سندھ کے بخار سے دنیا بھر میں تباہی مچ سکتی ہے


حیدر آباد سندھ میں میں پائے جانے والے ایک نئے بخار نے پوری دنیا کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ امریکا اور برطانیہ سمیت دیگر ملکوں نے اس معاملے پر بہت تشویش کا اظہار کیا ہے اوراگر کوئی پریشانی نہیں تو وہ سندھ حکومت کو یا وفاقی حکومت کو نہیں۔ یہ خطرناک ٹائفائیڈ تو سندھ میں ہونا ہی تھا، سندھ کے پینے کے پانی میں گٹر کا ملا پانی جو پورا صوبہ پی رہا ہے۔ اس کا آخر کوئی نہ کوئی نتیجہ تو نکلنا ہی تھا۔

اس نئے بخار کو ایکس ڈی آر ٹائیفائیڈ کا نام دیا گیا ہے۔ اس بخار نے امریکا اور برطانیہ کو بھی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے کیونکہ پاکستان سے ان ملکوں کو جانے والے مریضوں میں یہ ایکس ڈی آر ٹائیفائیڈ پایا گیا ہے۔ 2016 سے ابتک اس خطرناک بخار کے 8 ہزار مریض تشخیص ہو چکے ہیں، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق سندھ کے علاقوں کراچی، حیدر آباد اور سانگھڑ سے ہے۔ متاثرہ مریضوں میں زیادہ تر تعداد اسکول جانے والے بچوں کی ہے جو اسکولوں میں گندہ پانی پینے کے باعث اس سپر بگ ٹائیفائیڈ کے مرض کا شکار بنے۔ اس بخار میں سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ اس پر کوئی اینٹی بایوٹک اثر نہیں کر رہی۔

امریکا نے تو گذشتہ ماہ پاکستان کا سفر کرنے والے اپنے شہریوں کے لئے وارننگ جاری کردی ہے جس میں ان کو کہا گیا ہے کہ وہ سندھ، خاص کر حیدر آباد جانے سے پرہیز کریں۔ عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے پر حکومت سندھ کے ساتھ مل کر کام کرنے کا پلان بنا رہے ہیں مگر سندھ کی وزیر صحت ڈاکٹر عزرا پیچوہو نے صاف کہہ دیا ہے کہ اس سپر بگ ٹائیفائیڈ پر قابو پانا سندھ حکومت کے بس کی بات نہیں ہے اور وفاقی حکومت ہماری مدد کرے۔

یہ بخار گندہ پانی پینے سے بیکٹریا کے ذریعے ٖپیدا ہورہا ہے۔ سندھ میں پینے کے پانی کی حالت انتہائی خراب ہے اس معاملے میں اربوں روپے کی کرپشن بھی ہوئی ہے اور اس سلسلے میں سندھ کے سینئر قانون دان شہاب اوستو کی ایک آئینی پٹیشن پر سابق چیف جسٹس، جسٹس ثاقب نثار نے، سپریم کورٹ کے رٹائرڈ جج جسٹس امیر ہانی مسلم کی صدارت میں سندھ پانی کمیشن تشکیل دیا تھا۔ جس میں پورے سندھ سے پینے کے پانی کے سیمپل لے کر لیبارٹیز سے چیک کر وائے گئے تو یہ خوفناک رپورٹ سامنے آئی کہ کراچی سے کشمور تک سندھ کی 80 فیصد آبادی جو پانی پیتی ہے اس میں گٹر کا گندا پانی ملا ہوتا ہے۔

سندھ پانی کمیشن نے بہت محنت کی جس سے کچھ بہتری آئی اور مزید بہتری کی امید پیدا ہوئی مگر ایک دن پہلے ہی پانی کمیشن کی میعاد ختم ہونے پر اس میں اضافہ نہیں کیا گیا۔ جس سے عوام میں کافی مایوسی ہے کیونکہ سپر بگ ٹائیفائیڈ کی وجہ خراب پانی پینا بتایا جا رہا ہے جس کی وجہ سے سے سندھ کے ہر گھر میں خوف چھایا ہوا ہے۔

ہم نے تو ہالی وڈ کی فلموں میں دیکھا ہے کہ کسی چھوٹے سے گاؤں میں کوئی بیمار ہو تا ہے، اس پر دوائی اثر نہیں کرتی، معاملا فورا ریاست کے ہیڈ کوارٹر سے ہوتا ہوا واشنگٹن پہنچتا ہے، اعلٰی سطح کی میٹنگس ہو تی ہیں، ہیلی کاپٹر پھڑ پھڑاتے ہیں، ماہرین کی ٹیمیں متاثرہ علاقوں میں پہنچتی ہیں، تحقیقات ہوتی ہیں، بیماری کی جڑ تک پہنچتے ہیں۔ مگر ظاہر ہے ہم امریکا نہیں۔ یہاں ایسا تو کچھ نہیں ہونا۔ ہمیں تو اس خطرناک بیکٹریا بخار کی سنگینی کا پتہ بھی اب چلا ہے جب امریکا نے اپنے شہریوں کے لئے سندھ، پاکستان سفر کی وارننگ جاری کی ہے۔

وفاقی حکومت کو چاہیے کہ ٹائم ضایع کیے بغیر ہنگامی بنیادوں پر معاملہ اپنے ہاتھوں میں لے اور ماہرین کی ٹیمیں تشکیل دے ورنہ اس ٹائیفائیڈ کو پورے ملک اور پھر دنیا میں پھیلنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ ہماری حکومت ایک ایسے اس بخار کو سیریس نہ لے کر غلطی کر رہی ہے جس پر کوئی اینٹی بایوٹک اثر نہیں کر رہی اور جس پر امریکا اور برطانیہ کے ماہرین تک میں میں تشویش پیدا ہو گئی ہے۔

سندھ حکومت نے ایک ہفتہ قبل اس خطر ناک ٹائیفائیڈ سے نمٹنے کے لئے جو عوامی ایڈوائیزری جاری کی ہے اس میں عوام کو پانی ابال کر پینے، ہاتھ اچھی طرح دھونے، بازار سے چیزیں خرید کر کھانے سے پرہیز کرنے، فروٹ اور سبزیاں گرم پانی سے دھوکر کھانے جیسے مشورے تو شامل ہیں لیکن لوگوں کو اب محسوس ہونا شروع ہوا ہے کی معاملہ اتنا سادہ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).