انڈیا کا ”حملہ:“ میں عمران، جوان اور جرنیلان کے ساتھ ہوں


پاکستان سے بھاگ نکلنے والے ”ترقی پسند“ دانشوران، اور پشتون تحفظ تحریک کے چند ارکان علاوہ خود ترحمی کے مارے ہوئے ڈیڑھ پنجابی دانوں اور مقامی سرخیلوں کے برعکس، راقم حضرت میکاولی کے خیال سے جنم لینے والی کلاسیکی ریاست کا حامی ہے اور اس کی غلطیوں سے لطف کشید نہیں کرتا۔

لطف کشید نہ کرنے کی وجہ ذاتی لالچ پر بنیاد کرتی ہے اور کلاسیکی ریاست کے وجود کے قائم رہنے کے حوالے سے اک قومی اعتماد پر بھی۔ ذاتی لالچ اس لیے کہ راقم چونکہ دانشور نہیں تو لہذا موقع اور وسائل رکھنے کے باوجود پاکستان سے بھاگ نکلنے کا کوئی شوق نہیں اور ارادہ بھی نہیں۔ اور ریاست کے وجود سے جڑا قومی اعتماد اس لیے کہ پچھلے چالیس سالوں میں افغان، وسطی ایشیائی، صومالی، کانگوی، سرے لئیونی، فلسطینی، بوسنیائی، عراقی، شامی اور یمنی ریاستوں کے گرنے کی وجہ سے ان کے شہریوں کی دربدری دیکھ رکھی ہے۔ ان تمام ریاستوں کا قومی وجود اور نقشہ تو آج بھی ویسے کا ویسا ہی قائم ہے، کیا وہاں ریاستیں موجود ہیں؟ اس کا جواب آپ خود ہی تلاش کر لیجیے۔

پلوامہ حملے کے بعد بھارتی معاشرے کا اک وسیع البنیاد کریہہ منظر بھی دیکھنے کو ملا جہاں ان کی زندگی کے تمام شعبہ جات سے تعلق رکھنے والوں نے اپنی اپنی اوقات کے مطابق جنگی جنون میں حصہ ڈالا۔ اس حصہ ڈالنے میں، صد حیرت کہ، ان کے شاعر، لکھاری، فنکار اور کھلاڑی بھی پیش پیش رہے۔ فہم اور دلیل پر بنیاد کرتی ہوئی آوازیں نہ ہونے کے برابر بلند ہوئیں اور اگر بلند ہوئیں بھی تو انہیں بہت ہی شدت کے ساتھ دبا دیا گیا۔ افسوس اور مسکراتے ہوئے سر ہی کھجاتا رہا کہ یار، پاکستان تو اک پرتشدد اور بقول اپنے یاروں کے ”جاہل و غیر جمہوری“ معاشرہ ہے، تو جمہوریت کے ہمالہ، اہنسا کے پجاری، پڑھے لکھے اور شدید جمہوری معاشرے سے یہ جنونیت کا مظاہر کیونکر ہیں؟

کیوں نہ اس جنونیت کی ذمہ داری بھی پاکستان پر ہی ڈال دی جائے، تاکہ مرعوب دانشوری کی ”پولی پولی ٹولکی“ بجتی رہے؟

کوئی اڑتالیس گھنٹے قبل، انڈیا نے بین الاقوامی سرحد کے تین مقامات پر چار چار کی ٹولیوں میں اپنے جنگی جہاز بھیجے۔ دو مقامات پر ان ٹولیوں کو پاکستانی فضائیہ نے بخوبی اور کامیابی کے ساتھ واپس بھیجا۔ تیسرے مقام پر چار کی ٹولی پاکستان میں دراندازی کرنے میں کامیاب رہی، مگر بظاہر اپنے اہداف تک پہنچنے اور انہیں حاصل کرنے میں کامیاب نہ رہی۔

