یہ پکی یاری آخر لگتی کیسے ہے


جمالے کو اسلام آباد آئے کئی ہفتے ہو گئے ہیں۔ نہ اس نے آنے کا بتایا۔ نہ اپن نے سن کر اس سے رابطہ کرنے کی زحمت کی۔ یہ عثمان قاضی کی طرف ٹہرا ہوا ہے۔ اس کی لائبریری میں۔ دو تین دن بعد قاضی کو اس کی شکایت ضرور لگا دیتا ہوں۔ قاضی اسے نکال دے۔

کافی پلانٹ والے کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں۔ وہ جب کچھ کرتے ہیں اپن غائب ہو جاتا ہے۔ تب سنگت کا خیال آتا ہے کہ پتہ نہیں کیسا چل رہا۔ یا ادھر کسی مہمان کو روانہ کر دیتا ہوں یا خود پہنچتا ہوں۔ پھر فرنود کو رپورٹ دیتا ہوں۔ وہ مجھے کھاتا چیک کر بتا دیتا ہے کہ آج کیا کارروائی رہی۔

کل جمالے کو فون کیا اس نے کہا ہاں ہاں میں جا رہا ہوں ضرور آ جانا کافی پلانٹ پر۔ پکا ہو گیا کہ اب نہیں جانا۔ بخشی سے پوچھا اس نے کہا یار بہت تھکا ہوا ہوں لیکن جانا ہے۔ اب پھر ڈبل مائنڈڈ ہو گیا کہ کیا کروں۔

جمالے کو فون کیا، بابے میں پہنچ گیا ہوں آ جا، یار رکویسٹ ہے پہنچ جا۔ بہت موٹی سی ٹوں ٹوں کی۔ جس کا پروگرام ہے اس سے زیادہ تجھے تکلیف ہو رہی۔ وٹس ایپ پر وقار کا میسج آگیا۔ بابے کل یعنی پیر کو آ رہا۔

او بیکار ملک آج ہے تیری بکواس کافی پلانٹ پر پیر کو نہیں، جمعہ کو بھی یہ مجھ سے پوچھ چکا تھا کہ کل آ رہا ہفتہ کو تب اسے بہانہ کر دیا تھا کہ مہمان ہیں نہیں آ رہا۔ تب یہ ٹوں ٹوں کر کے مان گیا تھا۔ اسے دن تب بھی غلط یاد تھا میرا بہانہ مس فائرہو گیا تھا۔

گاڑی سروس کرا لی کہ چلتے ہیں۔ اپنی گاڑی میں نہ گیا تو حاشر نے زیادہ دیر بٹھا لینا ہے اور ظفر اللہ کو کام یاد آتے رہتے میں واپس لیٹ پہنچوں گا پھر وہی ہوگی جو جوانوں کے ساتھ ہوتی۔

لعنت بھیجو نہیں جاتا ترکی سیزن دیکھتا ہوں۔ ولن مرنے میں ہی نہیں آ رہا شاید اب مر جائے، سیزن کے اختتام پر۔ ظفر عمران سے پوچھا، وہ میرے والے بہانے کر رہا تھا کہ بزی ہوں مہمان ہیں، بگیرت پھر کسی ڈیٹ کے چکر میں ہے۔ آصف بھی انکاری پیر صاحب بھی غائب، فرنود بھی نشتہ ۔ تو جا کون رہا؟ پہنچو۔

کریم پر روانہ ہو گیا۔ وقار سے درجنوں ملاقاتوں میں ڈھیروں نفسیاتی فزکس اور پہاڑوں کی باتیں سنی ہیں۔ اک بار پھر صحیح۔ پہنچا تو کم بخت نے ساری نئی باتیں کیں۔ سارا کھایا پیا کھلایا پلایا حرام ہو گیا۔ تب یہ سب نہیں بولا تھا۔

گھر سے طے کر کے گیا تھا کہ کافی پلانٹ پر کھانا چیک کرنا ہے۔ کسی کو صلح نہیں مارنی کوئی شریک ہوا تو اسے منع کرنا ہے کہ کم کر اپنا۔ ظفر میرا آدھا سینڈوچ کھا گیا۔

حاشر نے بہت ویلڈ اعتراض کیا کہ اسے میں نے کبھی کھانے چائے کی صلح نہیں ماری۔ تب بھی نہیں ماری جب ہم آپس میں پروگرام اس کے سامنے بنا رہے ہوتے ہیں۔ ایک بار پھر ظفر اللہ نے اعلان کیا کہ یہاں سے روانگی کے بعد ہم لوگ جیڈ میں وسی بابے سے کھانا کھائیں گے، حاشر کو پھر صلح نہیں ماری گئی، وجہ بھی بتا دی گئی۔

حاشر نے کہا کہ جیڈ بحریہ ٹاؤن میں بالکل پاس ہے وہاں چلتے ہیں۔ ہم نے باجماعت انکار کر دیا کہ نہیں ہم اسلام آباد میں ہی کھائیں گے۔

واپسی پر جمالے اور ظفر اللہ سے بات ہوئی۔ نئی پارٹیوں کا اک دوسرے کو بتا کر جیلس کیا۔ جب یہ مجھے اپنے کارنامے سنا رہے تھے تب اپن نئی پارٹی سے بات کر رہا تھا۔ اپنے ہم سب کے مخالفین بارے غور ہوا۔ عدنان کی اچھل کود یاد کی کیسے اردو کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اپنے مخالفین کا مذاق اڑایا کہ لگے رہو ایک لائین میں ہم تینوں نے اپنے سارے مخالفین کے خلاف اک باجماعت نعرہ لگایا۔ بہت دلی مسرت ہوئی کہ لگے رہو تھکتے رہو، تمھاری تنقید ہم ”دل“ پر رکھتے ہیں۔

حاشر کے لیے اطلاع یہ ہے کہ ہم نے اپنی دعوت اس کی طرف رکھ لی ہے تاریخ بھی طے کر لی ہے۔ سب پہنچیں گے اس کے گھر۔ اسے سرپرائز ہی ملے گا۔ اس کا تو گلہ دور ہو کہ اسے کھانے میں شریک نہیں کرتے۔

ظفر اللہ اور حسنین جمالے کو اب بھول چکا ہے کہ اک حسینہ ان دونوں پر عاشق ہے مجھے بتاتی رہتی ہے۔ میں انہیں اس کا نام نہیں بتاتا۔ کل ان دونوں کو یاد نہیں تھا کہ پھر سے پوچھیں اپن کا ترلا منت کریں کہ وہ کون مرجانی ہے۔

وہ مرجانی بہت پیاری ہے۔ آج اس سے بات کرونگا کوشش کروں گا کہ وہ ان دونوں پر لعنت بھیج کر اپن سے ملنے کو تیار ہو جائے۔ کتنی دیر سے اندھیر ہی ہے۔
آج تک سمجھ نہیں آئی کہ یہ پکی یاری آخر لگتی کیسے ہے۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi