وکٹر بازینوف کی ووڈکا اور ڈاکٹر زینب کا جذبہ


مظفرآباد کے روسی کیمپ ہسپتال میں اچھی طرح سے گرم گرم پانی سے نہانے کے بعد وکٹر بازینوف مجھے ڈاکٹروں کے ڈائننگ روم میں لے گیا۔ کیمپ ہسپتال کے وارڈ کی طرح یہ بھی شاندار جگہ تھی۔ بہترین کھانا، صاف پانی اور چار پانچ قسم کی شراب کی بے شمار بوتلیں۔ اس نے رشین گوشت کا بنا ہوا برگر، گرم گرم سوپ کے ساتھ پیش کر دیا تھا۔ سیر ہو کر کھانے کے بعد میں وکٹربازینوف کے ساتھ ووڈکا کی چسکیاں بھر رہا تھا اور ماسکو میں بیتے ہوئے دنوں کو یاد کررہا تھا کہ مجھے مانسہرہ سے فون کال آئی تھی میرے موبائل فون پر کہ میں فوراً وہاں پہنچوں۔ ڈاکٹر زینب کی طبیعت خراب ہے۔

وکٹربازینوف مجھے مظفرآباد سے باہر عباس میڈیکل انسٹی ٹیوٹ کے راستے پر مل گیا تھا۔ مظفرآباد میں زلزلے نے ہر ضروری عمارت کو تباہ و برباد کردیا تھا، یونیورسٹی کی بلڈنگ گرگئی تھی، کمبائنڈ ملٹری ہسپتال زمین بوس ہوکر نہ جانے کتنے مریضوں، ڈاکٹروں، نرسوں کی موت کا سبب بن گئی تھی۔ اسکولوں میں جہاں بچوں کا دوسرا پیریڈ شروع ہی ہوا تھا کہ دھماکے کے ساتھ عمارتیں گرتی چلی گئی تھیں۔ ان اسکولوں کے سوا جو ساٹھ سال پہلے انگریز سرکار بنا کر گئی تھی تمام عمارتیں بھوسے کے ڈھیر کی طرح زمین پر پھیل گئی تھیں۔ زلزلے کے تین دن بعد جب سرکار تھوڑا سنبھلی تو جلدی جلدی مظفرآباد کے باہر عباس میڈیکل انسٹی ٹیوٹ کی عمارت میں ہنگامی بنیادوں پر اسپتال کا آغاز کردیا گیا تھا۔

یہ عمارت بھی مخدوش ہی تھی کیونکہ اس میں جابجا کریک پڑ گئے تھے لیکن شاید نئی عمارت ہونے کی وجہ سے یہ زمین بوس نہیں ہوئی تھی۔

پوری عمارت میں زخمی مریض بھرے ہوئے تھے۔ کمرے، ورانڈے، کوریڈور، لابی، ہر جگہ زمین پر مریضوں کو لٹا دیا گیا تھا۔ جگہ کی کمی کے باعث عباس انسٹی ٹیوٹ کے باہر بلڈنگ کے ساتھ ساتھ بڑی سی کار پارکنگ میں بھی چھوٹے چھوٹے خیمے لگا کر مریضوں کے لیے جگہ بنائی گئی تھی۔ عباس انسٹی ٹیوٹ کے چاروں طرف کھلی جگہوں پر مختلف اداروں کی طرف سے خیمے لگا کر متاثرین کو رہنے کا ٹھکانہ مہیا کیا گیا تھا۔ وادی میں دوسری جگہوں پر بھی اسی قسم کے انتظامات تھے۔

بلڈنگ میں ہی دو ایمرجنسی آپریشن تھیٹر کام کر رہے تھے جہاں دن رات آپریشن ہو رہے تھے۔ زیادہ تر مریض ٹوٹی ہوئی ہڈیاں یا زخم لے کر آئے تھے۔ ہڈیوں کو جوڑا جا رہا تھا اور زخموں کو صاف کر کے ان پر مرہم پٹی کی جا رہی تھی اور ایسے مریض جن کی کمر کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی یا سر پر گہرا زخم تھا انہیں پنڈی، ایبٹ آباد، اسلام آباد کے ہسپتالوں میں بھیجا جا رہا تھا۔

