اصل جنگ اور اصل جیت


آپ تصّور کرلیں آپ ایک اچھی زندگی جی رہے ہیں ’آپ کے پاس نوکری بھی ہے، عزت بھی ہے، بیوی بچّے بھی ساتھ ہیں، بینک بیلنس بھی اور ایک اچھا گھر بھی۔ آپ اپنے علاقے کے ایک معتبر انسان ہیں لوگ آپ سے مشورہ لیتے ہیں اور زندگی کے اتار چڑھاؤ میں آپ کو اپنے درمیان بٹھا کر اپنے مسائل کا ڈھونڈ لیتے ہیں۔ آپ کے پاس اللہ کا دیا ہوا سب کچھ ہے اور آپ خوش ہیں لیکن ایسے میں آپ پر جنگ مسلّط کی جاتی ہے اور آپ کی خوشیوں کا، آپ کی عزت کا، آپ کی اپنی بنائی سلطنت کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔ آپ کے تمام اثاثے اور آپ کا گھر تباہ ہوجاتا ہے اور آپ اپنے علاقے سے نکل کر گھر سے دور کسی اور شہر میں خود کو اور اپنے اہل و عیال کو ایک نئی زندگی دینے کی ٹھان لیتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں کیا ہوگا آپ خود سوچ لیجیے۔

آپ تین ہزار پانچ سو قبل مسیح سے لے کر بیسویں صدی کے آخر تک جنگوں کی تاریخ کا جائزہ لے سکتے ہیں کہ اس دوران چودہ ہزار پانچ سو بڑی بڑی لڑائیاں لڑی گئیں جن میں تین اعشاریہ پانچ بلین انسان لقمہ اجل بن گئے۔ یہ اموات یا تو جنگوں کی براہ راست اثرات سے ہوئیں یا بھوک اور بیماریوں سے۔ آپ یورپ کی سینکڑوں جنگوں کا مطالعہ بھی کرسکتے ہیں اور آپ تاریخ عالم کی دو بڑی جنگوں کا مطالعہ بھی کرسکتے ہیں جن کو تاریخ میں جنگ عظیم اوّل اور جنگ عظیم دوم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپ پچھلی صدی اور رواں صدی میں ملکوں کے جنگوں کی طرف تگ و دو کا بھی مطالعہ کرسکتے ہیں جن سے آپ کو یہ پتا لگانے میں دیر نہیں لگے گی کہ جنگیں انسانوں کو تباہ و برباد کردیتی ہے۔

آپ خلیجی ممالک میں انسانوں کے اڑتے چھیتڑے بھی دیکھ سکتے ہیں اور کشمیر اور افغانستان میں کئی دہائیوں سے جنگوں میں مصروف انسان جن کے خاندان، املاک اور نسل تک مٹ گئے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ آپ یہ سب کچھ کرسکتے ہیں اور ہوسکتا ہے سوشل، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر آسانی سے آپ کو جنگوں کی اس تاریخ کی تفصیلی مواد بھی ملیں لیکن مجھے یقین ہے آپ اپنے ملک کے ان غریب اور بے سروساماں لوگوں کی تکالیف کا اندازہ لگانے کی سعی نہیں کریں گے جو پھلے ایک دہائی سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود آج تک جنگوں کی وجہ سے اپنا گھر بار چھوڑ کر اپنے ہی ملک میں در بہ در ہیں۔

آپ ہوسکتا ہے ریاست کی پانچ ہزار سالہ پرانا تاریخ بھی پڑھ لیں اورتمام ریاستی جنگوں کا مطالعہ کرلیں لیکن آپ پھر بھی اپنے ہی ملک کے ان متاثرہ خاندانوں کی تکالیف کا اندازہ نہیں لگاسکوگے۔

ہم زیادہ دور کیوں جائیں کیا فاٹا اور ملاکنڈ ڈویژن کے لوگوں پر جو قیامت صغریٰ آئی تھی اس سے ہمیں یہ اندازہ نہیں ہوسکتا کہ جنگیں کتنی خطرناک ہوتی ہیں۔ آپ کو اب بھی اگر ایسا لگ رہا ہے کہ جنگیں بارڈر پر لڑی جائیں گی اور چند ہی دنوں میں اس کا فیصلہ ہوجائے گا تو یہ ایک تاریخی بھول ہے۔ آپ اگر حقیقیت میں یہ اندازہ لگانا چاہتے ہیں کہ جنگوں سے جنم لینے والی محرومیاں کتنی خطرناک ہوتی ہیں تو کسی دن فاٹا سے تعلق رکھنے والے ان محروموں کے ساتھ چند لمحات گزار لیجیے جو ایک اچھی زندگی گزار رہے تھے لیکن اپنے والدین کھونے کے بعد اب صرف بھیک پر اکتفا کر رہے ہیں۔ آپ کو شاید ایسا لگے کہ یہ پیدائشی غریب ہیں اور اسی وجہ سے یہ پٹھے پرانے کپڑوں میں دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلا رہے ہیں تو آپ اس وقت یقیناً غلطی پر ہوں گے کیوں کہ یہی بھکاری ایک وقت تھا جب ہماری طرح خوب صورت زندگی سے لطف اٹھا رہے تھے۔

