کشمیر آزاد ہو چکا!


ہوش سنبھالنے کے بعد، خارجہ امور، پاکستان کے بین الاقوامی معاملات اور سویلین ملٹری تعلقات سے بہت دلچسپی رہی۔ جب سے لفظوں کی گھسیٹا کاری شروع کی اس دوران بھی یہ کوشش رہی جد و جہد کشمیر، پاک بھارت چپقلش، افغانستان کی صورتحال، بڑی طاقتوں کی خوشنودی کے لیے مفت میں ریاست کا پراکسی کردار، پڑوس اور خلیج کے ممالک میں سینڈوچ بنی حالت اور سویلین ملٹری تعلقات کو سمجھنے اور اپنی ناقص سوچ دنیا تک پہنچانے کی کوشش کروں۔

لیکن وہ کہتے ہیں بڑی مچھلی ہمیشہ چھوٹی مچھلی کو نگل لیتی ہے، یہی حال ہمارے ملک میں خبر اور ابلاغ کی دنیا کا ہے۔ پچھلا پورا ہفتہ میڈیا اور حکومت کی توجہ کا مرکز سعودی ولی عہد کا دورہ رہا۔ اسی دوران مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوامہ میں بھارتی فوجی کانوائے پر بارود بھری گاڑی کی مدد سے خودکش حملہ ہوا جس کے نتیجے میں 46 انڈین فوجی جہنم واصل ہو گئے۔ جس کے بعد حسب توقع انڈین میڈیا پر آہ و فغاں شروع ہو گئی، بغیر ثبوت و تحقیقات لمحاتی تاخیر کے بغیر الزام پاکستان اور جیش محمد پر لگا۔

بھارتی وزیراعظم مودی نے ایک بار پھر اپنی کوتاہ سوچ اور کم ظرفی کا ثبوت دیتے ہوئے طعنے و الزام تراشی کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا پڑوسی جو کنگال ہونے کے قریب ہے اور کشکول اٹھائے دربدر پھر رہا ہے، وہ ہمیں تباہ کرنا چاہتا ہے، ہم اسے سبق بھی سکھائیں گے اور دنیا میں تنہا بھی کریں گے۔ سر پر کھڑے بھارتی انتخابات کو مدنظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو نریندر مودی کی مجبوری سمجھ آتی ہے وہ ہندو انتہا پسندانہ جذبات ابھار کر اقتدار میں آئے تھے، اور اب تک ان کے پیش نظر یہی حکمت عملی ہے۔

پرفارمنس کے میدان میں ان کا حال پتلا ہے، معاشی میدان اور رشوت ستانی کے خاتمے اور غربت مٹانے میں وہ کوئی معجزہ نہیں دکھا پائے۔ حالیہ چار ریاستوں میں ہوئی انتخابی شکست کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں۔ بی جے پی کے سینئر رہنما سبرامینم اس شکست کے بعد پہلے ہی کہہ چکے آئندہ انتخاب وہ کارکردگی نہیں بلکہ مذہبی اور نسلی تعصب ابھار کر جیتنے کی کوشش کریں گے۔

لیکن سوشل میڈیا پر جس طرح تمام ہندو آبادی اور بعض کانگریس سے تعلق رکھنے والے رہنما بھی پاکستان بارے شعلہ افشانی میں یکسو ہیں، یہ رویہ ہمارے ہاں موجود ایک طبقہ جو انڈیا کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے اس کی آنکھیں کھولنے کو کافی ہونا چاہیے۔ درویش کا ہمیشہ سے موقف ہے کانگریس ہو یا بی جے پی، خیر کی امید کسی سے نہیں رکھنی چاہیے۔ کشمیر پر بھی دونوں جماعتوں کا موقف یکساں ہے اور پاکستان کے بارے میں بھی بغض و عناد دونوں کے دلوں میں موجود ہے۔

جہاں تک پاکستان کو غربت کے طعنے دینے کی بات ہے انڈیا کے بارے واجبی معلومات رکھنے والے کو بھی علم ہوگا شائننگ انڈیا صرف فلم اور ڈراموں تک محدود ہے۔ وہاں کی 80 کروڑ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرتی ہے۔ آدھی آبادی کے سر پر سائباں اور ٹوائلٹ کی سہولت میسر نہیں۔  آئے روز کسانوں کی اجتماعی خود سوزی کی خبر ملتی ہے۔

چند دوستوں کا شکوہ تھا انڈیا کے متعلق کیوں نہیں لکھ رہے؟ درویش کی عادت مگر یہ ہے کہ کسی بھی موضوع پر بغیر تحقیق لکھنے سے اجتناب رکھا جائے، دوسرا حکومت پاکستان کے سرکاری موقف کا انتظار تھا۔ جہاد کشمیر اور افغانستان پر گہری نگاہ رکھنے والے اور ماضی میں اس سے منسلک مختلف تنظیموں کے کئی لوگوں سے رابطہ کیا، کرید کرید کر مختلف زاویوں سے ہماری طرف سے کسی انفرادی گروہ کی کارروائی کے متعلق استفسار کیا، جواب مگر واضح اور دو ٹوک انداز میں نہیں میں ملا۔

