سوات کی زبانیں خطرے سے دوچار


اکیس فروری کو مادری زبانوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یونیسکو نے نومبر 1999 کو اپنے پیرس کے ہیڈکوارٹر میں مادری زبانوں کے عالمی دن کو منانے کا اعلان کیا۔ مادری زبانوں کو منانے کا مقصد ان چھوٹی زبانوں کو تحفظ اور فروغ دینا ہے جو معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں۔ ان زبانوں کی معدومیت سے مقامی ثقافت اور اس زبان سے جڑے حقائق بھی معدوم ہوجاتے ہیں۔ اسی لئے یونیسکو نے ذریعہ تعلیم کو بھی مادری زبان میں دینا لازمی قراردیا۔ ترقی یافتہ ممالک میں سرکاری تعلیم مادری زبان میں دی جاتی ہے۔ اس لئے ترقی یافتہ ممالک کا معیار تعلیم بہ نسبت ترقی پذیر ممالک بہت بلند ہے۔

پاکستان میں بھی 74 زبانیں بولی جاتی ہیں۔ جن میں بڑی زبانوں میں سے پنجابی، پشتو، ہندکو، سرائیکی وغیرہ ہیں۔ لیکن ایسے کئی چھوٹی زبانیں بھی موجود ہیں جن میں سے کئی معدوم ہوچکے ہیں اور کئی کو معدومیت کا خطرہ ہے۔ ان خطرے سے دوچار زبانوں میں سے 7 زبانیں صرف وادی سوات میں بولی جاتی ہیں۔ جن میں پشتو، گوجری، گاؤری، توروالی، کھوار، اشوجو اور بدیشی شامل ہیں۔ مادری زبانوں کے تحفظ پر کام کرنے والے محمد زمان ساگر کے بقول بدیشی زبان ختم ہوچکی ہے، جبکہ اشوجو صرف تین افراد بول سکتے ہیں۔

اسی طرح گاؤری اور توروالی پر پشتو، اردو اور انگریزی تینوں زبانوں کا اثر ہے اور وہ خطرے سے دوچار ہے۔ جبکہ گوجری زبان صوبے کی بڑی زبان ہے۔ لیکن سوات کوہستان میں دیگر زبانیں اس پر اثرانداز ہورہی ہیں۔

اسی حوالے سے غیرسرکاری فلاحی تنظیم ادارہ برائے تعلیم و ترقی اور پاکستان کی چھوٹی زبانوں پر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم فورم فار لینگویج انشٹیوز اسلام آباد نے سوات کی وادی بحرین میں ایک سیمنار کا انعقاد کیا۔ جس میں لسانی ماہرین، محکمہ تعلیم کے افسران، لکھاریوں اور مختلف زبانیں بولنے والوں نے شرکت کی۔

سیمنار میں شرکاء نے زبانوں کے تحفظ کے لئے اپنے خیالات ظاہر کیے اور حکومت پر کم از کم پرائمری لیول تک تعلیم مادری زبان میں دینے کے لئے دباؤ ڈالنے کا فیصلہ کیا گیا۔

کیا حکومتی نمائندے ان زبانوں کے حوالے سے کوئی فکر رکھتے ہیں، اس حوالے سے سابق ایم پی اے سید جعفرشاہ جنہوں نے ایک قرارداد پیش کی تھی۔ انہوں نے اپنے خیالات شریک کرتے ہوئے بتایا کہ جس طرح اقلیتوں کے حقوق اسمبلیوں میں ماننا اور قرادادیں بھی منظورکرنا لیکن عمل درآمد نہ کرنا حکومتوں کا وتیرہ ہے اسی طرح چھوٹی زبانوں کے ساتھ بھی برتاؤ کیاجاتا ہے۔ ہم نے چھوٹی زبانوں کو نصاب میں شامل کرانے کے لئے قراد داد پیش کی تھی جو سابق وزیراعلی خیبرپختونخوا کی کابینہ نے مشترکہ طور پر منظور کی تھی، مگر اب تک وہ سردخانے میں ہے اور کسی قسم کا عمل درآمد نہیں ہورہا۔

سیمنار میں شریک فورم فار لینگویج انشٹیوز کے ڈائریکٹر فخرالدین اخونذادہ کے بقول حکومت کی جانب سے اگر ان زبانوں کو یکساں حقوق نہ دیے گئے توملک کو بڑے لسانی اور تعلیمی نقصان کا خطرہ درپیش ہوسکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ تعلیم یافتہ معاشرہ تشکیل دینا ہو تو ان زبانوں کے بولنے والوں کو وہی حقوق دیے جائیں جو قومی اور صوبائی زبانوں کو دیے جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).