خواتین کا ملکی ترقی میں کردار


کچھ دن پہلے ایف۔ ای۔ چوہدری المعروف چاچا چوہدری کے انٹرویو پر مبنی کتاب ”اب وہ لاہور کہاں“ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ا یف۔ ای۔ چوہدری ایک مشہور فوٹو گرافر تھے اور انہوں نے کئی شاہکار تصویریں کھینچ کر لاہور کی تاریخ کو محفوظ بنایا۔ یہ انٹرویو معروف صحافی منیر احمد منیر نے اپنے جریدے آتش فشاں کے لئے کیا تھا۔ ویسے تو ساری کتاب پڑھنے کے لائق اور اس پر تبصرہ ایک الگ مضمون کا تقاضا کرتا ہے لیکن یہاں اس کتاب کا تذکرہ کرنے کا مقصد اس میں چھپنے والی ایک تاریخی تصویر ہے، جس میں کچھ لڑکیاں بائیسکل پر کالج جاتی دکھائی دے رہی ہیں۔

تقریبا ستر سال پہلے کھینچی گئی یہ تصویر ہمیں اس حقیقت سے روشناس کرا رہی تھی کہ ستر سال پہلے کے لاہور کے لوگ ہم سے نہ صرف زیادہ روشن خیال تھے بلکہ زیادہ بہادر تھے جو نہ صرف اپنی بیٹیوں کو پڑھا رہے تھے بلکہ ان بیٹیوں کو بیٹوں کی طرح سائیکل چلانے کی اجازت دے رہے تھے۔ اب اگر آپ ان والدین کا مقابلہ آج کے والدین کے ساتھ کریں تو ہم یعنی آج کے والدین زیادہ شدت پسنداور ڈرے ہوئے ہیں۔ آج آپ کو شاید ہی کوئی بچی خود سے سائیکل چلاتے سکول یا کالج جاتی دکھائی دیتی ہے۔ اب کچھ بچیاں لاہور میں سکوٹی چلاتی دکھائی دیتی ہیں۔ لیکن ان کی تعداد بھی انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔

ُ پچھلے برس دسمبر میں ورلڈ اکنامک فورم کی ایک رپورٹ شائع ہوئی۔ اس رپورٹ کے مطابق جن ممالک میں یہ صنفی عدم مساوات سب سے زیادہ پائی جاتی ہے، ان میں شام، عراق، پاکستان اور (فہرست میں سب سے نیچے ) یمن کے نام آتے ہیں۔ اگرچہ حکومت پاکستان کے ترجمان نے اس رپورٹ کے مندرجات سے اختلاف کیا کیونکہ اس میں کئی ”رجعت پسند“ ممالک پاکستان سے اوپر نظر آتے ہیں۔

اس رپورٹ کے مطابق دنیا کی 20 سب سے بڑی معیشتوں میں سے فرانس باقی 19 ممالک سے آگے ہے اور عالمی سطح پر اس کا نمبر 12 واں ہے۔ اس فہرست میں جرمنی 14 ویں، برطانیہ 15 ویں، کینیڈا 16 ویں اور جنوبی افریقہ 19 ویں نمبر پر ہیں۔ امریکا کا نمبر اس فہرست میں 51 واں ہے، جہاں وزارتی سطح کے عہدوں پر خواتین کی تقرری میں حال ہی میں واضح کمی آ چکی ہے۔ پاکستان کا شمار ان چار ملکوں میں ہوتا ہے جن کا اس رپورٹ میں خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے جہاں 18 سے 49 سال کی 49 لاکھ خواتین کو پائیدار ترقی کے چار شعبوں سے بیک وقت محروم رکھا جاتا ہے۔

ان شعبوں میں 18 برس کی عمر سے پہلے شادی، تعلیم تک رسائی میں رکاوٹ، صحت کے بارے میں فیصلے کرنے کی صلاحیت اور روزگار سے متعلق فیصلے شامل ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک ہی ملک میں رہتے ہوئے بھی پاکستانی مرد و خواتین میں ان کی آمدن اور مقام کی وجہ سے واضح خلیج موجود ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سب سے پسماندہ نسلی گروہ سندھی، سرائیکی اور پشتون خواتین ہیں، جبکہ دوسرے اشاریوں سے پتہ چلتا ہے کہ غریب خواتین ہر جگہ یکساں طور پر پسماندہ ہیں۔ پورٹ کے چیدہ چیدہ نکات یہ ہیں :