آپ اگر جنگوں کے نقصانات کا تخمینہ لگانا چاہتے ہیں تو بالکل ایک ہزار سالہ پرانا تاریخ نہ پڑھیں کیونکہ انہی نقصانات کو آپ خود اپنے عہد میں دیکھ سکتے ہیں جب آپ کے اردگرد فاٹا کے غیور عوام نوکری اور ڈرائیوری کے لئے دہائیاں دیتے ملیں گے۔

آپ بے شک لڑائیاں لڑ لیں لیکن ایک دفعہ سوات اور فاٹا کے ان ہزاروں انسانوں کی داستانیں بھی سن لیں جو ایک لمبی عرصے سے احساس محرومی میں زندگی گزار رہے ہیں۔

دور جانے کی ضرورت نہیں ملاکنڈ ڈویژن کے کسی بھی انسان سے ان چند مہینوں کے حوالے سے پوچھ لیجیے جو انہوں اپنے گھر سے دور گزارے۔ جنگیں خطرناک ہوتی ہیں اور جنگوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے بعد کچھ بچتا نہیں۔

ہمارے اپنے ملک نے دہشت گردی کے خلاف جو طویل جنگ لڑی ہے خود ایک بہترین مثال ہے۔ ہم کیوں تاریخ عالم کی دوسری جنگوں کے مثال سے ایک دوسرے کو سمجھاتے پھررہے ہیں۔ آپ المیہ ملاحضہ کیجیئے ہمارے دانشور کئی ہفتوں سے یورپ کی جنگوں کا حوالہ دے رہے ہیں لیکن کسی دانشور نے فاٹا کے عوام اور اپنی ٖفوج کی شہیدوں کے خاندانوں کی محرومیوں کا ذکر نہیں کیا جن کی وجہ جنگ بنی۔

ہماری فوج نے بے شک بے شمار قربانیاں دی لیکن ہماری حکومت آج تک فاٹا کے حوالے سے کوئی مضبوط منصوبہ بندی نہیں کرسکی۔ وہاں بھی ایک طویل جنگ لڑی گئی اور آج تک وہاں کے عوام اور بالخصوص نوجوان طبقہ محرومیوں کا شکار ہے۔ آج بھی ان میں زیادہ واپس اپنے گھروں کو نہیں لوٹے اور اپنے ہی ملک میں غیروں کی طرح جی رہے ہیں۔ جنگیں ہمیشہ نقصان دیتی ہے۔ فاٹا میں ایک طویل جنگ لڑی گئی اور دہشت گردی کے اس جنگ میں ہم نے ستر ہزار سے زائد انسان ضائع کیے یہ ایک آفیشل ولیو ہے لیکن انسانوں کی وہ ویلیو اب تک سامنے نہیں آئی جو در در کی خاک چھان رہے ہیں۔

ہم ایک جمہوری ملک کے ساتھ ایٹمی طاقت بھی ہے اور یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارے پاس دنیا کی بہترین فوج اور انٹیلی جنس سروس موجود ہے ہم کسی بھی ملک کو منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں۔ اس مضبوط جمہوری طاقت اور فوج کی وجہ سے شاید آج ہم ایک نئے دور میں داخل ہورہے ہیں۔ ہم اگر اس طاقت کو اور بھی مظبون کرنا چاہیں تو ہمیں اندرونی طور پر تمام محرومیاں ختم کرنا ہوگی۔ ہمیں ان تمام ناراض پاکستانیوں کو گلے سے لگانا ہوگا جن کی پریشانی کی وجہ جنگ بنی۔

ہم اپنے اندر جب یک جاں و دو قالب بنیں گے تو صرف ہندوستان نہیں بلکہ پوری دنیا بھی مل کر ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ ہم جب یہ اصل جنگ جیت پائیں گے تو پھر ہمارے ساتھ جنگ کرنا تو درکنار ہماری طرف کوئی آنکھ اٹھا کر بھی دیکھنے کی جرات نہیں کرسکے گا۔ ہم نے اپنی توجہ اس اصل جنگ کی طرف مبذول کرانی ہے کیونکہ اسی جنگ کی جیت ہی ہماری اصل جیت ہوگی.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).