خیالی پلاؤ کھاتے ہوئے، دل تو میرا بھی جذباتی طور پر یہی چاہتا ہے کہ پاکستان کی تمام سرحدوں سے اک پرندہ بھی پاکستانی مرضی کے بغیر پر نہ مارے، مگر حقیقت کی دال بھی کھانی پڑتی ہے۔ اور وہ حقیقی دال یہ ہے کہ جنگ کی حرکات اور حرکیات میں دشمن اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر آتا جاتا رہتا ہے۔ منطقی طور پر یہ دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ کیا اُدھر سے اِدھر آنے میں دشمن اپنے اہداف کو حاصل کر پایا یا نہیں۔

اس سارے سلسلے میں اپنی معیاری اور عمومی قنوطیت میں احباب جسے ”دفاع میں ناکامی“ کی چیونگم سمجھ کر چباتے ہوئے، پاکستانی ریاست اور اس کے دفاعی اداروں پر تیر اندازی کر رہے ہیں، انہیں بھارتی جنگی جنون اور ان کی جانب سے یہ فوجی حرکت کرنے پر بھی غور کرنا چاہیے کہ اگر یہ دفاع میں ناکامی کی کوئی مثال ہوتی تو چار چار کی ٹولیاں، پاکستان میں تین مقامات پر بڑے نقصانات پہنچا کر واپس اپنے اپنے ہوائی اڈوں پر پوجا پاٹ کر رہے ہوتے۔

تینوں مقامات پر یہ احباب کی ”کھوچل میڈیا“ پر تیر اندازی اور طنز نہیں، بلکہ پاکستانی دفاع ہی تھا جس نے انڈیا کے جنگی جنون کی اس حرکت میں سے کچھ بھی برآمد نہ ہونے دیا۔ اور جہاں انہوں نے تین سو سے زائد دہشتگرد ”ہلاک“ کر ڈالے، وہاں پر سے ہی بی بی سی اور اے ایف پی کی رپورٹس پڑھنے والی ہیں کہ کُل نقصان کیا رہا۔

موجودہ پاکستانی ریاست اپنے دفاع کے حوالے سے اک قابل اور طاقتور ریاست ہے اور مختلف زمان و مکاں میں کیے گئے دفاعی و سیاسی فیصلوں پر تنقید اور ژالہ باری ہم شہریوں کا حق ہے، مگر دفاعی معاملات میں پاکستانی ریاست کی جانب سے سُستی دیکھنے کو نہیں ملتی۔ مشرقی پاکستان کے واقعہ کے بعد، پاکستان کے موجودہ جغرافیہ کے حوالے سے ریاستی مشینری بہت حساس رہی ہے اور اسی ریاست نے 1971 کے سانحہ کے بعد پورے پاکستان میں مرکز گریز قوتوں کو اپنے اپنے زمان و مکاں کے پریشرز کے حوالے سے زیر کیا اور کامیابی سے ریاست کی موجودہ سرحدات کو قائم رکھا۔ یہ سلسلہ ایسے ہی آئندہ بھی جاری رہے گا۔

انڈیا نے اپنی حماقت میں اک بے وقوفی کر ڈالی۔ گیند اب پاکستان کے کورٹ میں ہے اور محدود سا مطالعہ یہ بھی بتاتا ہے کہ پاکستان میں جوابی حملہ کرنے کی بھرپور صلاحیت بھی ہے۔ مگر پاکستان کو بدلہ نہیں لینا چاہیے۔ پاکستان کو جواب دینا چاہیے۔

ریاست کی جانب سے کھینچی گئی سرخ لکیر کی پامالی کے جواب میں پاکستان کو ہر محاذ پر جدید ریاست والی بے رحمی کا رویہ اپناتے ہوئے اپنے مفادات کا تحفظ لازما کرنا چاہیے۔ یہ تحفظ سیاسی حکومت اور فوجی ذہن کی مشترکہ دانش پر بنیاد کرتا ہے اور یہ تحفظ کس حد تک کیا جاتا ہے، آنے والے چند دن اس کی وضاحت کر دیں گے۔

میں ان چند دنوں میں طنز کے تیر اپنے ترکش میں رکھتے ہوئے، اسلام آباد میں بیٹھے عمران، سرحد پر ڈٹے جوان اور پاکستان کے طول و عرض میں سالاری کرتے جرنیلان کے ساتھ ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).