ایٹمی قوتیں جنگوں کی متحمل نہی ہوسکتیں


جمعۃ المبارک 22 فروری کی سہ پہر ڈی جی آیی ایس پی آر آصف غفور صاحب نے میڈیا بریفنگ دی۔ قومی و بین الاقوامی صحافیوں کے جھرمٹ میں یہ ایک بہترین کانفرینس تھی۔ اپنی بات اور ریاست کی حکمت عملی سے آگاہ کرنے کے بعد سوال و جواب کی نشست لگی۔ ایک صاحب نے پوچھا کہ وزیر اعظم عمران خان صاحب نے قومی سلامتی کے اجلاس میں افواج کے سربراہان کو جو جنگی اختیارات تفویض کیے ہیں ان میں نیوکلیئر ہتھیاروں کے استعمال کی اجازت بھی دی ہے تو ایک بہترین جواب تھا جو ایک ذمہ دار مہذب قوم کی ترجمانی کر رہا تھا۔

ڈی جی صاحب نے فرمایا کہ آپ کا سوال ہی غیر ذمہ دارانہ ہے۔ بلکہ ان کے الفاظ اس سے بھی قدرے سخت تھے۔ کئی بار انہوں نے اس سوال کو دیوانگی آمیز سوال کہا۔ جواب کیا تھا وہ لائق تحسین ہے۔ ”ایٹمی اسلحہ جنگوں کے لیے نہی ہوتا۔ یہ سیاسی ڈیٹیرینس ہوتی ہے جو اقوام کو جنگ کرنے سے روکتی ہے۔ مہذب اقوام جنگ کرنے کا سوچ بھی نہی سکتیں، اور ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال تو جنگی پلان کا حصہ ہی نہی ہوتا۔ رہی بات وزیراعظم صاحب کی اجازت کی تو انہوں نے جنگ کرنے کی اجازت نہی دی کیونکہ ان کے نزدیک جنگ کا آغاز ہمارے بس میں ہوتا ہے، انجام کا کسی کے پاس کوئی حل نہی۔ انہوں نے اس بات کا حکم دیا ہے کہ اگر اس پار سے جنگ شروع کی جائے تو اس کا جواب دینا ہے۔ “

ایک اور صاحب کا سوال تھا کہ ہندوستان کی عددی قوت کو توازن میں رکھنے کے لیے ہمیں سول ڈیفینس کے طور پر اپنی نوجوان نسل کو تربیت فراہم کرنی چاہیے۔ یہ دوسرا لمحہ تھا جب ایک ذمہ دار ریاست کے ایک پروفیشنل ادارے کا نمائندہ اقوام عالم کو سحر زدہ کرنے جارہا تھا۔ اس کے جواب میں ایک خوبصورت بات کی گئی جو اس قوم کے خیرخواہوں کے دل کی آواز تھی۔ فرمایا کہ ملکی سرحدوں کی حفاظت عددی ہندسوں سے نہی بلکہ قوموں کے وقار اور اعتماد سے کی جاتی ہے۔

الحمد للہ افواج پاکستان کے پاس یہ صلاحیتیں ہیں۔ پوری قوم کا اعتماد ان کو حاصل ہے۔ اسی اعتماد کی بقا کے لیے ہماری لاشوں سے گزرکر ہی کوئی ملک کے اندر آسکتا ہے۔ رہی بات سول ڈیفینس کی تو یہ پالیسی ہم ترک کرچکے ہیں۔ نوجوانوں کے ہاتھوں میں اسلحہ تھمادینے کی حماقت اب نہی کی جائے گی۔ ہم تو پہلے ہی استبداد اسلحہ کی کوششوں میں لگے ہیں۔ نوجوانوں کے ہاتھوں میں اب اسلحہ نہی بلکہ قلم تھمانے ہیں۔ ان کو علم سے آراستہ کرنا ہے اور روزگار فراہم کرنے ہیں۔ کیسی خوبصورت بات کی گئی۔ یہ اسی بات کا تسلسل ہے جو آرمی چیف جنرل باجوہ صاحب ایک بین الاقوامی کانفرینس میں فرما چکے کہ ہم ان غلطیوں کا ازالہ کرنا ہے جو اسی کی دہائی میں سرذد ہوئیں۔ ان کا خمیازہ بھی ہمیں کو بھگتنا پڑا ہے۔

ہندوستان کی مسلسل دھمکیوں کے جواب میں ہمارا ریاستی رد عمل کافی مدبرانہ رہا ہے۔ حالات کا موازنہ کیا جائے تو ہندوستان پر ہونے والا حملہ ایک کشمیری نوجوان نے کیا جس کے پیچھے ظلم اور محرومیوں کی ایک طویل داستان ہے۔ پاکستان کا اس حملے سے کوئی لینا دینا نہی۔ کشمیر کی آزادی کے لیے ہم اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے سیاسی حل کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس اگر دیکھا جائے تو ہندوستان کے ریاستی ادارے ایسے لوگوں کی پشت پناہی علی الاعلان کرتے آیے ہیں جو افواج پاکستان اور نہتی عوام کے قتل عام میں ملوث رہے ہیں۔

