پرتشدد واقعات میں پاکستانی نہیں لوکل کشمیری ملوث ہیں
انڈین حکومت کے ذرائع یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ سنہ 2014 سے نریندر سنگھ مودی کی حکومت قائم ہونے کے بعد سے کشمیر میں امن قائم کرنا ایک بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ جس کی بہت سی وجوہات میں سے کشمیری مجاہدین کی طرف سے ایک کے بعد ایک حملوں نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان امن قائم کرنے کے لئے بات چیت بھی شروع نہیں ہونے دی۔ اعداد و شمار کے مطابق، ان حملوں میں ہر 2 کشمیری حریت پسندوں کے بدلہ ایک بھارتی فوجی جوان کی موت ہوئی۔ اس کے علاوہ ہر 82 کشمیری مجاہدین کی شہادت پر 18 عام کشمیری لوگوں کی جانیں بھی قابض بھارتی افواج کے ہاتھوں گئی ہیں۔
گزشتہ سال 8 جولائی 2016 ء کو برہان وانی کی شہادت کے بعد کشمیر وادی میں حالات بہت زیادہ خراب ہو چکے ہیں۔ کشمیری نوجوان سڑک پر آ چکے ہیں۔ ہر روز کشمیری شہید رہے ہیں، بھارتی فوجی مارے جا رہے ہیں۔ اور مودی حکومت کی ہر ممکن تدبیر کے باوجود کشمیر میں معمول کی زندگی کو واپس لانے کی کوششیں ناکافی ثابت ہو رہی ہیں۔ انڈین حکومت کے حمایت شدہ ادارے ساوتھ ایشیا ٹیرریزم پورٹ (ایس اے ٹی پی) پر موجود 2014 ء سے 2018 ء تک کے ڈیٹا کے تجزیہ کے مطابق وادی کے حالات 2018 ء کے بعد پہلے سے مزید کشیدہ ہوئے ہیں۔ گزشتہ سال چھوٹے بڑے ملا کر کشمیری مجاہدین نے کل 205 حملے کیے۔ تاہم 2017 ء میں تشدد کے کل 164، 2016 ء میں 112، 2015 ء میں 88 اور 2014 ء میں 90 معاملے سامنے آئے تھے۔ وہیں 2019 ء کے دو مہینے میں اب تک 16 حملے ہو چکے ہیں۔
ان اعداد و شمار کی روشنی میں ذرا ان نقاط پر غور کیجئیے :۔
1) :۔ تشدد کے اتنے واقعات میں یہ ناممکن ہے کہ پاکستان سے اتنی بڑی تعداد میں مجاہدین کی کشمیر میں دراندازی ہوتی ہو۔
2) :۔ انڈین حکومت کے اپنے ذرائع یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ یہ مقامی نوجوان ہیں جو اتنی بڑی تعداد میں حملے کر رہے ہیں۔
3) :۔ پلوامہ حملہ کے بعد اس کے فدائی خود کش بمبار عادل احمد ڈار ولد غلام حسن ڈار عرف وقاص کمانڈو ساکن گنڈی باغ کاکا پورہ پلوامہ کے والد نے کہا کہ عادل کو 2016 میں قابض بھارتی فوجیوں نے سکول سے واپسی پر روکا، تشدد کیا اور اُس سے ناک زمین پر رگڑوائی تھی، جس کا اس نے بدلہ لیا۔
4) :۔ عادل کی ماں فہمیدہ کا کہنا ہے بھارتی فوجیوں کے تشدد کے بعد عادل ایسے انتہائی قدم پر مجبور ہوا اور ہم بھی روزانہ ایسی ہی تکلیفیں سہتے ہیں۔
5) :۔ پلوامہ خود کش حملہ جس مقام پر ہوا وہ لائن آف کنٹرول سے 150 کلو میٹر اندر واقع ہے۔ لائن آف کنٹرول بارڈر سے لے کر اتنی دور اندر تک جگہ جگہ لگے بھارتی فوج کے ناکوں سے بچ کر پاکستانی درانداز کا پہنچنا ناممکن ہے۔
6) :۔ حملے میں آئی ای ڈی سے بھری گاڑی استعمال کی گئی جس کی تیاری میں مہینوں لگتے ہیں۔
7) :۔ مقبوضہ وادی میں ہر 7 کشمیریوں کے لئے ایک فوجی اہلکار تعینات ہے۔ وادی کے چپے چپے پر بھارتی فوج کی موجودگی کے باوجود اتنے عرصے تک حملے کی منصوبہ بندی کیسے ہوتی رہی؟
8) :۔ اکیس ( 21 ) سال کا اکیلا نوجوان یہ حملہ کیسے کر سکتا ہے اور جگہ جگہ چیک پوسٹس ہونے کے باوجود، اتنی بڑی مقدار میں بارودی مواد پاکستان سے وادی کے اندر پہنچ کیسے گیا؟
9) :۔ نیز 2,500 فوجیوں کی نقل و حرکت سے پہلے اس بات کا تعین کیوں نہیں کیا گیا کہ محفوظ راستہ کون سا ہے؟
