واہگہ کی اونچی ٹانگ اور ہمارا لال قلعہ


بھارت میں الیکشن، پلوامہ کا حملہ، جیش محمد کی ذمہ داری قبول، نہیں کشمیری مظالم کا بدلہ، کشمیری مائیں بہنیں مشکل میں، نہیں مودی کا ڈرامہ ہے۔ ارے طالبان کو دیکھو، امریکہ کو بھیگی بلی بنائے بیٹھے ہیں ارے واہ سبحان اللہ، مجاہدینِ اسلام، مرد مومن، کل تک یہی مردود ہمارے جوانوں کے سروں سے کھیلتے تھے کیا ہوا آج تو امریکہ کو قابو کر لیا نا، اب تو بھارت کی شامت آئی ہے۔ اب افغان زمیں آزاد کرانے کے بعد بس کچھ دن اور ہیں پھر کشمیر اپنا ہوا۔ پھر سرینگر کی ہائی وے ہو گی اور اس پر ہم اپنی گاڑی پوری رفتار سے دوڑا رہے ہوں گے۔ پھر تو ادھر بھی جا کر عیاشیاں ہوں گیں۔

ویسے ایک بات ہے اگر آپ کا تعلق جانداروں کی قبیل جانوروں سے ہے تو پھر ہر جگہ آپ کے لیے سکون ہے، دنیا بھر کے پنگوں سے آپ کا کیا تعلق۔ اور اگر آپ انسان نما جانور ہیں، تو پھر یہ پنگے آپ ہی کے پیدا کردہ ہیں۔ خیر صاحب جی! اتنی بھی کیا قیامت اگر تھر کے بھوکوں کے لیے گندم کی بوریوں میں مٹی چلی گئی، کیا ہوا اگر کسی بڑی پگ والے کی زمین بچانے کی خاطر کسی چھوٹے موٹے سیلاب کا رخ موڑ دیا گیا، کیا ہوا اگر ٹھیکے پر بنے سکولوں کے ڈھانچے ہلکہ سا زلزلہ بھی برداشت نہ کر سکے۔

حضور اگر تو آپ انسان ہیں تو پھر ایسا ویسا ہر مسئلہ آپ کو اپنا لگے گا پھر ہر ایک انسان کی میت آپ کو انسانیت کی لاشہ معلوم ہو گی۔ پھر آپ کا ماتھا بھی شاید پر شکن دکھائی دے۔ پھر کسی کشمیری کی لاش پر بین کرتی مائیں ہوں یا اے پی ایس پشاور کی نوخیز کلیاں اور تو اور، ممبئی حملوں کا دکھ بھی آپ کو اپنا ہی محسوس ہو گا۔

ویسے آج کل جہادِ کشمیر کا سیزن ہے اور غمِ روزگار میں مبتلا ہر کشمیری ہی مشکل کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ یقیناً ہم کشمیریوں کے لیے یہ دنیا کسی بھی جہنم سے کم نہیں، آزاد کشمیر میں ہیں تو اپنے بچے بیشک مریں لیکن مقبوضہ کشمیر کی کو آزاد کرانا ہے اور اگر مقبوضہ میں ہیں تو پھر پتھر اٹھانا ہے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ بجا ہے کے بچپن ہی سے ہم پاکستانیوں بالخصوص کشمیریوں کا خواب لال قلعے کو مسخر کرنا رہا ہے، ہمارا ہر بچہ نسیم حجازی کی لکھی تاریخ پڑھے گا اور پھر خود کو 2019 کا ابن القاسم گمان کرے گا۔

ہمارے بڑوں کا حال توبچوں سے بھی برا ہے، ہر قومی دن پر ٹیڑھی اور میلی آنکھوں کو نکالنے کی وعید سناتے ہیں اور پھر وہی ہاتھ جو ان جذباتی تقریروں میں جھول رہے ہوتے ہیں، اِس ملک کے عوام کا گلا گھونٹتے ہیں۔ یہی حال سرحد کے دوسرے طرف بھی ہے، عوام بنیادی ضروریات کو ترستے ہیں اور بھارتی حکمران پاکستان کو ”سبق“ سکھانے کا ”سبق“ سناتے ہیں۔