دودہائیوں سے ہماری افواج دہشت گردی کی عفریت سے چھٹکارا پانے کی کوششوں میں لگی ہیں۔ دہشت گردی کے واقعات میں ہماری ایک سابقہ وزیراعظم، ایک بہت بڑی سیاسی لیڈرشپ اور افواج پاکستان کے سپاہی سے لے کر تھری سٹار جنرلوں تک کو شہید کردیا گیا۔ پولیس کے آئی جی سے لے کر جوانوں تک کو شہید کیا گیا۔ پاکستان آئے سری لنکن مہمانوں پر حملہ کرکے پاکستان کو تنہا کرنے کی سازش رچائی گئی۔ ایسے حالات میں جب ریاست کے باغیوں کا ہندوستان ریاستی سطح پر خیر مقدم کرے، نریندر موودی سیاسی جلسوں میں بلوچستان کی شورش کو اپنائے اور را کا سربراہ اس بات کا اعتراف کرے کہ پاکستان میں بد امنی پھیلانے کا ٹاسک سونپا جاچکا، اور پھر کلبھشن یادیو جیسے جاسوس دہشتگردوں کی گرفتاری بھی عمل میں آجائے تو کس بات کی کسر رہ جاتی ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود پاکستان کے عوام، میڈیا اور ریاست اس قسم کی بیان بازی اور دھمکیوں سے اجتناب کرتی ہے جس سے خطے کے ڈیڑھ ارب عوام کی زندگیاں داؤ پہ لگے۔

پاکستان کا رد عمل اس حوالے سے مثبت ہی رہا۔ ہندوستان کے ساتھ لفظی جنگ کرنے کی بجائے ایک ریاستی حکمت عملی اپنائی گئی۔ ان قوتوں کو جو بین الاقوامی ایجنڈے پر داخلی طور ریاست کو کمزور کر رہی تھیں مذاکرات کی میز پر لانے کی کوششیں کی گئیں۔ جب کوئی مثبت پیش رفت نہ ہوئی تو پھر ایک انٹیلی جینس بیسڈ کمبائنڈ ملٹری آپریشن کیا گیا۔

فوجی آپریشن کے نتیجے میں ہونے والا نقصان کولیٹرل ڈیمیج کے طور پر برداشت کیا۔ ایسا نہی کہ دہشت گرد ہی مرے، ہمارے فوجی جوان، سول افسران اور ملک کے عام شہریوں کی شہادتیں ہوئیں۔ لاکھوں لوگوں کو داخلی مہاجرت اور املاک کے نقصان سے دوچار ہونا پڑا۔ بارودی سرنگوں سے ابھی تک عام شہریوں اور اداروں کے جوانوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس سب کے باوجود کبھی پاکستان کی طرف سے کراس بارڈر جنگ کا ماحول نہی بنایا گیا۔ کبھی ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر تمام طبقات نے یک زبان ہندوستان کو سبق سکھانے کا نعرہ نہی لگایا۔

کبھی جھوٹی سچی سرجیکل سٹرائیکس کا ڈھنڈورا نہی پیٹا گیا۔ یہاں کے معتدل حلقے ہمیشہ امن کی آشا لیے بیٹھے رہے۔ اگرچہ یہ جملہ بہت سو کے لیے معترضہ ہے لیکن اسی میں خطے کی سلامتی ہے۔ امن کی جستجو کمزوری نہی بلکہ تدبر اور خیرخواہی ہے۔ بھلے یہ بات کسی کو ناگوار گزرے لیکن جنگیں تباہی ہی لاتی ہیں۔ صلح اور امن کی کوکھ سے تمدن و خوشحالی کا جنم ہوتا ہے۔

اس بات کا ادراک کاش ہندوستان کی لوگوں اور حکمرانوں کو بھی ہوجائے۔ وہ بھی اپنے مسائل کو جڑ سے پکڑیں اور ان کو حل کرنے کی کوشش کریں۔ پاکستان نے اس ضمن میں الزام تراشی نہی کی۔ بلکہ ایک ہی بات کی گئی کہ اپنے اندر سے دشمنوں کو صاف کردیا جائے اور ایسا ہی کیا گیا۔ اس کے لیے پوری قوم نے سخت ترین حالات کا سامنا کیا۔ بے پناہ پابندیوں اپنے ہی لوگوں نے سامنا کیا۔ لیکن دہشت گردی کا ناسور کسی حد تک قابو پالیا گیا ہے۔ ریاست نے پالیسی سب سے پہلے پاکستان کی تھیوری پر بنالی ہے۔ اب اپنی سرزمین پہ کسی قسم کی ایسی ایکٹیویٹیز کی اجازت نہ ہوگی جو داخلی و خارجی محاذوں پر سبکی و نقصان کا باعث ہو۔

ایک اور کام ہے جو اب ریاست نے کرنا ہے اور اس کے لیے کاوشیں بھی ہورہی ہیں کہ داخلی جنگ کے نقصانات کا ازالہ ممکن ہو۔ جو لوگ اس جنگ سے متاثر ہوئے ہیں ان کی صحیح معنوں میں بحالی کو ممکن بنایا جاسکے۔ یہ کام راتوں رات نہی ہونا۔ اس سلسلے میں کام جاری ہے۔ فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کے لیے اس کا صوبائی الحاق ہوچکا۔ اختیارات کی منتقلی اور وسائل کی فراہمی سے بحالی کا عمل ممکن بنانا ہے۔ رہی بات ہندوستان کی دھمکیوں کی تو ایک بات جو سب کو معلوم ہے وہ یہ کہ ایٹمی طاقتیں براہ راست جنگ کرنے کی متحمل نہی ہوسکتیں۔ بارڈر کے اس طرف والی اجتماعی سوچ اس طرف بھی پروان چڑھے تو نہ صرف امن بحال ہوسکتا ہے بلکہ ستر سال سے جبر تلے دبے، سسکتے بلکتے کشمیری عوام کو سیاسی طریقے سے آزادی نصیب ہوسکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).