ملک میں 74 فیصد خواتین ایسی ہیں جنھوں نے چھ برس سے کم تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔

پشتون خواتین اس معاملے میں سب سے پسماندہ ہیں۔

سندھ کے غریب ترین خاندانوں میں سے 40 فیصد خوراک کی کمی کا شکار ہیں، جب کہ قومی سطح پر یہ شرح 13.2 فیصد ہے۔

غربت کی وجہ سے عورتیں کام کرنے پر مجبور تو ہو جاتی ہیں لیکن انھیں سخت رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں صنفی تعصب، کم مواقع اور کم اجرت شامل ہیں۔ ان وجوہات کی وجہ سے کم خواتین کام کر پاتی ہیں۔

ورلڈ اکنامک فورم کی رپورٹ سے پہلے وائس آف امریکہ نے پاکستان میں بچیوں کی تعلیم کے حوالے سے ایک پروگرام پیش کیا جس کے مطابق ”چھٹی جماعت سے پہلے 59 فی صد پاکستانی لڑکیاں اور 49 فی صد پاکستانی لڑکے اسکول چھوڑ جاتے ہیں جن کی ایک بڑی تعداد اپنے خاندانوں کی مدد کے لیے کام کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔ رپورٹ میں ان عوامل کی نشاندہی کی گئی ہے جو تعلیم کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ ان میں سیاسی عدم استحکام، سول سوسائٹی کو کام سے روکنا، عسکریت پسندوں کی کارروائیاں اور بڑھتا ہوا نسلی اور مذہبی تناؤ شامل ہے جس کی وجہ سے رپورٹ کے مطابق ریاست کو تعلیم جیسی بنیادی سہولتیں فراہم کرنے میں مشکل ہو رہی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لڑکیوں میں تعلیم کی کمی کی وجہ سے ملک میں صنفی عدم مساوات بڑھ رہی ہے۔ عورتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد کے واقعات بشمول جنسی زیادتی اور غیرت کے نام پر قتل، جبری اور کم عمری کی شادیوں کی وجہ سے یہ صورتِ حال مزید خراب ہو رہی ہے۔ اگرچہ پاکستان بھر میں اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی شرح کم ہے لیکن ملک کے بعض علاقوں میں یہ صورتِ حال نسبتاً زیادہ خراب ہے۔ رقبے کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں 15۔

2014 میں 81 فی صد خواتین اور 52 فی صد مرد پرائمری تعلیم مکمل نہیں کر سکے تھے۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے اس جنوب مغربی صوبے میں 75 فی صد خواتین اور 40 فی صد مرد کبھی اسکول گئے ہی نہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت کے پاس ملک کے تمام بچوں کو تعلیم کی سہولت فراہم کرنے کی صلاحیت نہ ہونے کے سبب پاکستان میں نجی تعلیمی اداروں کی تعداد میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے۔

اگرچہ ان نجی اسکولوں کی وجہ سے اسکولوں میں جانے والے بچوں کی تعداد بڑھی ہے لیکن ایک بڑی تعداد میں غریب خاندان ان اسکولوں کے اخراجات برداشت کرنے سے قاصر ہیں۔ د وسری طرف تعلیم کے حصول کی راہ میں ایک اور رکاوٹ ملک میں امن و امان کی صورتِ حال بھی ہے جس کی وجہ سے بعض خاندان اپنی لڑکیوں کو اسکول نہیں بھیجتے ہیں۔ ”

