عمران خان: خدارا ایک یو ٹرن اور لے لیں


پاکستان کے وزیرِاعظم عمران خان نے امن کی علامت کے طور پر بھارتی پائلٹ کو رہا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس اعلان کے ساتھ ہی بھارت میں فتح کے شادیانے بجائے جا رہے ہیں۔ بھارتی میڈیا پر ایک طوفان مچا ہے کہ پاکستان بھارت کے دباؤ کو برداشت نہیں کر سکا، عمران خان کے پاس بھارتی پائلٹ کو رہا کرنے کے سوا کوئی راستا نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔ بھارتی چینلز اسے جس انداز میں پیش کر رہے ہیں اس کے بعد ہم یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ عمران خان نے یہ فیصلہ بڑی عجلت میں کیا ہے۔

ہم ان کے جذبہ خیر سگالی کی قدر کرتے ہیں اور خطے کے امن کے لئے اٹھائے جانے والے تمام اقدامات کی حمایت کرتے ہیں لیکن یہ بھی نہیں چاہتے کہ پاکستان کے وقار پر کوئی آنچ آئے۔ اگر انڈین میڈیا اس اقدام کو پاکستانی حکومت اور فوج کی کمزوری اور بزدلی بنا کر پیش کرتا ہے تو ہم اسے کس طرح قبول کر سکتے ہیں۔

ہمیں سپاہی مقبول حسین بھی یاد ہے جسے بھارت نے 1965 میں گرفتار کیا تھا لیکن اسے رہائی چالیس سال بعد نصیب ہوئی اور وہ بھی ایسے کہ وہ اپنی زبان سے محروم ہو چکا تھا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ اگر کسی نے غلط کیا تھا تو آپ بھی غلط کریں لیکن کم از کم بھارت پردباؤ ڈال کر کسی معاہدے کے تحت قیدی کو رہا کیا جائے تو اس میں بھی کوئی برائی نہیں ہے۔

انسانی حقوق کے حوالے سے ہم یقیناً اس امر کی تائید کرتے ہیں کہ قیدی خواہ کسی بھی ملک کا ہو اس کے بارے میں فیصلہ جلد ہونا چاہیے لیکن وقت کی نزاکت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ ہم تاریخ کے ایسے نازک ترین دور سے گزر رہے ہیں جہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اگر ہم پر جنگ مسلط کی جاتی ہے تو ہمیں پورا یقین ہے کہ پاک فوج وطنِ عزیز کے دفاع کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے اور دشمن کے سامنے پوری قوت سے ڈٹ جائے گی۔

ہمیں اپنی فوج پر پورا بھروسا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم جنگ نہیں امن چاہتے ہیں۔ جنگ بہت بری چیز ہوتی ہے۔ جنگ سوائے تباہی اور بربادی کے اور کچھ نہیں کر سکتی۔ کوئی بھی ہوش مند انسان جنگ کی حمایت نہیں کر سکتا۔ پاکستان اور بھارت دونوں ممالک ایٹمی صلاحیت رکھتے ہیں اگر جنگ شروع ہو جاتی ہے تو اس کو روکنا شاید کسی کے بس میں نہیں ہو گا۔ کیوں کہ جنگ شروع کرنا بہت آسان اور روکنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ جب دونوں فریق جنگی جنون میں مبتلا ہوں تو اختتام کے بارے میں کوئی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔

جنگ اگر ایٹمی ہتھیاروں تک جاتی ہے تو کوئی نہیں بچے گا۔ یہ جنگ آدھی دنیا کو تباہ کر سکتی ہے۔ ہم اپنی آنیدہ نسلوں کو کیا دینا چاہتے ہیں اس کا فیصلہ ہم نے ہی کرنا ہے۔ اس تناظر میں عمران خان کی امن کی خواہش کا بھرپور خیر مقدم کرنا چاہیے اور اس حوالے سے ان کی کوششوں کو ضرور سراہنا چاہیے لیکن یہ بھی دھیان رہے کہ وطن کی عزت و حرمت پر کوئی سمجھوتہ ناممکن ہے۔

جہاں تک بھارتی پائلٹ کا سوال ہے تو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اسے جنگی قیدی سمجھنا بھی درست نہیں ہو گا۔ بھارت نے سرجیکل سٹرائیک کا دعویٰ کیا تھا۔ نہ تو بھارت کی طرف سے باقاعدہ جنگ کا اعلان ہوا ہے نہ پاکستان کی طرف سے۔ چند دن پہلے بھی بھارتی طیاروں نے بین الاقوامی سرحد کی خلاف ورزی کی تھی اور اب بھی یہ بھارتی طیارے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستانی حدود میں داخل ہوئے تھے۔

پہلی بار تو طیارے بچ کر نکل گئے تھے مگر اس بار ہماری پاک فوج نے انہیں خلاف ورزی کا مزہ چکھا دیا۔ دونوں طیارے تباہ ہوئے اور پائلٹ گرفتار ہے۔ یہ کوئی جنگی قیدی نہیں لہٰذا اس حوالے سے جلد بازی کی ضرورت کیا ہے؟

ہم اس حوالے سے وزیر اعظم عمران خان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ خدارا ایک یو ٹرن اور لے لیں اور ابھی اس بھارتی پائلٹ کو رہا نہ کریں۔ پہلے بھارتی حکومت کے سامنے امن قائم کرنے کے حوالے سے اپنا موقف رکھیں اور اپنی شرائط کے مطابق رہائی کا عمل مکمل کریں۔

آپ کے اعلان نے یہ ثابت کیا ہے کہ پاکستان ایک مہذب ملک ہے لیکن بھارتی میڈیا کے زہریلے پروپیگنڈے کو بھی مدِ نظر رکھیں۔ بصورت دیگر ناراض پاکستانی آپ سے یہ مطالبہ بھی کر سکتے ہیں کہ اس پائلٹ کے ساتھ بھارتی جاسوس کلبھوشن کو بھی رہا کر دیں وہ بے چارہ بھی کافی دنوں سے گھر سے دور ہے اور ہاں بھارت کے دو طیاروں کا جو نقصان ہوا ہے اسے پورا کرنے کے لئے ایک دو ایف سکسٹین طیارے بھی بھجوا دیں تاکہ وہ آپ کے احسان مند رہیں۔ فیصلہ تو آپ کے ہاتھ میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).