…اور شیخ صاحب کی نماز قضا ہو گئی


جہازی سائز کے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر پڑا الارم کلاک بجا ہی تھا کہ مفتی صاحب نے آنکھیں کھولی، ساتھ رکھے لیمپ کی لائٹ روشن کی اور ٹیبل سے اپنا چشمہ اٹھا کرلگایا، پلنگ سے اترتے ہی ریشمی قالین پر پڑی برانڈ کی چپل روز علی الصبح ان پیروں کی زینت بنتی جو اٹھتے ہی مسجد کی طرف چل پڑتے۔ شیخ جمال علاقے کے معززین میں شمار ہوتے تھے۔ صوم و صلواۃ کے پابند تھے۔ زیادہ تر نماز با جماعت ہی ادا کرتے تھے آج چونکہ کاروبار میں برکت کے لئے گھر میں قران خوانی رکھی تھی تو سوچنے لگے کہ نماز گھر پر ادا کر کے انتظامات دیکھ لئے جائیں گھر میں اللہ کا دیا سب کچھ تھا نوکرچاکر بھی موجود تھے۔

ملازمین میں سب سے پرانا ملازم کرم دین تھا جسے سب کرمو چاچا بلاتے تھے جو عمر کے اس حصے میں تھا کہ اسے اب آرام کی ضرورت تھی مگراپنی بیمار بیوی، بیوہ بہو اور اس کے چھوٹے سے بچے کو پالنے کی خاطر نوکری کی بھی ضرورت تھی۔ شیخ صاحب کے گھر میں مالی، ڈرائیور، خانساماں سے لے کر نوکروں کی ایک لمبی فہرست تھی یہی وجہ تھی کہ تنخواہ معقول نہیں تھی لیکن فاقوں کے ڈر سے کرمو چاچا نے کبھی نوکری کو چھوڑنے کی جسارت نہیں کی۔

گھر میں آئے دن کوئی محفل، میلاد یا قران خوانی کا انعقاد کیا جاتا تھا جس کے باعث کرمو چاچا سمیت کئی ملازم مہینوں مہینے گھر واپس نہیں جا سکتے تھے بس گھر والوں تک کبھی وقت پر اور کبھی تاخیر سے ان کی تنخواہ پہنچ جاتی تھی۔ رات سے کرمو چاچا سو نہیں پایا تھا اس کے مرحوم بیٹے کی واحد نشانی اس کا پوتا عبداللہ جو چھوٹی سی عمر میں مناسب دیکھ بھال اور خوراک نا ملنے کے باعث بیمار رہنے لگا تھا دو دن سے گاؤں سے اطلاع آ رہی تھی کہ عبداللہ بیمار ہے اور گاؤں کے ڈاکٹروں نے اسے شہر میں علاج کی ہدایت کی ہے۔

کرمو چاچا نے چھٹی مانگی تھی مگر گھر میں اہل علاقہ اور عزیر اقارب کی ایک لمبی فہرست مدعو تھی اور ہمیشہ کی طرح چھٹی چند دن بعد کرنے کا کہا گیا کرمو نے پریشانی کے عالم میں اپنی عمر سے پرانی چارپائی پر کروٹ بدلتے رات گزاری تھی ابھی بھی معصوم عبداللہ کا چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے تھا کہ سرونٹ بیل بجی۔ کرمو نے بوڑھی ہڈیوں کو سردی کی شدت سے بچانے کے لئے اٹھ کر اپنی بوسیدہ چادر لپیٹی اور صاحب کے کمرے کی جانب بڑھا دروازہ بجایا تو شیخ صاحب کمرے سے باہر آ گئے اور بولنے لگے کہ کئی بار کہا ہے دروازہ مت بجایا کرو، بیگم صاحبہ سو رہی ہوتی ہیں اور کیا مجھے گیزر چلوانے کے لئے روز یاد دہانی کروانا پڑے گی؟

تم جانتے نہیں ہو کہ یہ میری نماز کا وقت ہے۔ کرمو چاچا نے صفائی میں اپنی پریشانی کا ذکر کیا تھا کہ شیخ صاحب اور بلبلا اٹھے اور کہنے لگے کہ کوئی دن ہوگا ہے جب تم پریشان نا ہو اور تمہیں اپنا کام یاد رہے؟ کرم دین بھاگتا ہوا گیزر چلانے کے لئے مڑا تھا کہ اندھیرے کے باعث دیوار سے ٹکرایا اور زمین پر جا گرا، اس کے بائیں گھٹنے پر شدید چوٹ آئی تھی، ٹھنڈی زمین پر بیٹھ کر کراہتے ہوئے اسے شیخ صاحب کی ڈانٹ کا خیال آیا، وہ پھر سے گیزر کی جانب لپکا۔