ان دلائل سے صاف ظاہر ہے کہ یہ خود کش بم دھماکہ پاکستان سے جانے والے کسی فدائی نے نہیں کیا بلکہ یہ مقامی کشمیری نوجوان ہیں جو بھارتی افواج پر جان لیوا حملے کر رہے ہیں۔ ویسے بھی کسی قوم کو جب پوری طرح دیوار سے لگا دیا جائے تو اُس کا ردعمل تشدد پر ہی مبنی ہوسکتا ہے۔ بھارت کو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ اس کی اپنی لگائی ہوئی آگ ہے جس میں وہ جل رہا ہے اگر وہ اس آگ کو روکنا چاہتے ہے تو کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت دے بصورت دیگر بھارتی فوج پر مقبوضہ کشمیر میں حملوں میں کمی کی بجائے شدت آئے گی۔
دوسری طرف ہم پاکستانی عوام کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ ہم کیونکر ایسی تنظیموں کا وجود اپنی سر زمین پر برداشت کرتے ہیں جن سے وابستہ کارکنان اور لیڈر دوسروں کی سرزمین پر ہوئے تشدد کے واقعات سے اپنا تعلق جوڑتے ہیں۔ جنرل (ر) امجد شعیب اور جنرل (ر) پرویز مشرف ہرگز ایسی شخصیات نہیں ہیں کہ جن کا کہا ہوا فی الفور اور بغیر کسی دلیل کے مسترد کیا جا سکے۔ ان دونوں جرنیلوں نے ببانگ دہل ٹیلی ویژن پر آ کر فرما دیا ہے کہ ملا مسعود اظہر کی جیش محمد ہرگز پاکستانی اداروں کی چہیتی نہیں ہے۔ بلکہ جنرل مشرف تو اس حد تک بیان دے گئے کہ مسعود اظہر کی جماعت جیش محمد نے اُن پر قاتلانہ حملہ بھی کیا۔
معلوم نہیں وہ کون سی طاقتیں ہیں جو جیش محمد کے خلاف کسی بھی طرح کے کریک ڈاؤن کے راستے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔ جیش محمد کو حکومت ُپاکستان نے غیر قانونی قرار دیا ہوا ہے۔ اس کے باوجود اس کے لوگ سرعام جنوبی پنجاب سمیت آزاد جموں و کشمیر کے علاقوں میں سرگرم عمل ہے۔ سنہ 2000 میں جموں و کشمیر سے ایک طیارے کے ہائی جیک ہونے کے بعد ہوئے ہائی جیکرز اور انڈین حکومت کے مذاکر ات کے بعد ملا مسعود اظہر کو کشمیر کی جیل سے رہا کیا گیا اور قید سے رہائی پانے کے بعد اُس نے جیش محمد نامی دہشت گرد گروہ قائم کیا۔
جیش کے لیڈروں کے طالبان کے ساتھ انتہائی گہرے تعلقات ہیں بلکہ جیش کو طالبان کی دوسری تنظیم بھی مانا جاتا ہے۔ جیش محمد والے اسامہ بن لادن اور ملا محمد عمر اور اب طالبان امیر ملا نور ولی محسود کو اپنا امیر سمجھتے ہیں۔ حکومت پاکستان نے جب جہادی تنظیموں پر پابندی عائد کی تو اس کا نام خدّام اسلام کر دیا گیا اور یہ اب بھی سرگرم عمل ہے۔
برصغیر پاک و ہند پر منڈلاتے جنگ کے سائے کو دور کرنے کے لئے اور امن کے قیام کے لئے ہمیں دنیا بھر کے ممالک کی طرف سے کیے گئے مطالبات پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور ملکی قوانین کے تحت جن تنظیموں کو دہشت گرد قرار دیا گیا ہے ان میں طالبان کے علاوہ حقانی نیٹ ورک، فلاح انسانیت، الرشید ٹرسٹ، اختر ٹرسٹ، جماعت الدعوۃ، سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی، تحریک جعفریہ، روشن منی ایکسچینج، حاجی خیر اللہ حاجی ستار منی ایکسچینج، حرکت جہاد الاسلامی، اُمہ تعمیرِ نو اور راحت لمیٹڈ وغیرہ وغیرہ پر سخت ترین پابندی لگائی جائے اور اِن کے خلاف اس طرح کا سخت ترین کریک ڈاؤن کیا جائے کہ یہ دوبارہ سر اُٹھانے کے قابل نہ رہ سکیں۔
- خوشبو کی انڈسٹری اور اس سے وابستہ راز - 01/03/2020
- پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے بعد اب آئی باری سوشل میڈیا کی - 04/04/2019
- مرد اور عورت کے درمیان دوستی میں بے جا خواپشات رکھنے کا ذمہ دار مرد قرار - 12/03/2019
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).