ہمارے یہاں شدت پسندی کے جتنے بھی مراکز ہیں چاہے وہ سرحد کے اِس پار ہوں یا اُس پار ان کا کام بس اتنا ہی ہے کہ لڑاؤ بِھڑاؤ اور اپنا حصہ وصول کرو۔ اب ایک طرف سے سرجیکل اسٹرائیک کا نعرہ لگتا ہے تو دوسری طرف سے آواز آتی ہے کے لال قلعہ ہمارا ہے، پھر آواز آتی ہے نہیں اس بار واہگہ میں ہمارے جوان نے ٹانگ زیادہ اونچی اُٹھائی۔ اس قدر غیر سنجیدہ ماحول ہے کہ مت پوچھئیے، بس تیاریاں ہو رہی ہیں تو صرف غزوہ ہند کی۔

او بھائی! بحیثیت قوم اپنے کرتوت تو ذرا دیکھیں آپ کے ہاں ہر چور اچکا جتنا بڑا ڈاکا ڈالتا ہے اتنا ہی اُسکی پگ کا شِملہ مزید اُونچا ہوتا ہے۔ کوئی ایٹمی رازوں میں ہیر پھیر کرے تو وہ ہمارا ہیرو، کوئی پانی سے گاڑی چلائے تو وہ سائنس دان، دو نمبری اور ہیرا پھیری میں نمبر آپ کا پہلا اور مہدی آپ کی قیادت کو تشریف لائیں گے، واہ رے ہماری منافقت۔

اصل میں ایسا مسئلہ خود پیدا نہیں ہوتا، یہ مسئلے پیدا کیے جاتے ہیں تاکہ بنیادی مسائل سے توجہ ہٹی رہے۔ برصغیر پاک و ہند جہاں دنیا کی آبادی کا ایک بڑا حصہ رہائش پذیر ہے، اگر وہ اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کی بجائے آپس میں لڑیں گے تبھی تو انکل سام کی اسلحہ فیکٹری چلے گی نا، ورنہ تو کام ہی ٹھپ ہو جائے۔ اگر ہندوستانی اور پاکستانی حکومتیں کشمیر کا مسئلہ حل کر کے لوگوں کے بنیادی مسائل حل کریں گی تو دنیا اسلحہ کِسے بیچے گی۔

ایک مشہور قول یاد آ رہا ہے کہ پہلے جنگیں لڑنے کے لیے اسلحہ تیار کیا جاتا تھا اور اب اسلحہ بیچنے کے لیے جنگیں کرائی جاتی ہیں۔ راجیو گاندھی نے کہا تھا کہ اگر سیکڑوں سال تک، بھیڑیوں کی مانند آپسی لڑائیاں لڑنے والی مغربی اقوام امن کے ساتھ رہ سکتی ہیں تو ہم ایشیائی جو کئی ہزار برس ایک وحدت تلے گزار چکے ہیں، ہم کیوں بھائی چارے کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ خیر پھر ہوا تو وہی، اسلحہ بیچا جاتا یا آدھے دماغ والے مشرقی امن کی زندگی بسر کرتے چنانچہ پہلے شاہ فیصل اور بھٹو کو ٹھکانے لگایا گیا۔ پھر راجیو کا قصہ تمام ہوا۔ بس ایک قذافی تھا جو بہت دیر تک حلق کا کانٹا بن کر اٹکا رہا اور اب کہیں جا کر اس کا قصہ تمام ہوا۔

بہرحال اب جب کے دنیا بارود سے کھیل کھیل کر تھک بیٹھی ہے، تو علاقائی اتحادات ہی اِسے آخری حل نظر آتے ہیں۔ اب فیصلہ کی باری ہماری ہے، کیا ہمیں اِنہی ناولوں اور ردی کی کتابوں کی بنیاد پر کشمیر کا فیصلہ کرنا ہے جو پڑھ کر ہمارے بچے افغانستان کی آگ میں کودے، وہی جہاد جس کے لیے سعودی ریال اور امریکن اسلحہ اٹھا کر، ہماری کئی نسلیں ان دیکھی دُشمًنی کے شمشان گھاٹ پر قربان ہوئیں۔ اب فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے، یا تو ایشیا پھر سے اپنی تہذیب کی چادر اوڑھ کر عجائباتِ عالم میں اضافہ کرے گا یا پھر، تًا قیامت ہندوستانی پاکستانی دشمن رہیں گے، مسئلے کا حل میز پر بیٹھ کے نکالنا ہے یا ابھی مزید آگ لگانی ہے، مزید کشمیری مروانے ہیں یا اتنا کافی ہے، ۔ فیصلہ ہونے کو ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).