جنگ میں بھارت کو سب سے گہری چوٹ کہاں پہنچائی جا سکتی ہے؟


بھارت کی آبادی ایک ارب نفوس سے زیادہ ہے وہ دنیا کی پانچویں بڑی معیشت اور دنیا کی تیسری بڑی جنگی مشین ہے۔ بھارتیوں نے پلوامہ ڈرامہ بہت سوچ سمجھ کر کیا ہے اور اس کے لئے وقت کا انتخاب بھی شاندار ہے۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ سے پنجاب سے طاقت حاصل کرتی آئی ہے۔ حکمت سازوں کی حماقتوں سے پنجاب اب پہلے کی طرح اسٹیبلشمنٹ کا دست و بازو نہیں رہا۔ منظور پشتین کی بلند آواز نے پختون قوم پرستی کے غبارے میں ہوا بھر دی ہے۔ بلوچستان میں مسائل بتدریج بڑھتے جا رہے ہیں۔ سندھ میں الطاف حسین کا ووٹ بینک بہرحال موجود ہے جبکہ اندرون سندھ پیپلز پارٹی بھی اسٹیبلشمنٹ کے بقراطوں کی عقل مندیوں کی وجہ سے مخالفین میں شامل ہو چکی ہے۔

بھارتیوں نے ایڈونچر کے لئے اپنی رائے عامہ کو ہموار کرنا شروع کر دیا ہے۔ پاکستانی معیشت بھارت کے ساتھ جنگ کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی اور یہی سچ ہے۔ حکمت سازوں کو بھارتی ایڈونچر کے حقیقی ہونے کی خبر ہے اور اسی حقیقت کے پیش نظر مولانا مسعود اظہر اور حافظ سعید کے مدارس پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ بھارتی محدود جنگ مسلط کرنے کی سازش رچائیں گے جس کا ہدف پاکستان کی پہلے سے تباہ حال معیشت بنے گی۔

معیشت بھارت کا بھی نرم پیٹ ہے۔ بھارتی ایڈونچر کی صورت میں بھارت کے نرم پیٹ کا نشانہ بنایا جائے تو جان بچنے کی امید ہے۔ مکمل جنگ دونوں ملکوں کے مفاد میں نہیں اور محدود جنگ پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ بھارتی حملے کی صورت میں پاکستانی منصوبہ سازوں کو بھارتی معیشت کو نشانہ بنانا ہو گا تاکہ سرمایہ کار افراتفری کا شکار ہو جائیں۔ پاکستانی میزائلوں نے اگر ممبی سٹاک ایکسچینج اور حیدرآباد میں بھارت کے آئی ٹی مراکز کو ہدف بنایا اس کے اثرات جنگی تنصیبات پر حملوں سے کہیں زیادہ فائدہ مند ہوں گے اور بھارتیوں کو جنگ بندی پر مجبور کر دیں گے۔

بھارتیوں کی حکمت عملی کا ہمیں کچھ پتہ نہیں وہ کب اور کہاں حملہ کریں گے۔ پلوامہ ڈرامہ سے قبل یقینی طور پر انہوں نے ہوم ورک مکمل کر رکھا ہو گا کہ پاکستان کو کہاں پر کس طرح نشانہ بنانا ہے۔ ہم نہیں سمجھتے بھارتی لائین آف کنٹرول پر کوئی ایڈونچر کریں گے کہ یہاں دفاعی تیاریاں عشروں سے مکمل ہیں۔ بھارتی کہیں میزائل حملے بھی کر سکتے ہیں اور فضائی بھی ہمیں بھارتیوں کو جوابی حملہ میں سرپرائز دینا ہے تو اس کی جنگی مشین کے ساتھ معاشی انجن کو نشانہ بنانا ہو گا۔

بھارتی اگر محدود جنگ کے نتایج کی صورت میں کشمیر کا کچھ علاقہ لے اڑے تو نقصان ناقابل تلافی ہو گا۔ نقصان سے بچنے کے لئے ایک اور ایٹمی تجربہ کر گزرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ بھارتیوں کو صرف ایٹمی جنگ کے خوف سے باز رکھا جا سکتا ہے کیونکہ بھارت کے پاس کھونے کے لئے بہت کچھ ہے ہمارے پاس کھونے کے لئے کچھ بھی نہیں۔

میاں نواز شریف سے معافی مانگ کر ان کی حمایت بھی حاصل کی جائے منظور پشتین اور محمود اچکزئی کے ساتھ مولانا فضل الرحمن، پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے تحفظات بھی دور کیے جائیں اور پیش آئیندہ خطرات کا مقابلہ کیا جائے۔

نواز شریف آپریشن کامیابی سے مکمل کرنے والے اپنی مرضی کے نتایج حاصل کر چکے اور ملکی معیشت کا بھٹہ بھی بٹھا چکے۔ ادارے کی حرمت اور تقدس کا تماشا بھی بن گیا لیکن ان منصوبہ سازوں نے جلد ہی ریٹائر ہو جانا ہے۔ اس ملک پر رحم کریں قومی یکجہتی کو پارہ پارہ نہ کریں۔ ہمارے منہ میں خاک اگر ملک کو کوئی نقصان پہنچا تو نہ ادارہ بچے گا نہ کوئی اور۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).