خود بھارتی میڈیا کے مطابق حملہ آور کشمیری شہری اور بھارتی فوجی افسر کا بیان ہے اتنی چیک پوسٹوں سے اتنا بارودی مواد گزارنا ممکن نہیں۔ یہ بھی اعتراف ہو چکا ہے کہ بارودی مواد بھارتی ساختہ تھا۔ منطقی لحاظ سے اس سیاپا فروشی پر بھارتی حکومت اور عوام کو معافی مانگنی چاہیے یا کم از کم ندامت کا اظہار تو لازم ہے مگر اس کی توقع رکھنا نری جہالت ہے۔

دیر آید درست آید، پاکستانی وزیراعظم عمران خان کی طرف سے جو مختصر جامع اور مدلل جواب آیا ہے اس کی جتنی بھی تعریف ہونی چاہیے کم ہے۔ انہوں نے تحقیقات میں تعاون کی پیشکش بھی کر دی، کہہ دیا ہمارے خلاف ثبوت ہیں تو فراہم کریں ہم کارروائی کے لیے تیار ہیں۔ جنگ پر اگر مصر ہیں تو فبہا، آپ سوچ لیں ہم سوچیں گے نہیں آپ کی سوچ سے پہلے اس کا جواب آپ کو دیں گے۔ بات واضح ہے کہ ثبوت انڈیا کے پاس ہوتے تو بیوہ عورت کی طرح واویلہ نہ مچاتا بلکہ اب تک ہمیں عالمی برادری میں گھسیٹ چکا ہوتا۔

چنانچہ سبکی سے بچنے کے لیے ہی وہ اب یہ کہہ کر فرار ہو رہا ہے کہ چونکہ پاکستانی وزیراعظم نے اس واقعے کو نہ تو دہشتگردانہ کہا نہ اس کی مذمت کی، لہذا ہم کیسے کوئی بات کریں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے ہم کیوں اس کی مذمت کریں، خود اقوام متحدہ کے مطابق بھارت کشمیر پر غیر قانونی قابض ہے اور اس کا چارٹر قابض فوج کے خلاف مقامی آبادی کو مزاحمت کا حق دیتا ہے۔ تمام دنیا برہان وانی کی شہادت کے بعد شروع ہوئی مزاحمتی تحریک کو انتفادہ کے طور دیکھ رہی ہے اور بھارتی افواج کی طرف سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں بھی سب کی نظر میں ہیں۔

کون با شعور ہوگا جو اپنے حقوق کے لیے لڑی جانے والی جنگ کی مذمت کرے گا، ہاں اگر پاکستان کی طرف سے مداخلت کے ثبوت ہوتے تو پھر بھی بات کسی حد تک سمجھ آتی تھی۔ (حالانکہ درویش کی ذاتی رائے میں ہم بطور ریاست کمزوری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ بھارتی وزیراعظم سر عام پاکستان توڑنے، بلوچستان، گلگت اور فاٹا میں شورش کو ہوا دینے کا اعتراف کر چکا۔ کلبھوشن نامی جیتا جاگتا اپنی سر زمین پر بھارتی مداخلت کا ثبوت بھی ہمارے پاس موجود، تو آخر ہمیں کشمیریوں کی اعلانیہ اعانت میں کیا امر مانع ہے ) ۔

اب مگر کشمیر آزادی کی تحریک جس سطح پر پہنچ چکی، اسے کسی بیرونی مدد کی ضرورت نہیں رہی۔ کشمیر کی آزادی نوشتہ دیوار ہے۔ بلکہ آزاد ہو چکا، اب زیادہ عرصہ انڈیا کا قبضہ برقرار رکھنا ممکن نہیں۔ اتنی بڑی آبادی جب ذہنی طور پر آزاد ہو جائے چاہے جتنی مرضی طاقت استعمال کرلیں اسے قید رکھنا ممکن نہیں۔ انڈیا جوں جوں پیلٹ گنز کا استعمال کر کے معصوم لوگوں کی بینائیاں چھین رہا، چادر چار دیواری کا تقدس پامال کر رہا، بیگناہ افراد کو دہشتگرد کہہ کر شہید کر رہا اس کے تسلط کے دن اسی تیزی سے گنے جا رہے۔

ثبوت کے طور پر دیکھ لیں، پلوامہ حملے کے بعد بھی میجر سمیت چار فوجی ہلاک ہوئے، دو ایک مزید جگہوں سے یہی اطلاعات ہیں، انٹرنیٹ کی بندش اور میڈیا پر قدغن کے ذریعے جسے دبایا جا رہا۔ جنون میں انڈیا اتنا اندھا ہو چکا، اسے اپنے نام نہاد سیکولر نقاب اترنے کی خبر بھی نہیں، سکھ سیاستدان نوجوت سنگھ سدھو کے ٹی وی شو پر پابندی لگادی۔ فنکاروں اور ادیبوں تک کو پاکستان کا نام لینے پر دھمکایا جا رہا۔ خبریں ہیں کہ انڈین یونیورسٹیز میں زیر تعلیم کشمیری نوجوانوں اور کاروباری افراد پر حملے کیے جا رہے ہیں۔ خوش آئند مگر یہ ہے کہ سکھ برادری بھی اب انڈیا کا مکروہ، بدبودار، سفاک، غلاظت سے لتھڑا اور بھیانک چہرہ سمجھ چکی، چنانچہ کشمیریوں کو سکھ پناہ دے رہے ہیں۔ پھر کہہ رہا ہوں کشمیر تو آزاد ہو چکا، ان شاءاللہ وہ دن دور نہیں جب سکھ بھی بھارتی تسلط سے آزادی حاصل کرلیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).