اقوام متحدہ کا چارٹر جو دوسرے ممالک کے اقتداراعلیٰ اور سالمیت کے احترام پر زور دیتا ہے اور ان کے اندرونی امور میں مداخلت کی اجازت نہیں دیتا۔

ایک طرف پاکستان اور ہندوستان کی ویانا کنونشن کے تحت ذمہ داریاں اور حقوق ہیں اور دوسری طرف اقوام متحدہ کے تحت ذمہ داریاں اور حقوق۔ ان میں کسی تضاد کے تحت کس کو فوقیت دی جائے گی؟ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 103 کا اس سلسلے میں فیصلہ یہ ہے۔ ”اقوام متحدہ کے ارکان کی اس موجودہ چارٹر یا کسی دوسرے بین الاقوامی معاہدے کے تحت ذمہ داریوں پر کوئی اختلاف واقع ہو جائے تو اس چارٹر کی تحت ان کی ذمہ داریوں کو فوقیت حاصل رہے گی۔ “

اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت کوئی ملک کسی دوسرے ملک کے اندرونی امور میں مداخلت نہیں کر سکتا۔ اگر پاکستان کلبھوشن یادیو کو ایک غیر قانونی مداخلت کار اور جاسوس ثابت کر دیتا ہے تو کلبھوشن کی مدد کرنے والا ہندوستان اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی کرنے کا مرتکب قرار پائے گا۔

سوچنے کی بات ہے کہ کلبھوشن اگر ہندوستان کے دعوے کا مطابق جاسوس نہ تھا تو اس نے اپنی اصلی شناخت کیوں چھپائی تھی اور دوسرے نام سے شناختی کارڈ کیوں بنا رکھا تھا ؟

اگر عالمی عدالت انصاف کلبھوشن کو قونصلر رسائی کا حق دیتی یا اس پر پاکستانی فوجی عدالت کے فیصلے کو کالعدم کرتی ہے تو پھر اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت سب ممالک پر کسی ملک کی سالمیت اور اقتداراعلیٰ کے احترام اور وہاں مداخلت نہ کرنے کے حوالے سے عائد فرائض لایعنی ہو جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).