شیخ صاحب نے نماز پڑھ لی تھی۔ ہلکی روشنی رات کی کالی چادر میں منہ چپھائے جھانکنے لگی تھی۔ شیخ صاحب نے نماز کے بعد تلاوت کلام پاک کی، روشنی بڑھتے ہی وہ تسبیح ہاتھ میں لئے گھر کے سبزہ زار کے بیچ و بیچ صبح کی سیر کے لئے نکل آئے۔ انہوں نے دیکھا کہ رات کی رانی کے ساتھ رکھے منی پلانٹ کے گملوں کا رنگ میلا ہو گیا ہے۔ انہیں شدید غصہ آیا انہوں نے کرمو کو آواز دی۔ کرم دین جو کمرے میں جلتے کوئلوں پر گرم کپڑے سے اپنے گھٹنے کو سینک رہا تھا لان میں پہنچا، لبیک کی صدا بلند کی۔

کرمو تمہیں بتایا تھا کہ مالی نیا ہے وہ ابھی اس گھر کے طور طریقوں سے ٹھیک سے واقف نہیں ہے تمہیں اس کو کام بتانا ہے تو پھر کیوں یہ گملے نہیں بدلے گئے؟ شیخ صاحب نے کرمو کو جھاڑ پلائی

کرمو نے فوری سٹور روم سے دو نئے گملے لا کر لان میں رکھے۔ وہ اپنے بوڑھے ہاتھوں سے گملوں میں مٹی ڈالتا اور اپنے کچے مکان کو یاد کرتا کہ اس کی بیوی اور بچے کس حال میں ہوں گے۔

تمام ملازمین اپنے اپنے کاموں میں جت گئے تھے کرمو چاچا اپنی کمر پر کرسیاں لاد کر صحن میں لا رہا تھا سرخ قالینوں پر نرم فوم والی کرسیاں معزز مہمانوں کے کیے بچھائی جا رہی تھیں شیخ صاحب بیوی اور بچوں سمیت ناشتے میں مصروف تھے جہاں میز پر کئی طرح کے پکوان موجود تھے وہ اپنا پرہیزی ناشتہ کر کے جلدی میز سے اٹھ گئے تھے کرمو جو کہ ابھی چند کرسیاں لگا سکا تھاصاحب پھر اس پر برس پڑے کہ مہمانوں کے آنے میں کچھ دیر باقی ہے تم ابھی تک کرسیاں نہیں بچھا سکے پاس ہی دروازوں کی گرد صاف کرتے ہوئے ناصر نے شکایت کی اور کہنے لگا صاحب میں تو کب سے سے کرمو چاچا کو کہہ رہا تھا مگر یہ ہے کہ اسے پہلے ناشتہ کرنا تھا اسی لئے اب تک کرسیاں نہیں لگ سکیں، شیخ صاحب نے کام کا نا کاج کا دشمن اناج کا، جملہ کسا اور دوسری جانب کھانے کے انتظامات دیکھنے چلے گئے، کرمونے بجھے ہوئے دل اور شرمسار سی نظروں سے ناصر کی جانب دیکھا جوکچھ گنگناتے ہوئے دروازہ صاف کر رہا تھا اور طنزیہ مسکرا رہا تھا۔

کرمو کے گھر سے فون خانساماں کے نمبر پر آ تا تھا۔ بشیر ہاتھ میں فون لئے کچن سے باہر نکلا اور کرمو چاچا کو آواز دی کہ تمہارے گھر سے فون ہے۔ کرمو نے دھٹرکتے ہوئے دل اور کانپتے ہاتھوں سے فون پکڑا دوسری جانب اس کی بیوی تھی۔ سب خیر ہے نا؟ کرمو نے سوال کیا۔ کلثوم نے روتے ہوئے بتایا کہ اس کے مرحوم بیٹے کی اکلوتی اولاد کئی دن سے تکلیف میں ہے، تو آکیوں نہیں جاتا؟ کرمو نے کلثوم سے کہا کہ وہ آج پیسے لے کر پہنچ رہا ہے۔ کلثوم کو تسلی ہوئی اس نے اپنے آنسو پونچتے ہوئے اپنی میلی چنی کی نکر سے دس روپے کا نوٹ نکالا شکریہ اور دو چار دعاوں کے ساتھ پی سی او والے کو دیا۔

شیخ صاحب یہاں وہا ں ٹہلتے ہوئے نوکروں پر لعن طعن بھی کر رہے تھے۔ کرمو صاحب کی جانب لپکا اور بولا صاحب مجھے گھر جانا ہے بہت مجبوری ہے شیخ صاحب کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ کرمو یہ کون سا موقع ہے چھٹی اور تنخواہ مانگنے کا ابھی اتنا بولے ہی تھے کہ سیٹھ عبدالمجید کی گاڑی گیٹ سے اندر آئی، شیخ صاحب مسکراتے ہوئے استقبال کے لئے گاڑی کی جانب چل دیے۔