زلزلہ کے گیارہ دن گزرنے کے باوجود ابھی تک مریضوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ ابھی تک بہت سے زلزلہ زدہ علاقوں میں راستے بند ہونے کی وجہ سے امداد نہیں پہنچی تھی۔ فوجی راستہ صاف کرتے تھے اورپھر تھوڑی دیر میں پتھر، چٹانیں یا مٹی کے ڈھیر اپنی جگہ سے کھسک کر سرک کر انسان کے بنائے ہوئے راستوں کو بند کر دیتے تھے۔ فطرت اور انسان کی جنگ جاری تھی، نہ جانے کب سے جاری ہے اور نہ جانے کب تک جاری رہے گی۔

گڑھی دوپٹہ بڑی مشکل سے ہم لوگ پہنچے تھے، کچے راستوں سے ہوتے ہوئے پہاڑی اور کھائی کے درمیان سے سوزوکی ایمبولینس میں سامان لے کر وہاں جانا تھا۔ گڑھی دوپٹہ سے ہی لوگوں نے آکر بتایا تھا کہ وہاں بُرا حال ہے، لوگ جو ملبے میں دَب گئے وہ مَر گئے ہیں اور جو ملبے سے کسی نہ کسی طرح نکل آئے ہیں، زخمی پڑے ہوئے ہیں۔ کوئی دیکھنے والا نہیں ہے۔ کوئی امداد نہیں پہنچی ہے۔ کسی نہ کسی طرح وہاں پہنچنا ضروری ہے۔

میرے ساتھ ہڈیوں کے ایک ڈاکٹر تھے، میں خود سرجن تھا اور ہمارے ساتھ ایک تھیٹر کا اسسٹنٹ تھا مراد۔ ہم لوگوں کے ساتھ دو اور ٹیمیں بھی گڑھی دوپٹہ پہنچی تھیں۔ ہمارے پاس کھانے پینے کی چیزیں، کپڑے، کمبل وغیرہ کچھ نہیں تھا۔ ہم لوگ صرف میڈیکل کا امدادی سامان لے کر آئے تھے۔

وہاں پہنچتے ہی رَش لگ گیا تھا، وہ پورا دن رات گئے تک ایمرجنسی لائٹوں میں ہم لوگ کام کرتے رہے۔ ایسے لوگ جن کے ہاتھ پیروں کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں، مگر کھلے زخم نہیں تھے شکیل نے انہیں پلاسٹر لگا کر عارضی طور پر Immobilise کردیا تھا تاکہ ٹوٹی ہڈیاں ہل جل کر مزید زخم کو بُرا نہ کریں، کھلے زخموں کو ہم نے صاف کر کے پٹی کر دی تھی۔

دوسرے دن دوپہر بارہ بجے تک ہمارا سامان ختم ہو گیا تو یہی فیصلہ ہوا کہ ایمبولینس میں ایک مریض کو جسے داخلے کی ضرورت تھی کو لے کر ہم لوگ واپس مظفرآباد چلیں۔ مریض کو عباس انسٹی ٹیوٹ میں داخلے کی اور ہمیں دوبارہ سامان بھر کر مزید امداد لے کر گڑھی دوپٹہ آنے کی ضرورت تھی۔

آہستہ آہستہ پہاڑوں کی اُترائی سے اُترتے ہوئے اور چھوٹی موٹی چڑھائیوں پر چڑھتے ہوئے جب ہم لوگ عباس میڈیکل انسٹی ٹیوٹ سے تھوڑا دور ہی پہنچے تھے کہ ہماری گاڑی کے ایک پہیّے میں پنکچر ہوگیا اورساتھ ہی نہ جانے کیوں بارش بھی شروع ہو گئی تھی۔ شدید بارش میں یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ گاڑی کا پہیّہ بدلا جائے۔ گاڑی کی تمام لائٹیں جلا کر ہم سڑک پر ہی کھڑے ہوکر بارش رکنے کا انتظار کرنے لگے تھے۔

ابھی رُکے ہوئے تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی کہ برابر میں ایک بڑی ہیوی ایمبولینس آکر رُکی جسے ایک مقامی ڈرائیور چلا رہا تھا۔ اس کے برابر میں وکٹر بازینوف بیٹھا ہوا تھا، میں اسے فوراً ہی پہچان گیا۔ میں مقامی ڈرائیور کے سوال کا جواب دیے بغیر رشین میں وکٹر سے مخاطب ہوگیا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3