پاکستان کے برعکس بنگلہ دیش نے خواتین کو عملی زندگی میں اپنا بھر پور کردار ادا کرنے کی اجازت ہے۔ اس سے قبل وہ اپنے گھروں کی چار دیواریوں کے اندر کام کرتی تھیں۔ اب وہ باہر کام کر رہی ہیں۔ ریڈی میڈ گارمنٹس، منجمد خوراک پروسیسنگ، چمڑے، دستکاری اور چائے کی فیکٹریوں میں خواتین کی بڑی تعداد موجود ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق تقریبا دو کروڑ سے زیادہ خواتین مختلف اقتصادی شعبوں میں براہ راست شامل ہیں۔ آج بنگلہ دیش کی ترقی کی رفتار تقریبا آٹھ فی صد ہے جو چین اور بھارت کے تقریبا برابر ہے۔

ڈھاکہ سٹاک ایکسچینج کی کل مالیت 300 ارب ڈالر ہے جبکہ پاکستان سٹاک ایکسچینج کی کل مالیت 100 بلین ڈالر ہے۔ بنگلہ دیش کی برآمدات کی کل مالیت 40 ارب ڈالر ہے جبکہ پاکستان کی برآمدات 22 ارب ڈالر ہیں۔ پاکستان کو بنگلہ دیش کی سطح پر پہنچنے کے لیے کم از کم دس برس درکار ہوں گے۔ جس تیزی سے بنگلہ دیش ترقی کر رہا ہے ماہرین کا مانناہے کہ بنگلہ دیش اگلا ”ایشین ٹائیگر“ ہوگا۔

ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق 2016 ء میں چھ کروڑ سے زائد پاکستانی سطحِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے تھے جو ملک کی مجموعی آبادی کا تقریباً 30 فی صد ہے۔ اگرچہ غربت کے خاتمے کے لئے مختلف سیاسی و غیر سیاسی حکومتوں نے ”بے نظیر انکم سپورٹ“ جیسے منصوبے شروع کیے لیکن اس سے غربت میں کوئی خاطر خواہ کمی نہیں ہوئی، اس کی بنیادی وجہ اصل مسلئے سے چشم پوشی تھی کیونکہ ان میں غربت کے خاتمے کے حوالے سے کچھ نہیں تھا اور یہ تب تک ممکن نہیں جب تک ملک کی آبادی کے آدھے حصے یعنی عورتوں کی تعلیم کا باقاعدہ بندوبست نہیں کیا جاتا اور ان کو ملکی معیشت کا باقاعدہ حصہ نہیں بنایا جاتا۔

یہاں تو حالت یہ ہے کہ پہلے تو عورتوں کی تعلیم کا بندوبست نہیں اور جہاں پر ان کو پڑھنے کو مواقع دیے گئے ہیں وہاں پر بھی ان کی تعلیم کا مقصد ان کی اچھے گھرانوں میں شادی ہے، نہ کہ ان کو زندگی میں آگے بڑھنے اور ملکی ترقی میں مثبت کردار ادا کرنا۔ بہت سے پڑھے لکھے، روشن خیال دوست بھی سرے سے ہی عورتوں کے ملازمت کرنے یا عملی زندگی کا حصہ بننے کے خلاف ہیں۔ اگر ہمیں بھی ترقی کرنی ہے توہمیں غربت کے اس شنکنجے کو توڑنا ہوگا۔

عورتوں کی تعلیم کا بندوبست کرنا ہوگا۔ پاکستانی خواتین عالمی سطح اور جنوبی ایشیاء کے مقابلے میں ابھی بہت پیچھے ہیں۔ اس کی وجہ معاشرتی رویہ ہے جو خواتین کے کام کے صلہ اور حیثیت کو کم کرتے ہیں عام طور پر خواتین کے کام کو گِنا ہی نہیں جاتا۔ دیہات میں خواتین مردوں کے مقابلے میں 70 فیصد زیادہ کام کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ شہروں میں بے شمار خواتین غیر روایتی شعبوں میں کام کرتی ہیں مگر ان کے کام کو قومی آمدنی میں شمار نہیں کیا جاتا۔ قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ ”کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک کہ اس قوم کے مردوں کے شانہ بشانہ عورتیں بھی ملک ترقی میں حصہ نہ لیں“۔

عورت کو حق دینا دراصل سماج کو حق دینا ہے جوں جوں عورت اپنے حقوق حاصل کرتی جائے گی اسی رفتار سے ملک ترقی کرے گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).