قران خوانی ختم ہوئی معروف عالم دین دعا کروا ر ہے تھے شیخ صاحب نے اپنی اولاد کی صحت اور کاروبار میں برکت کی خصوصی دعا کی درخواست کی جس پر آمین کی صدائیں بلند ہوئیں کرمو برآمدے کی دیوار سے کمر ٹکائے زمین پر بیٹھا تھا اس کی آنکھوں سے آنسو موتیوں کی لڑی کی مانند جاری تھے اور تھکن سے چور ہاتھوں کی جھریوں پر گر رہے تھے۔ اتنی دیرمیں ناصر نے آواز لگائی چاچا کھانا لگانے کا وقت ہو گیا ہے بہت آرام ہو گیا اب آجا کام کر لے۔ کرمو چاچا اٹھ کھڑا ہوا تھا۔

شیخ صاحب عصر کی نماز کے لئے وضو کر رہے تھے۔ بشیر کا فون پھر بجا تھا کلثوم نے گبھرائی ہوئی آواز میں اسے کرمو کے لئے پیغام دیا کہ عبداللہ کی حالت بگڑ گئی ہے۔ بشیر نے کرمو چاچا کو اطلاع دی، کرمو بھاگتا ہوا صاحب کے کمرے کی جانب بڑھا اور بولا صاحب مجھے بات کرنی ہے۔ شیخ صاحب نے کہا کہ میری نماز کا وقت ہو گیا ہے اور تم جانتے ہو کہ میں نماز کے وقت کوئی اور کام نہیں کرتا انتظار کرو۔ کرمو کمرے کے باہر گرنے کی حالت میں صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا تھا۔

شیخ صاحب نے نماز ادا کی کمرے سے باہر آئے تو زمین پر بیٹھا کرمو پیروں سے لپٹ گیا اور ساری صورتحال بیان کی شیخ صاحب نے کہا کہ گھر مہمانوں سے بھرا ہے ابھی کچھ وقت میں خانہ کعبہ کے تبرکات بھی میرے گھر پہنچ جائیں گے اور رونمائی کے وقت اور بھی لوگ آ جائیں گے مگر تم ہو کہ تمہیں واپس جانا ہے، بیگم صاحبہ لائیے اس کی تنخواہ دیجئے۔ بیگم صاحبہ الماری سے چند ہزار روپے نکا ل کر لائیں اور کرمو کی طرف بڑھا دیے شیخ صاحب نے دی ہوئی رقم ہاتھ سے واپس کھینچی اور کچھ روپے نکال کر یہ کہتے ہوئے باقی رقم واپس تھما دی کہ یہ اس گلدان کی قیمت جو تم نے صبح صفائی کے دوران توڑا تھا۔

کرمو بے جان سی نظروں سے شیخ صاحب کو دیکھ رہا تھا جیسے کہنا چاہ رہا ہو کہ اس بار تو اسے پوتے کی علاج کی غرض سے زیادہ پیسوں کی ضرورت تھی۔ وہ ان سوچوں میں غرق تھا کہ شیخ صاحب چلائے اور کہنے لگے کہ اب میرا منہ کیا دیکھ رہے ہو جاؤ ویسے بھی کوئی کام تو تم سے ڈھنگ سے ہوتا نہیں مجھے اب تمہاری ضرورت بھی نہیں ہے۔ کرمو کی آنکھوں سے اب آنسو بہنا بند ہو گئے تھے اس نے پتھرائی ہوئی آنکھوں سے مہمان خانے کی جانب جاتے ہوئے شیخ صاحب کو آخری نظر دیکھا تھا۔

شیخ صاحب مہمان خانے میں پہنچے۔ مہمانوں کے درمیان موجود کالونی کی مسجد کے مولوی صاحب کی جانب بڑھے اور اپنی جیپ سے ایک چیک نکال کر مولوی صاحب کو تھماتے ہوئے اعلان کیا کہ اس سال مسجد کی تزئین آرائش کی رقم میری جانب سے، لوگوں نے جزاک اللہ اور سبحان اللہ کی آوازئیں بلند کیں اہل علاقہ ایک ایک کر کے شیخ صاحب سے ہاتھ ملا کر مبارک باد دے رہے تھے کہ آپ بہت خوش نصیب ہیں پچھلے سال بھی یہ نیکی کا کام اللہ نے آپ سے لیا تھا اور آج آپ کی خوش بختی ہے کہ کعبے سے آئے تبرکات کی رونمائی بھی آپ کے گھر پر ہو رہی ہے۔

