بھارتی جنگی جنون اور ایشیاء کا امن!


پلوامہ حملہ کے الزام کی آڑ میں بھارت نے مقبوضہ وادی میں ظلم کے پہاڑ توڑنے کے ساتھ ہی آزاد کشمیر میں شدید لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرنا شروع کر دی۔ یہ آج کی بات نہیں بھارت نے ہمیشہ راہِ فرار اختیار کی۔ اگر تاریخ کے اوراق اٹھا کر دیکھیں تو بھارتی حکومت اگر ایک طرف کوئی ایسا قدم اُٹھاتی ہے یا اقدام کرتی ہے جس سے پاکستان سے مفاہمت کا تاثر اُبھرتا ہے تو ساتھ ہی وہ فوری طورپر اُس تاثر کو زائل کرنے کے لئے بھی سرگرم ہو جاتی ہے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک بڑا مسئلہ جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات کی نوعیت آج تک کشیدہ ہے، وہ مسئلہ کشمیر ہے۔ کشمیر کا مسئلہ پوری دنیا بالخصوص جنوبی ایشیا کے لئے ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ دوسرا بڑا تنازع پانی کا تنازع ہے۔ ماضی میں بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستانہ تعلقات کو فروغ دینے کے لئے بے شمار وفود کے تبادلے ہوئے اور بہت کوششیں ہوئیں مگر کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہوئی۔

پاک بھارت تعلقات کی پوری تاریخ بھارت کے اس طرح کے رویوں سے بھری پڑی ہے۔ قیام پاکستان سے اب تک تاریخ کاجائزہ لیں تو قدم قدم پر بھارتی وعدہ خلافیاں، مکر و فریب کی داستانیں ہیں قیام پاکستان کے فوری بعد باونڈری کمیشن کے ذریعے اور انگریز حکمرانوں سے مل کر ہمارے لئے مسئلہ کشمیر، مسئلہ مہاجرین، نہری پانی اور اثاثوں کی تقسیم جیسے مسائل پیدا کیے گئے ریاست حیدرآباد، دکن مناورد اور کشمیر کے بڑے حصے پر جابرانہ قبضہ کیا خود مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں لے گیا اقوام متحدہ نے کشمیر میں رائے شماری ی قراردادیں منظور کیں بھارت نے دستخط اکرکے اقرار کیا کہ ہم رائے شماری کے حق میں ہیں کشمیری رائے شماری میں جو فیصلہ کریں گے ہم قبول کریں گے دنیا نے دیکھا کہ بھارت اپنے وعدے سے منحرف ہوگیا رائے شماری کی مخالفت اور کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دے رہا ہے کشمیریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے لاکھوں کشمیری شہید ہو چکے ہر طرح کا ظلم ڈھانے کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک جاری ہے 1948 ء میں پاکستان کی طرف آنے والا نہری پانی بند کرکے مسائل پیدا کیے 1960 ء میں معاہدہ تاشقند پر دستخط کیے مگر اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کے دریاؤں پر چھوٹے بڑے 63 ڈیم تعمیر کرکے پاکستان کو بنجر بنانے پر لگا ہوا ہے۔

اور کہا کہ اب پاکستان سے جنگ کی ضرورت نہیں پاکستان پانی کی کمی اور قحط سے خود ہی بنجر بن کر ختم ہو جائے گا ا 1965 ء میں ہمارے خلاف جنگ کی 1971 ء میں سازش کے تحت مشرقی پاکستان کو ہم سے جدا کر دیا اور اندرا گاندھی کے وہ الفاظ کہ ہم نے دو قومی نظریے کو بحیرہِ عرب میں غرق آب کر دیا ہے 1984 ء میں سیاچین کے وسیع پاکستانی علاقے پر جابرانہ قبضہ کر لیا پاکستان نے ہمیشہ بھارت کے ساتھ مسائل کے حل اور اختلافات ختم کرنے یا کم کرنے کی راہ اپنائی ہے۔

لیکن بھارت نے اِسے ہماری کمزوری پر محمول کرتے ہوئے ہمارے ساتھ ضد اور ہٹ دھرمی کے رویے کو اختیار کیے رکھا ہے۔ 14 اگست 1947 ء کو برصغیر جنوبی ایشیا میں پاکستان اور بھارت دو آزاد ریاستوں کا قیام عمل میں آیا۔ تو پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی تنازعات اور مسائل بھی سامنے آئے۔ اِن میں دونوں ملکوں میں اثاثوں کی تقسیم، سرحدوں کی نشاندہی، نہری پانی کا تنازعہ اور اِسی طرح کے کئی دوسرے مسائل پیدا ہوئے۔ اس کے ساتھ کشمیر پر بھارت کے غیر قانونی قبضے اور بھارتی فوج کشی سے کشمیر کا بہت بڑا تنازعہ اُٹھ کھڑا ہوا۔

پاکستان نے ان تمام تنازعات میں مصالحانہ اور مسائل کو حل کرنے والا رویہ اپنایا۔ جب کہ بھارت کی طرف سے ڈھونس، دباؤ، ہٹ دھرمی اور تنگ نظری پر مبنی رویوں اور اندازِ فکروعمل کا اظہار سامنے آتا رہا۔ نہری پانی کی تقسیم کے معاملے کو بھارت نے پاکستان کے لئے زِندگی اور موت کا مسئلہ بنا دیا۔ دریائے راوی اور ستلج سے نکلنے والے نہریں جو پاکستان میں شامل صوبہ پنجاب کے جنوب مشرقی علاقوں کو سیراب کرتی تھیں کے ہیڈ ورکس بھارت کے حصے میں آئے اِن کے مشرقی پنجاب میں ہونے کی وجہ سے اِن پر بھارت کا مکمل کنٹرول ہو گیا۔

اور اُس نے اِن سے پاکستان علاقوں کو سیراب کرنے والی نہروں میں پانی چھوڑنا بند کر دیا۔ یہ صورتِ حال یقیناًپاکستان کے لئے تشویش ناک تھی۔ پاکستان نے اس مسئلے کے حل کے لئے بھی ثالثی کا راستہ اختیار کیا ا ور عالمی بنک کے تعاون سے پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960 ء سندھ طاس کا معاہدہ طے پایا۔ جس میں مشرقی دریاؤں ستلج راوی کے پانی پر بھارت کا تسلیم کیا گیا اور مغربی دریاؤں چناب، جہلم اور سندھ کے پانیوں پر مکمل طور پر پاکستان کو حقدار ٹھہرایا گیا۔

کشمیر کا مسئلہ بھارت اور پاکستان کے درمیان نزاع کی بہت بڑی وجہ ہے۔ اس کے بارے میں اقوامِ متحدہ کی قرار دادیں موجود ہیں۔ جن میں کہا گیا ہے کہ کشمیری آزادانہ استصواب رائے کے ذریعے پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کر سکیں گے۔ اِس سے قبل وہ پاکستان کی طرف سے دوستی کے ہاتھ بڑھانے کی پیشکشوں کے ساتھ کرتا رہا ہے۔

دونوں ممالک کے کشیدہ تعلقات میں بہتری کے لئے مذاکرات کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن موجود ہی نہیں دونوں ممالک کے اچھے تعلقات ہی اس خطے میں امن کی ضمانت ہیں۔ ورنہ بھارتی جنگی جنون خطہ کے امن کو تباہ کر سکتا ہے۔ بمطابق رپورٹ پاک بھارت جنگ کی صورت میں دُنیا کے 90 فیصد آبادی ختم ہو سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).