کرمو شیخ جمال کے گھر سے گٹھر ی میں اپنا کل اثاثہ لئے بس میں سوار ہو چکا تھا بس کی کھڑکی سے نظر آنے والی تیز رفتار گاڑیاں دیکھتے ہوئے کرمو کا دماغ اپنے ننھے پوتے کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ اس معصوم نے تین دنوں میں کتنی تکلیف جھیلی ہو گی۔ بس ایک کچی سڑک کے قریب جا کر رکی کرمو نے پاس کھڑے تانگے کی جانب رخ کیا سورج ڈھلنے کو تھا لوگ شہروں سے گاؤں لوٹ رہے تھے تانگے کی سواریاں بھری تو تانگہ گاؤں کی جانب چل پڑا ہرے کھیتوں کے درمیان کچی پگڈنڈی سے گزرتے ہوئے گھوڑے کی قدمو ں کی چاپ بلند ہوئی، کوچوان اپنی ہی زبان میں اسے مزید تیز چلنے کی ہدایتیں کر رہا تھا ادھر کرمو کے دماغ میں اپنی نوکری کے ختم ہونے لے کرسے گھر میں فکر و قافہ اور بیماری جیسی پریشانیوں کا ایک طوفان برپا تھا۔

سورج کی آخری کرنیں بھی شام کے سرمئی بادلو ں میں کہیں گم ہو گئیں تھیں تانگہ گلی کے باہر رکا۔ آج تیرا باپ ہوتا تو تو یوں بلک بلک کر نا مرتا، کرمو کی بہو کی رونے کی آوازیں گلی تک بلند ہو رہی تھیں۔ کرمو گلی میں رک گیا اس نے گھر کی جانب بڑھنا چاہا لیکن ایک ایک قدم من بھر کا ہو گیا تھا۔ رات کے گہرے سائے کچے مکان کے باسیوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکے تھے۔

ادھر شیخ صاحب کے مہمان جو خانہ کعبہ کے تبرکات کی زیارت کے انتظار میں کب سے بیٹھک میں براجمان تھے ایک ایک کر کے اٹھنے لگے تبرکات لانے والے قافلے کی گاڑی کو حادثہ پیش آ گیا تھا۔ شیخ صاحب بھی اب ان کے آنے کی امید کھو چکے تھے۔ عجیب سی مایوسی کے ساتھ وہ مہمانوں کو رخصت کر کے کمر ے میں ٓ ائے اور عشا کی نماز پڑھے بغیر ہی بستر پر چلے گئے، رات گزر چکی تھی۔

فجر کا وقت ہوا شیخ صاحب وضو کر کے مسجد پہنچے جہاں داخلی دروازے پر دو دراز قد آدمی کھڑے تھے شیخ صاحب کو مسجد میں جانے سے روک دیا گیا۔ شیخ صاحب نے اپنا تعارف کروایا کہ میں مسجد کے منتظمین میں سے ہوں لیکن سب بے سود رہا انہیں یہ کہہ کر موڑ دیا گیا کہ وہ جو بھی ہیں ان کا داخلہ مسجد میں بند کر دیا گیا ہے وہ گھبراکر گھر کی جانب مڑے راستے میں دیکھا قبرستان میں ایک ننھی سی قبر پر کچھ لوگ جمع تھے۔ کرمو وہاں لوگوں کو کچھ دکھا رہا تھا۔ شیخ صاحب نے رک کر چند لوگوں سے سوال کیا کہ یہاں کیا ہو رہا ہے تیزی سے گزرتے ہوئے ہجوم میں سے کسی نے جواب دیا تھا کہ یہاں خانہ کعبہ کے تبرکات کی رونمائی ہو رہی ہے شیخ صاحب نے ہجوم سے گزر کر تبرکات کی جانب بڑھنے کے لئے قدم اٹھایا کہ ٹھوکر لگی اور گر گئے۔

سائیڈ ٹیبل پر پڑا الارم کلاک بجا شیخ صاحب کی آنکھ کھل گئی ان کے ماتھے پر مٹھی بھر پانی جمع تھا انہوں نے گبھرا کر پسینہ صاف کیا، کہنیوں کی مدد سے تھوڑا اوپر اٹھ کر لیمپ روشن کیا اور الارم بند کر کے پلنگ کے ساتھ سر ٹکا کر بیٹھ گئے۔

سرمئی پردوں سے روشنی اندر آنا شروع ہو گئی تھی، چشمہ جلتے ہوئے لیمپ کے نیچے پڑا تھا اور چپل رگ پر پڑی انتظار میں تھی مگر نماز کا وقت ختم ہو چکا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).